بے شک تازہ ہوا ، صاف پانی اور دیگر غذا ئیںقدرت کی جانب سے عطا کردہ وہ نعمتیں ہیں،جن پر انسان کی صحت مند زندگی کا انحصار ہے۔ان نعمتوں کوجب انسان ہی ہر سطح پر جب آلودہ اور مضر صحت بنانے کی کوششیں جاری رکھیں تو انسان کی یہ عارضی زندگی انتہائی تلخ اور نابہ کار بن جاتی ہے۔اپنی اس وادیٔ کشمیرمیں ایسا سب کچھ ہورہا ہے کہ جس سے نہ صرف یہاں کے لوگوں کی زندگی اور صحت خست و پَست ہورہی ہے بلکہ یہ خطہ ٔجنت ِبے نظیر بھی جہنم زاربنتی جارہی ہے ۔اشیائے خوردونوش کی آلودگی نے تو قیامت برپا کر کے رکھ دی ہے ۔ چاول ، دودھ ،تیل ، گھی ، آٹے ، گوشت ، خشک میوے،مصالحہ جات ، ادویات اور مشروبات و دیگر کھانے پینے کی چیزوں میں بڑے پیمانے پر ملاوٹ نے انسانی صحت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے، گویا اب وادی ٔ کشمیرسر فہرست نظر آرہی ہےاور اس پر ستم یہ کہ دن بہ دن آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہےاور ہر معاملے میں اس کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔اگرچہ آلودگی کا نام سنتے ہی کسی بھی انسان کے کان بجنے لگتے ہیںاور ایک کراہیت سی محسوس ہوتی ہے اور اس سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔مگر یہ آلودگی محض کھانے پینے کی اشیاء تک محدود نہیں رہی ہے، بلکہ ہر وہ چیز جس سے انسان کا سابقہ پڑتا ہے، آلودگی اور ملاوٹ کے باعث یہاں کے لوگوں کے لئے نقصان دہ بن گئی ہے ۔ ظاہر ہے خالص اور پاکیزہ چیزیںنہ صرف جسمانی ، روحانی اور اخلاقی بالیدگی کے ضامن ہیں، بلکہ اللّٰہ کو بھی مطلوب ہے ۔اللہ کا واضح فرمان ہے کہ وہ پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے ۔لیکن اب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بھی یہاں کے لوگوں نے بھُلا دیا ہے۔اب اگر اُن تمام آلودگیوں کی بات کریں جو نہ صرف انسانوں بلکہ ہر جاندار کے لئے نقصان دہ ہیں، خود انسانوں کی پیدا کردہ ہیں۔ جس کی وجہ سے فضا، دریا، سمندر ، کھانے پینے کی تمام اشیاء آلودہ ہو کر نا قابلِ علاج بیماریوں کا سبب بن چکی ہیں ۔ قدرت نے انسانوں اور تمام جاندار مخلوقات کے لئے ہر شے کو خالص فراہم کیا ہے مگر یہ انسان ہی ہے، جس کی صنعتوں اور دیگر کیمیائی کارخانوں سے نکلنے والی زہریلی و مضر صحت گیسوںسے پوری فضا کو آلودہ ہوگئی ہے اور تازہ آکسیجن گیس میں کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کی مقدار بڑھ جانے سے انسانی صحت کو شدید ترین خطرات لاحق ہو چکے ہیں ۔ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے بارشوں میں کمی آگئی ہے، زمین کا بڑا حصہ بنجر ہوتا جا رہا ہے ۔ کیمیائی فضلے جو دریاؤں میں بہائے جا رہے ہیں، اس سے آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں ،بہت سے آبی حیات کی نسلیں ناپید ہو رہی ہیں ۔ہمارے یہاں دیہات میں گھروں کا کوڑا کرکٹ کھیتوں میں ڈال کر قدرتی کھاد کے لئے استعمال ہوتاتھا مگر آج زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لئے مصنوعی کھاد کے استعمال نے تمام فصلوںکو صحت کے لئے نقصان دہ بنا دیا ہے ۔ شہرکی آبادی کا ایک بڑا مسئلہ گھروں سے روزانہ نکلنے والے ہزاروں ٹن کوڑا کرکٹ ہے ،جس کو ٹھکانے لگانے کا دُرست انتظام نہ ہونے سے تعفن پھیلا رہتا ہے جو مختلف بیماریوں کی وجہ بنتاہے۔ اسی طرح سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں چلنے والی گاڑیوں کی وجہ سے بھی آلودگی پیدا ہوتی ہے، جس سے اعصابی بیماری پھیلتی رہتی ہے ۔ اب ہمارے دِلوں میں ایمان و عقیدے میں بھی آلودگی پیدا ہوچکی ہے جس کے نتیجے میںاشیائے خوردنی کی ہر چیز میں ملاوٹ کرنا اب عام سی بات ہوگئی ہے اوران افعال سےاپنی اس وادیٔ کشمیر میں خشکی اور تری میں جو فساد برپا ہے، وہ سب ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔جن دریائوں اور ندی نالوں کا پانی فصلوں کی آبیاری اور پینے میں استعمال ہوتاتھا،آج فصلوں میں بھی بیماریاں پھیلنے کا باعث بن رہا ہے۔ پانی کے بغیر تو کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتااور یہ انسان ،حیوان ،پیڑ پودوںاور نباتات کی زندگی ہے،ہماری کرتوتوں سے نایاب ہورہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے ہم ان سبھی پیدا شدہ حالات کے پسِ منظر میں اپنے آپ پر نظر ڈالیں،اپنے آپ کو ٹٹولیںاور اپنے قول و فعل کا محاسبہ کریں کہ ہم کیا سے کیا ہوگئے ہیں اور ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