’’اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ تم پست ہمت ہو جاوٴاور تمہاری ہوا اکھڑ جائے اور ثابت قدم رہو ، بے شک اللہ ثابت قدموں کے ساتھ ہے۔‘‘ (انفال۴٦)’’تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے ، اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں ‘‘۔( ﴿آل عمران ١۰۴)
قوموں کا عروج و زوال اس دنیا کا دستور ہے ۔ انسانی تاریخ نے ہمیں بے شمار انقلابوں سے روشناس کرایا، ہر دور میں انسان نئے انقلاب برپا کرنے کی کوشش میں رہا ہے جب کہ دسیوں انقلاب روئے زمین پر بسنے والے انسانوں نے دیکھ لئے، ان میں سے کچھ ایسے انقلاب تھے جنہوں نے زمین کے اکثر حصے کو اپنی لپیٹ میں لیا ،ان میں سے سیکولرزم ،کمیونزم ، کپیٹل ازم قابلِ ذکر ہیں۔مگر انسانی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ روئےزمین نے ایک واحد انقلاب دیکھا ہے جو کہ رنگ ،نسل، علاقائیت جیسی مہلک بیماریوں سے پاک تھا، جس میں کسی فرد واحد پر بھی بے جا ظلم نہیں کیا گیا ۔آج ساری انسانیت امن ، سکون، اور خوشحالی کیلئے ترس رہی ہے اور اسی انقلاب کے منتظر ہیں مگر یہ انقلاب صرف اور صرف وحدت ِاُمت ہی کے ذریعےسے ممکن ہے، بکھرے ہوئے تاروںسےکوئی بات نہیں بننے والی ہے۔وحدت امت کیلئےقرآنی اصول کو مدِ نظر رکھ کر تین چیزوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔:١۔ اللہ کی اطاعت ،۲۔ اللہ کے رسول کی اطاعت ،۳۔ اتحاد ( انتشار اور افتراق سے گریز)
یہی وہ شاہ راہ ہے ،جس سے مسلم امت دنیا کی ساری طاقتوں سے نبرد آزما ہو کر عالمِ نو کی تعمیر کر سکتی ہے اور مسلمانوں کی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمِ نو کی از سرِ نو تعمیر کرے۔
ایک مردِ قلندر ایمان و یقین کے درجے پر اپنے اس خیال کا اظہار کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ مغربی تہذیب اپنا رول ادا کر چکی اور اس کا ترکش خالی ہو چکا اور اب وہ بڑھاپے کی منزل میں ہے، وہ اس پکے ہوئے پھل کی طرح ہے جو ٹوٹ کر گرنے والا ہے ۔ ؎
تاک میں مدت سے بیٹھے ہیں یہودی سودخوار
جن کی روبائی کے آگے ہیچ ہے زورِ پلنگ
خود بخود گرنے کو ہےپکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھئے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
(بالِ جبریل)
ان کے خیال میں عالم پیر نزع کے عالم میں ہے اس کی موت یقینی ہے۔ ؎
نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و سازِ حیات
خودی کی موت ہے یہ اور وہ ضمیر کی موت
دلوں میں ولولہٴ انقلاب ہے پیدا
قریب آگئی شاید جہانِ پیر کی موت
وہ عالم قدیم جس میں یورپ کے جواری ہار جیت کی بازی لگا رہے ہیں ،وہ بنیاد ہی سے مٹنے والا ہے اور اس کی بنیادوں پر ایک نئی دنیا کی تعمیر ہونی والی ہے، اقبال کہتے ہیں کہ اس دنیا کی تعمیر بھی وہی کر سکتا ہے ،جس نی انسانیت کے لئے دنیا میں بیت الحرام بنایا تھا ، اور ابراہیم و محمد علیھما السلام اس کے وارث ہوئے تھے ، اور دنیا کی قیادت کا علم سنبھالا تھا ، اقبال مسلمانوں کو اس بار امانت کے اٹھانے کی دعوت دیتے اور انھیں بیدار و تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کبھی مشرق و مغرب کی تباہی کا واسطہ اور کبھی خدا کی قسم دیتے ہیں اور کبھی یورپ کی پیدا کردہ عالمی بگاڑ ، فساد اور انتشار کا حوالہ سامنے لاتے ہیں کہ اس نے دنیا کو بجائےامن و عافیت کے گہوارے کے فتنہ و فساد اور مصاب و آلام ، ظلم و ستم ، آہوں اور کراہوں کا جہنم بنا دیا ہے، جو زمین مسجد کی طرح پاک و مقدس مانی گئی تھی اور جس میں خدا کا ذکر و فکر ، تسبیح و تقدس حمد و ثنا کی تعلیم دی گئی تھی ، اسے فرنگ نے اپنی بدطینتی سے میخانہ اور قمارگاہ ، درندوں کا بھٹ ، فسق و فجور ، اور چوروں ، لٹیروں کی پناہ گاہ بنا دیا۔ اس لئے وقت آ گیا ہے کہ بانئ بیت الحرام، اور حاملِ پیام اسلام پھر عالمی قیادت کے لئے میدان میں آئے اور مغرب کے پیدا کردہ فساد کو صلاح سے ،بگاڑ کو بناوٴ سے اور تخریب کو تعمیر سے بدل دے اور قواعد ابراہیمی ؑاور سنتِ محمدیؐ کے نقشہ کے مطابق دنیا کی تعمیر نو کرے۔
