سوپور کے تاریخی قصبے میں 6 جنوری 1993ء صبح کے وقت ہر کام معمول کے مطابق ہو رہاتھا۔ دوکاندار اپنے کاروبارمیں اور عوام معمولات ِ زندگی میں مشغول تھے ، سڑکیں گاڑیوں کی آمد ورفت سے چہک رہی تھیں،کوچنگ سنٹر،دفاتروں اور تجارتی مراکز میں کام کاج ہو رہاتھا کہ چشم دید گواہوں کے مطابق دو جنگ جوؤں نے بی ایس ایف (BSF) کی ایک گشتی پارٹی کے کسی اہل کار سے مشین گن چھین کر فرار ہوگئے۔اسی اثنا ء میں گولیوں کی آوازیں سنی گئیں اور ایک بی ایس ایف اہل کار کو اپنے ساتھیوں کے ذریعے اٹھاتے ہوئے دیکھا گیا۔اس کے بعدحالات پھر معمول پر آگئے لیکن پندرہ منٹ بعد پورے قصبے کو محاصرے میں لے کر بی ایس ایف اہلکاروں نے اندھا دھند گولیاں چلانا شروع کیا ، انہیںجو بھی کوئی راستے میں نظر آتا، گولیوں کی بوچھاڑ میں اسے موت کی ابدی نیند سلا تے ۔ بر سر موقع بی ایس ایف اہلکاروں نے گن پاؤڈرکا استعمال کر کے قصبہ میں مختلف جگہوں پر آگ لگا دی ،آتش زنی نے صورتحال کو مزیدڈراؤنا لیا۔قصبہ میں خاک اورخون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ افراتفری کی فضا میںنہتے لوگ دوکانوں اور دوسری عمارات میں چھپ کر گولیوں کی بارش سے اپنے آپ کو بچا نے کا رقص نیم بسمل کر رہے تھے۔اس کے باوجود د وکانوں اور عمارات موت کا بے رحم پنجہ انہیں دبوچتا رہا۔ دوکانیں اور عمارات نذر آتش ہو کر راکھ کا ڈھیر بن رہی تھیں اور جابجا لاشیں بکھری تھیں۔ وردی پوشوں نے کم سے کم پانچ آدمیوں کو ہلاک کر نے کے بعد آگ کے شعلوں میں بھسم کر ڈالا۔اانہوں نے اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کی گاڑی زیر نمبرjky 1901 پر اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کیا جو قصبہ سوپور سے متصل بانڈی پورکی جانب جا رہی تھی۔ گاڑی پرگولیاں چلانے سے پندرہ مسافر موقع پر ہی لقمہ ٔ اجل بن گئے جب کہ چار شدید زخمی ہوئے۔ کم نصیب گاڑی میں زندہ بچ جانے والے ایک مسافر محمد اسدللہ لون ولد عبدالعزیز لون ساکن ہتھ لنگو سوپور نے اس سانحہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا:'' گاڑی سوپورکے مرکزی چوک متصل مرکزی بازار میں کھڑی تھی،جوں ہی مسافروں نے گن گرج کی آواز سنی تو وہ اسی دم گاڑی میں منہ کے بل لیٹ گئے۔ دو بی ایس ایف اہلکار تقر یباً دن کے گیارہ بج کر پچیس منٹ پر گاڑی کے اندر داخل ہوئے اور اندھا دھندگولیاں چلانا شروع کیا۔یہ سلسلہ تقریباًدس منٹ تک جاری رہا یہاں تک کہ وہ مطمئن ہوگئے کہ گاڑی میں سوار تمام مسافر کام آئے ہیں۔وردی پوش گاڑی سے نیچے اترے تو میں نے اپنی بیوی کی لاش کو سیٹ پر پڑا دیکھا ،اس کے جسم پر گولیوں کے ۹ نشان تھے ۔ میں خود بھی تین گولیوں کا شکار ہوا تھا جو میری بازو،ٹانگ اور پیٹ میں لگی تھیں۔'' عمر 10-16 سال کے درمیان چھ بچوں والی ماںمسرا بیگم زوجہ محمد اسد اللہ لون اور ایک دوسرے چشم دید گواہ نذیر احمد وانی (گاڑی کا کنڈکٹر)ولد محمد افضل وانی ساکن ہردو شیواہ سوپور اس قتل عام کی رُوداد اس طرح بیان کر تاہے ’’ جوں ہی دس بج کر پچاس منٹ پر سوپور کے مرکزی چوک میں گاڑی پہنچی تو اس علاقے کے مسافروں نے گاڑی میں چڑھنا شروع کیا جس طرف گاڑی جا رہی تھی۔اچانک ہی چند اہلکار گاڑی میں گھس گئے اور بے تحاشہ گولیاں چلانا شروع کیں۔میں نے گاڑی میں سوار پہلی سیٹ پہ بیٹھے افراد کو گولیوں کا نشانہ بنتے ہوئے دیکھا۔ چندمسافروں کو چھوڑ کر جو گاڑی کے دروازے سے کسی طرح بھا گنے میں کامیاب ہوگئے،باقی تمام مسافروں نے جان بچانے کی خاطر اپنے آپ کو منہ کے بل لٹا دیا۔دریں اثناء میں بھی گاڑی کے آگے والے دروازے سے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔‘‘ایک اور گاڑی (Jky 1899) جائے واردات کے پاس پہنچ گئی۔ یہ گاڑی ہردوشیواہ سوپور سے آرہی تھی۔ گاڑی میں سوار محمد اشرف کارنامی ایک شخص کا کہنا تھا کہ گاڑی مرکزی چوک میں دن کے دس بج کر تیس منٹ پر پہنچ گئی۔