عصرِ حاضرمیں اب ہمارے یہاں شب و روزیہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ زندگی کے مختلف حالات میں ہمارا معاشرہ طرح طرح کی بُرائیوں ،خرابیوں اور واہیات میں ملوث ہوا ہےاور ہر معاملے میںانتشار و اضطراب،نفرت و بے چینی کا شکار ہوتا چلا جارہا ہے۔اس پر ستم یہ کہ ہر کوئی یہی جتلاتا چلاجارہا ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے،اللہ کی مرضی سے ہی ہورہا ہے۔گویا اس سائنسی و ٹیکنالوجی کے انقلابی دور میںجہاں آئے دن کائنات کے چھپے راز منکشف ہو رہے ہیں ، اظہارِ دنیا کے تناظر بدل رہے ہیں اور دنیا کے مختلف معاشرے اپنے علم، صلاحیت،فن وہُنرسے اپنےروشن مستقبل کی تعمیر و تجدید میں سرگرداںہیںاور ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنا لوہا منوانے میں برسر پیکار ہیں،وہیں ہمارا معاشرہ خواب و خیال کی ہی دنیا میں جی رہا ہے۔بے شک ہمارا بنیادی عقیدہ اور ایمان ہے کہ اس کائنات میں ہونے والا ہر واقعہ اللہ کے حکم سے ہی انجام پاتا ہےاور جن طبعی قوانین کے تحت یہ کارخانۂ قدرت چل رہا ہے ،ان کا وضع کرنےوالا بھی اللہ ہی ہے۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ انسان اُس کا علم حاصل نہیں کرسکتا ،جس علم کے باوصف وہ اپنی زندگی اور حالات کو سنوار سکتا ہےاور معاشرے کی زوال پذیرصورت ِحال و اقدار کو بحال کرسکتا ہے۔بغور دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میںایسی بہت ساری اخلاقی بُرائیاں پنپ چکی ہیں جو قدرتی آفات کو دعوت دیتی ہیں۔یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ وہ ہمیںیک لخت تباہ و نابود نہیں کرتابلکہ وقفہ وقفہ کے بعد مختلف صورتوں میں وارننگ دیتا رہتا ہے تاکہ ہم سنبھل جائیںاور اپنے اعمال اورطرزِ زندگی دُرست کریں۔اگر ہم گذشتہ دو دہائیوں پر ہی نظر ڈالیںگےتو کیا موسمی تغیرات کے نتیجے میں ہمیں زلزلے،سیلاب ،وبائی بیماری کرونا ،طوفانی ہوائوں،شدید برف باری وبارشوںکے باعث بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصانات سے دوچار نہیں ہونا پڑاہے۔ان آفات کا نزول شائد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُس بڑی آفت میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی لوگ ہوش میں آجائیںاور مروجہ طرزِفکر عمل کو چھوڑدیں،جس کے نتیجے میں آخر کار ہمیں کوئی بڑا عذاب بھگتنا پڑے گا۔ہمیںیہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضی کا اظہار ، سزا اورتنبیہ بھی تو نہیںہے، جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔یا درہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسان کو اجتماعی طور پر بالکل بخیریت نہیں رکھا ہےکہ بَس انسان جو چاہے کرلیںاور آرام و سکون سے اپنی زندگی کی گاڑی چلاتا رہےاور اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائے کہ اس سے بالا تر کوئی نہیں ہے جو اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہو۔شائد اسی لئےاب بعض دانشور وں کی جانب سےکھلے بندوں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ہر آن بدلتے حالات،موسمی تغیرات اور دیگرآفات و بلیات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھا جائے کیونکہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کارروائی ہے۔بے شک بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہےکہ کائنات میں کسی درخت کا ایک پتّہ بھی اللہ کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا۔مگر ہم کیوں یہ بھول رہے ہیںکہ جب انصاف ناپیداور ظلم و جبر پھل پھول جائے، امانت کو غنیمت کا مال اورزکوٰۃ کو تاوان سمجھا جائے،اولاد والدین کا نافرمان اور خاوند بیوی کا غلام بن جائے،قوم کارہبر رذیل بن جائے،ناچ گانا عام ہوجائے،منشیات کا استعمال سرِ عام ہوجائے،ایک دوسرے کی عزت کو بازاروں میں نیلام کیاجائے،بے شرمی ،بے حیائی بے غیرتی، بدمعاشی اور سر کشی کا بول بالا ہوجائےاور ہر ناجائز و ناپسندیدہ چیز کو جائز اور پسندیدہ قرار دیاجائے توپھر اللہ کے عذاب کا انتظار کیوں نہ کیا جائےجو کسی بھی وقت کسی بھی شکل میںہم پر نازل ہوجائے۔اس لئے لازم ہے کہ ہم قبل از وقت توبہ و استغفار کریں،اپنے جرائم اور بد اعمالیوں کو یاد کریں،اپنی زندگی کو بدلنے کی کوشش کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں، معاشرے میں بُرائیوں و خرابیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت کریں اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں،بلا شبہ یہ اعمال ہمارے لئے کسی بڑےعذاب سے نجات، اللہ سے ہمارے قرب کاذریعہ اور اس کی رضا کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