وحدت کا تصور اسلام کی بنیادی اور اصولی تعلیم سے ہی ہمیں ملتا ہے۔ اسلام نے روز اول سے ہی انفرادیت کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کو بھی بڑی اہمیت دی ہے، جس سے خواہی نخواہی ہر مسلم فرد گذر رہا ہے، بس قدرے احساس کی ضرورت ہے۔
’’وحدت و اتحاد ایک ایسی ضرورت ہے جس کی طرف اسلام باربار دعوت دیتا ہے اور تاکید کرتاہے کہ جس امت کادین ایک، دینی شعائر ایک، شریعت و قانون ایک، منزل ایک اور خدا و رسول ایک ہو، اسے بہرحال خود بھی ایک ہونا چاہئے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے جہاں امت کو ایک ہوکر اللہ کی رسی کو پکڑنے کی تاکید کی ہے اور افتراق و انتشار سے روکا ہےوہاں خطاب واحد کے بجائے جمع کے صیغوں سے کیاہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر فرد جزو امت ہے وہ کسی صورت میں امت سے جدا نہیں ہوسکتا ہے۔ وحدت امت کی فرضیت، اہمیت اور ضرورت کی اس سے بڑی دلیل اور کیاہوسکتی ہے کہ شریعت اسلام نے امت کو دن میں پانچ بار جمع ہوکر نماز قائم کرنے کاحکم دیا، پھر ہفتہ میں ایک بار اس سے بڑے اجتماع کے لئے جمعہ کو فرض قرار دیا اور پھر نماز عید کی شکل میں سالانہ اجتماع کا اہتمام کیا اور تاکید کی کہ یہ اجتماع آبادی سے نکل کر کھلے میدان میں منعقد ہو اور مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اس میں شرکت کی ترغیب دی ،پھر اس سے بڑا اہتمام یہ کیاکہ فرضیت حج کے ذریعہ مشرق و مغرب، جنوب شمال اور دنیا کے اطراف و اکناف میں بسنے والی امت کو ایک مرکز پر جمع ہونے، ایک ہی جیسے لباس میں جمع ہونے، ایک ہی کلمہ ادا کرنے اور ایک ہی جیسے افعال ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ انفرادی عبادت کے مقابلہ میں اجتماعی عبادت کی جو اہمیت ہے اس میں من جملہ دوسری باتوں کے امت کے اتحاد کا نکتہ بھی شامل ہے۔ زیر نظر کتاب " وحدت امت " دیو بندی مکتب فکر کے معروف عالم دین محترم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی ایک گرانقدرتصنیف ہے، جس میں انہوں نے لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر تمام مسلمانوں کو اتفاق واتحاد کی دعوت دی ہے اور انہیں تفرقہ بازی اور انتشار سے بچنے کی ترغیب دی ہے"۔کیوں کہ کسی بھی قوم کی کامیابی ،کامرانی اور فتح ونصرت کی تاریخ رقم کرنے میں سب سے کلیدی رول اس قوم کے درمیان پایا جانے والے اتحاد ادا کرتاہے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ قوموں کے عروج و زوال،اقبال مندی و سربلندی،ترقی و تنزلی،خوش حالی و فارغ البالی اور بد حالی کے تقدم وتخلف میں اتحاد و اتفاق،باہمی اخوت و ہمدردی، آپسی اختلاف و انتشار، تفرقہ بازی اور باہمی نفرت و عداوت اہم ترین اسباب ثابت ہوئے ہیں ،ملت اسلامیہ کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ جب تک فرزندان توحید کے اندراتحاد و اتفاق پایا جاتا رہا تب تک وہ فتح ونصرت اور کامیابی و کامرانی کا علم پوری دنیا میں لہراتے رہے اورجب انہوں نے اتحاد و اتفاق کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار پھیلانا شروع کیا تو ان کو سخت ترین ہزیمت و شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ سپرپاور