تم جو ہنستی ہو تو
میرے آنگن کے خاموش پیڑ پہ
دھوپ کِھکھلانے اُترتی ہے
دھوپ۔۔ جو ابدیت کے گاؤں میں خود بخود اُگتی رہتی ہے
ہر موسم میں ، وقت کی کیاریوں سے باہر
ابدیت کا گاؤں کالے جزیرے پہ وقت سے پہلے بسایا ہوا ہے
کالا جزیرہ، جو اَن گِنت خاموشیوں سے تعمیر شدہ ہے۔۔۔۔
تم جو ہنستی ہو تو
مرے آنگن کے پیڑ پہ بادل رقص کرنے
اُترتے ہیں
سفید روئی میں ملبوس پریوں کی طرح
سارے رنگوں کے غبارے پھوڑ کے
بادل۔۔جو گاؤں کے تالاب میں اکثر نہاتے رہتے ہیں
برف کی پہلی تہہ میں چُھپے گالے بدن پہ رگڑتے ہیں
برف کی پہلی تہہ،جس پر کبھی کوئی موسم نہیں آتا ہے
بادل ابدیت کے سمندر سے اُڑان بھرتے ہیں
مدوجزر کے اُڑن کھٹولے پر۔۔۔۔۔
تم جو ہنستی ہو تو
مرے آنگن کے پیڑ پہ بارشیں بھیگنے چلی آتی ہیں
دکھ سکھ کے شعلوں سے بُنی چادر اوڑھے
شعلے ابدیت کی مسکراہٹ میں پھلتے پھولتے ہیں
ان پہ روشنی سے نچوڑا عکس چڑھایا جاتا ہے
وقت سے باہر کی برف میں ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔۔۔
تم جو ہنستی ہو تو
دھوپ، بادل اور بارش مرے آنگن کے پیڑ کی لامحدویت میں پناہ لیتے ہیں
پرندوں کی چہچہاہٹ پہ دھڑکتے ہیں
اوس کی بوندیں چُوستے ہیں
پتوں کی سرسراہٹ پہ سوتے ہیں
ہوا کی سرگوشیوں پہ اونگھتے ہیں
تم جو ہنستی ہو تو
مرے آنگن کے پیڑ پہ میلہ لگتا ہے
وصل کے کسی پُر گمان لمحے کا
ہجر کی صدیوں بھری رات کا
کوئی دکھ کسی ابدیت کا گیت گاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
علی شیدؔا
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
موبائل نمبر؛9419045087