ٹوٹ گیا وہ شجر
آنگن کے پیڑ کا
جسکی جڑوں کو سینچا تھا اشک سے
بارش کی بوندوں کی طرح
ہتھیلی پہ رکھ رکھ کے
ہر کلی کی قبا میں شبنم کے قطرے جڑے تھے
سورج اُگنے سے پہلے، شب کی شرمیلی خاموشی میں گماں کے بٹن ٹانکتے ٹانکتے نہ جانے کتنی بارخار محافظ کی شرارتوں نے چبھویا ہے
انگلیوں کی چھیڑخوانی کو
تیری الھڑ جوانی کے کھلنے تک
بندِ قبا کو بادِ عشقِ صبا نے نرم سرگوشیوں سے چھو کر کھولاتو…!
تمناؤں کی باہیں انگڑائیاں لینے لگیں
چہچہاہٹ نے ہوا کے تاروں کو چھیڑا تو
فضاء میں گنگناہٹ تیرنے نکلی
پچھلی بارش کی طرح
سوچ کے اس پار کافوری گاؤں کی نیلے رنگ کی جھیل میں سرخ بدن لئے کوئی جل پری سی
جھیل جسکے کناروں پہ تتلیاں وفا کی نظموں سے خوشبو تراشتی ہیں
گلوں کے تار تار پیراہن بادِ صر صر کی زد پہ …تُف …..!!!
دھندلی شام کے بہکے بہکے چراغ کی بتی دھواں چھوڑ رہی ہے جیسے
میرا ہونا پتنگے میں ڈھل گیا
محبت کے آخری سرے کو تھام کر
دئے کی لو میں فنا ہوگیا
مری راکھ تری خاک سے ہمکنار مسافتوں کی نذر
رقص کا دائرہ توڑ کے دونوں موسم کی تلاش میں نکلے
اگلے موسم میں نئے شجر کو کھلانے
اپنے آنگن کے پیڑ پر
سورج چاند تارے اوس خوشبو ہوا
نہ جانے اور کتنے، کون، کیا کیا…….!
ارض و سما کو اوڑھنا بچھونا بناکے
خوابوں کے جزیرے میں سو گئے.
ہماری طرح………………….!!!!
علی شیداّ
نجدہ ون نپورہ اسلام آباد کشمیر
9419045087