قوم کی حیثیت رکھنے والے مسلمان دنیابھر میں ذلت ورسوائی کا سامناکرنے لگے ،اسی لئے قرآن کریم نے اتحاد واتفاق کی اہمیت اور اسے برقراررکھنے پر بے پنا ہ زور دیاہے ،واضح طور پر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کہاہے جس کا ترجمہ یوں ہے:’’ اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو جاؤ اور اپنے اوپر اللہ کے اس فضل کو یاد رکھو کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کو جوڑا اور تم اس کی رحمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے کھڈکے بالکل کنارے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچایا۔‘‘ (سورہ آل عمران ،آیت نمبر 103)
احادیث رسول ،آثار صحابہ اور امت کے تمام مصلحین ،داعین ،ائمہ ،علماء ،مفکرین نے اتحاد کی دعوت دی ہے۔اس کو اپنانے ،باہم شیر وشکر رہنے کی تلقین کی ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ اختلاف کا شکاریہی قوم ہے۔اکیسویں صدی میں سیاسی اور اقتصادی غلبہ حاصل کرنے کیلئے کئی متضاد مذہب ،فکر اور کلچر کے حاملین بھی ایک ہوچکے ہیں،جو کل تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ،وہ لوگ بھی باہم شیروشکر نظر آرہے ہیں ،جن کے پاس اتحاد کیلئے کوئی نقطہ نہیں ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے پاس اختلافات کے باوجود اتحاد قائم کرنے کیلئے بہت سی مشترک چیزیں ہیں۔اللہ تعالی کی وحدانیت ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سمیت بہت سے ایسے امور ہیں، جن پر مسلمانوں کے سبھی فرقے ،سبھی مسلک کا اتحاد ہے لیکن اس کے باوجود عملی سطح پر مسلمان اختلاف کے شدید شکار ہیں ۔دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ اختلاف کی شکار اس قوم کے رہنما ہمیشہ اتحاد کی باتیں کرتے ہیں لیکن کبھی یہ مشن کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوپاتاہے ۔عالم اسلام کے ساتھ ہندوستان کے حالات بھی مسلمانوں کیلئے انتہائی پیچیدہ اور مشکل ہوچکے ہیں۔ہر آنے والادن ایک نئی مصیبت اور طلوع قیامت کی خبر دیتاہے ،ملک کی آب وہوا چیخ وپکا رکر کہ رہی ہے کہ مسلمانوں متحدہوجائو ورنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں!
لیکن ہم سیاسی ،سماجی ،مذہبی سطح پر شدید اختلاف کے شکار ہیں اور ایسی کوئی بھی پہل نہیں کررہے ہیں جو عملی سطح پر اس مہلک مرض کا ازالہ کرسکے ،زیر نظر تحریر میں ہم ایسی ہی کچھ چیزیں پیش کرنے جارہے ہیں جس کی بنیاد پر ہم عملی اتحاد اپنے درمیان قائم کرسکتے ہیں، ایک ایسی کوشش کرکے اس قیامت خیز منظر سے باہر نکل سکتے ہیں،خوف وہرکے اس ماحول سے باہر نکل سکتے ہیں ۔ اس کیلئے تمام مسلک کے رہنمائوں کو اپنے اصولوں ونظریات سے سمجھوتہ کرناپڑے گا کیوں کہ اتحاد یہ نہیں ہے کہ آپ دوسرے کو اپنی بات ماننے پر مجبور کررہے ہیں بلکہ قیام اتحاددرحقیقت اس کوشش کا نام ہے کہ امت کے مفاد کی خاطر آپ اپنے خیالات سے سمجھوتہ کرکے دوسروں کی تائید کررہے ہیں ۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے مسلکی اختلاف کو بالائے طاق رکھنا ہوگا ۔ اس کی سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ ہم اپنے نظریات اور اجتہادات پر عمل کریں ،اس کی تشریح کریں لیکن دوسروں کی تنقید نہ کریں ،اختلاف اپنے مسلک اور نظریات کی تشریح سے نہیں ہوتاہے بلکہ یہ تنازع اس وقت شروع ہوتاہے جب اپنے مسلک اور نظریات کی تائید میںہم دوسروں کی تنقیدوتنقیص شروع کردیتے ہیں۔علمی ،فقہی اختلاف شریعت اسلامیہ کا طرہ امتیاز ہے ۔