آلودگی جدید دور کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ اخبارات، جرائد، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، ادارہ جات اور انجمنیں اس کی آگہی اور سدباب پر اپنے تحرکات لے رہی ہیںلیکن ابھی تک اس مسئلہ کے حل کی کوئی پائیدار اور مثبت منصوبہ بندی سامنے نہیں آرہی ہے۔ظاہر ہے کہ نظام فطرت میں تبدیلی لانے، بگاڑ پیدا کرنے اور انسانی ماحول اور گردو پیش کی صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کے لئے اللہ نے جو انتظام و انصرام کیا ہے، اس کی خلاف ورزی کرنے کا نام ہی فساد ہے۔لہٰذا جو لوگ قوانین فطرت کو بدلنا چاہتے ہیں یا بدل رہے ہیں اور نظام فطرت کو درہم برہم کرنے میں لگے ہوئے ہیں یا ایسے اسباب و عوامل پیدا کر رہے ہیں، جن سے ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہے،بہت بڑے فساد کا ضامن ہےاور اسی فساد سے ہوا کی کثافت، فضاء اور پانی کی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے انسانی وجود کو شدیدخطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ماحول پر آلودگی کے مختلف اندازوں سے مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔’’فضاء‘‘ انسانی حیات کے بقا میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ یکساں طور پر حیوانات، نباتات، انسانوں اورنظر نہ آنے والی کئی مخلوقات کےلیے زندگی کی ضمانت ہے۔جس کے تحت ہم اپنی چوبیس گھنٹوں کی زندگی کے دوران حرکات و سکنات بجا لانے، کام کاج کرنے اور زندہ رہنے کےلیے فضا ہی سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔فضا کی وسعتوں میں نرم و نازک ہوائیں چلتی ہیں، جن کے دوش پر بادلوں کا قافلہ رواں دواں رہتا ہے ۔ہوا کے اندر آکسیجن کی کثرت، ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا برسنا، دھوپ،گرمی وسردی کا اُتار چڑھاؤ ، موسمی تبدیلیاں یہ سب کچھ ایسا توازن بھرا نظام ہے جو کہ انسانی حیات اور دیگر جانداروں کی زندگی کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔مگر جب انسانوں کی غلط طرز معاشرت اور غیر فطری عوامل کے استعمال سے فضا کے فطری انداز کو تبدیل کیا تو یہ فضاء اس کیفیت تک جا پہنچی کہ جس سے اب فائدہ سے بڑھ کر نقصانات ہونا شروع ہوئے ہیں، اسی نوعیت کو فضائی آلودگی کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو ہر طرح سے سنوارا، اس کے اوپر درخت پیڑ پودے اُگائے۔ پانی کی نہریں اور چشمے جاری کئے، سرسبز شاداب کھیتیاں ہرے بھرے جنگلات بنائے، پھول پھل پیدا کئے،روشنی وتاریکی، آب و ہوا کے منظم انتظامات جاری کئے تاکہ انسانوں کے رہن سہن میں آسانی پیدا ہو۔تاہم انسان نے اپنی بے ترتیب طرز حیات سے اس زمین کو اس قدر ناگوار اور اذیت ناک بنالیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح اب انسان کو روندنےکے در پے ہے۔ دنیا بھر میں جس صنعتی ترقی کے دور دورہ کا جو دھنڈورا پیٹا جارہا ہے،وہ ماحولیاتی تنزلی کا سبب بن چکا ہے،جس نے فطری ماحول کو ابتر سے ابتر بنا لیا ہے۔اسی طرح زمینی آلودگی کی صورتیں ہیں ،جن میں کچھ وہ ہیں جو قدرتی ہیں جبکہ دوسری انسانی نقل و حرکت کے باعث بنتی ہیں۔ انسانی استعمال میں لائی ہوئی چیزیں، فضلہ جات، ٹھوس اور مادی چیزوں کے انبار، تعمیرات اور کارخانہ جات کے فالتو مٹیریل، گلی سڑی چیزیں، زرعی اور صنعتی فضلہ جات وغیرہ زمین کی آلودگی میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔در حقیقت اس زمین کا دوتہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ اس پانی کا سب سے زیادہ ستانوے فیصد حصہ سمندروں کی صورت میں موجود ہے۔دو فیصد برف کے پہاڑ ہیں، جن سےبرف باری اور بارش ہوتی رہتی ہے، درجہ حرارت بڑھنے کی بدولت یہ پانی دریاؤں اور نہروں کی صورت میں خشکی پر لانے کےلیے استعمال ہوتا ہے اور پھر زیر زمین پانی ہی انسانوں کو سب سے زیادہ کام آتا ہے۔پانی کا فطری طور پر ایک خاص رنگ و بو اور ذائقہ ہے، جب مضر صحت مادہ کی بعض اشیاء پانی کے اس فطری خواص کو بدل دیں تو یہ آلودہ پانی کہلاتا ہے۔ اسی طرح انسانی کسب کے نتیجے میں بھی آبی آلودگی پھیلتی ہے ۔ صنعتی، حیواناتی اور انسانی فضلہ جات کو آبی گزر گاہوں اور نہروں میں پمپ کیا جاتا ہے،کوڑا کرکٹ،کیچڑ و غلاظت دریائوں میںڈالی جاتی ہے، جو پانی کی آلودگی کا اہم سبب ہےجبکہ زرعی اور کیمیاوی ادویات اور کیمیکلز بھی پانی کو آلودہ کرتے ہیں۔ جب تک ان تمام تر آلودگیوں پر مکمل طور پر روک نہیں لگائی جائے اور اس کے متعلق جامع احکام اور تعلیمات نہیں دئیے جاتے،تب تک آلودگی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔
آلودگی کا خاتمہ کیسے ہوگا؟