دورِصحابہ میں بھی فقہی اور علمی اختلاف تھا لیکن ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف ذرہ برابربھی رنجش نہیں تھی ،ایسی ہی کیفیت دورتابعین اور بعد کے ائمہ اور فقہاء کے درمیان پائی جاتی رہی ہے ،ان کا اجتہاد ایک دوسرے کے خلاف ہوتاتھا لیکن اس کے باوجود وہ آپس میں باہم شیر وشکر تھے، کسی کے دل میں کسی خلاف کے ذرہ برابر بغض وکینہ نہیں تھا لیکن آج یہ علمی اور فقہی اختلاف بغض وعناد کا سبب بن گیاہے ۔ایک مسلک او رنظریہ کے ماننے والے دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،سچ یہ ہے کہ ان دنوں مذہب کی تبلیغ کے بجائے تمام ترتوجہ مسلک کی ترویج پر ہے ۔ قیام اتحاد کیلئے درج ذیل میں چند اہم نکات ہیں، جنہیں عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہیں۔
(۱) ہم سب کلمہ طیبہ کی اساس پر اتحاد ملت کو فروغ دیں گے اور ملت کے مشترکہ مسائل کیلئے مشترکہ جدوجہد کریں گے ۔(۲) ہم سب صحابہ کرام ،امہات المومنین اور اہل بیت کا احترام ملحوظ رکھیںگے اور ایسی باتوں سے بچیں گے جوان کی شان میں تنقیص کا موجب ہوں۔(۳) جوگروہ اپنے آپ کے بارے میں جن عقائد کا اقرار کرتاہے اور وہ اپنی جو رائے ذکر کرتاہے اسی کو ان کا حقیقی نقطہ نظر باورکریں گے ،ہم ان کی طرف اس سے مختلف ایسی آراء کی نسبت کرنے سے گریز کریں گے جس سے ان کو انکار ہو۔(۴) اس بات کا خیال رکھیں گے کہ دوسرے نقطہ نظر کے حاملین جن بزرگوں سے عقیدت واحترام کا تعلق رکھتے ہیں ،علمی وفکری مباحث کے درمیان ان کے بارے میں ایسی بات نہ کی جائے جو دل آزاری کا باعث بنے ۔(۵) مسالک کے اختلاف کی گفتگو کو درسی اور علمی محفلوں تک محدود رکھیں گے ،عوام میں حتی الامکان ایسے مسائل کو لانے سے اجتناب کریں گے اور اگر ایسے مسائل کو عوام میں لانا ضروری سمجھیں تو آداب اختلاف کو ملحوظ رکھیں گے اور داعیانہ اسلوب سے کام لیں گے ۔(۶) ہم اپنی تحریروں میں اختلاف رائے کو اعتدال اور دوسرے فریق کی بے حرمتی سے اجتناب کی رعایت کرتے ہوئے پیش کریں گے ۔(۷) ملت اسلامیہ کے جو مشترک مسائل ہیں ہم انہیں مشترکہ طور پر مرکزی وریاستی حکومتوں ،سیاسی جماعتوں اور برادران وطن کے سامنے پیش کریں گے ۔(۸) ہم اس بات کا خیال رکھیں گے مسلکی اختلافات مسلمانوں کیلئے سیاسی اعتبار سے نقصان اور بے وزنی کا سبب نہ بنے اور ہم پوری طرح اجتماعیت کا ثبوت پیش کریں گے ۔(۹) اگر کبھی مختلف مسلکوں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان اختلاف کی صورت پیدا ہوجائے تو ہم کریں گے کہ باہمی توافق اور صلح کے ذریعہ مسئلہ حل ہوجائے ،پولس کیس اور مقدمہ بازی کی نوبت نہ آئے اور اعدائے اسلام ہمارے اختلاف سے فائدہ نہ اٹھاسکیں ۔
ڈاکٹر منظور عالم نے گذشتہ ماہ ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے مذکورہ بالا اشیاء کے علاوہ مسلم پرسنل لاء بورڈجیسے پلیٹ فارموں کا تذکرہ بھی کیا تھا ، یعنی جہاں اس طرح کے بڑے پلیٹ فارم ہوں وہ بھی تمام تر مسالک اور تنظیموں کے ذمہ داران کو اتحاد کی طرف لانے میں کوشاں رہنے چاہیے ۔۔ دور حاضر میں ایک اور بھی بڑی بلا ہے جسے لوگ خاص کر داعیان دین چند ایک کو چھوڑ کر بجائے مثبت کے منفی ہی استعمال کر رہے ہیں، ہر فرد اپنی بات بآسانی رکھ کر اپنے علم و ناتواں فکر کی ترویج کر رہا ہے۔
اس پلیٹ فارم پہ ہر کوئی ایک دوسرے کو مناظرہ بازی کی دعوت دے رہا ہے، بعضے ایسے بھی ہیں جو خود کو راہ اعتدال کے حامی بتارہے ہیں ۔ دین کے اصولوں کے بجائے فروعی چیزوں کو پروان چڑھایا جارہا ہے جس سے نہ ہی دین کو فائدہ ہورہا ہے اور نہ ہی ملت مرحوم کا بلکہ اس کے برعکس امت مسلمہ کی ناو غرق دریا کرنے میں معاون بن رہے ہیں۔
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
پتہ۔پلہالن