اس میں ان کا تجارتی سامان بھی بھراہوا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے جیب میں باون ہزار رو پے نقدی رقم بھی تھی۔وہ ایک مزدور کی تلاش میں تھا تا کہ گاڑی سے اس کا مال نیچے اتاردیں۔گیارہ بجے کے آس پاس بی ایس ایف اہلکاروں نے اندھا دھند گولیاں چلانا شروع کیا۔محمد اشرف کار نے اپنے سامان کو گاڑی میں ہی چھوڑ دیا اور بھاگتے بھاگتے ایک دکان نیو لائٹ بوٹ ہاؤس میں پناہ لی۔جہاں اس نے چار دیگر افراد کو بھی جان بچانے کے لئے چھپا ہوا پایا،ان میں ایک دکان کا مالک غلام محمد شیخ اس کا بیٹا نورالدین،بشیر احمد انتو جو سب کے سب سوپور قصبے سے تعلق رکھتے تھے، اس کے علاوہ ایک اور آدمی بھی اس دکان میں موجود تھا ،وہ شاید قصبہ سوپور کے کسی نزدیکی گاؤں کا رہنے والا تھا۔ بی ایس ایف اہلکار اس وقت آپے سے باہر تھے۔ایک اہلکار گاڑی میں چڑھا اور گاڑی کو چلاتے ہوئے اسے ایک نزدیکی جگہ کھڑا کیا جہاں اس کے ساتھیوں نے پہلے ہی آگ لگا رکھی تھی۔جوں ہی اس نے گاڑی کو وہاں کھڑا کیا اسی اہلکاروں نے اسے شعلوں کی نذر کر دیا۔تین اہلکار اسی وقت د وکان کی طرف دوڑ پڑے جب محمد اشرف کار اوروہاں چھپے دیگر افراد اللہ سے اپنی حفاظت کے لئے گڑ گڑا کر دعائیں مانگ رہے ،اہلکاروں نے دوکان کے مالک،اس کے بیٹے اور نامعلوم شخص پر گولیاں چلائیں۔اسی اثناء میں محمد اشرف کار نے اپنے آپ کو دکان کے کاؤنٹر کے نیچے چھپا یا۔اس نے باون ہزار روپیوں میں سے بتالیس ہزار روپے اندرونی جیب میں چھپالئے اور بقیہ دس ہزار روپے اس تھیلے میں رکھے جو اس کے ہاتھ میں تھا۔ اہلکار وں نے محمد اشرف کار کو باہر نکلنے کا حکم دیا ، وہ باہر آگیااوران کی منت سماجت کی کہ وہ ان سے پیسے لے کر اس کو چھوڑ دیں۔ان میں سے ایک ا ہلکار نے محمد اشرف کار سے پیسے لئے اور ایک نالے کی طرف راستہ دکھا کر بھاگنے کو کہا۔جوں ہی وہ بھاگنے لگا تو دوسرے اہلکار نے اس پر گولی چلائی مگر خوش قسمتی سے کار صحیح سلامت بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔چشم دید گواہوں کی اکثریت کا کہنا تھا کہ وردی پوش اہلکار صرف اس موقع کی تلاش میں تھے کہ جتنا ممکن ہو قتل عام کیا جائے اور سوپور کا نام ونشان مٹایاجائے۔مشتاق احمد شاہ ولد محمد عبداللہ شاہ ساکن شالہ پورہ سوپور،جو سوپور کے مرکزی چوک میں بمبئی ریڈلو ہاؤس نامی دوکان چلاتا تھاکا کہناتھا:''ایک ہی کنبے کے چار آدمیوں کو بی ایس ایف اہلکا روں نے بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کیا جب وہ ٹرک میں سیب کی پیٹیاں بھر کر رہے تھے۔شاہ اس وقت ایک سکھ اہلکار جودوکان میں اس وقت موجود تھا، کی گھڑی ٹھیک کر رہا تھا۔اچانک اس اہلکار نے مسافروں پر اندھا دھند بوچھاڑ شروع کی اورشاہ کو حکم دیا کہ جیسے وہ تھا ویسے ہی چپ چاپ رہے۔اس اہلکار نے گولیوں کے تین میگزین ظہور احمد خان جو ایک مقامی سرکاری اسکول کا صدر مدرس تھا، اور ایک ہی کنبے سے تعلق رکھنے والے چار آدمیوں کے جسموں میں پیوست کئے جو ٹرک (JkQ 6057)میں سیب کی پیٹیاں بھررہے تھے جنہیں بیرون ریاست لے جانا مقصود تھا ۔ ٹرک تقریباً بھرگئی تھی کہ اہلکاروں نے اس کو بھی آگ کے شعلوں کے حوالے کر دیا۔ دوکاندار مشتاق احمد شاہ اہلکار سے منت سماجت کرتا رہا کہ وہ اس کو جانے کی اجازت دیں لیکن وہ اس پر راضی نہیں ہوا یہاں تک کہ وہ چو تھے میگزین کو بندوق میں لگانے کی تیاری کرنے لگا،اسی اثناء میں میگزین اس کے ہاتھ سے پھسل کر زمین پر گر پڑا۔ اس موقع کو غنیمت جان کر مشتاق احمد شاہ وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا مگر اس کی دوکان کو بھی بعدازاں نذر آتش کیا گیا۔اہلکاروں کی بے تحاشہ فائرنگ سے گاڑی (JKQ 6057)کا کنڈکٹر پون کمار زخمی ہوا ۔ یہ شخص کشمیر کا رہنے والا نہیں تھا۔پون کمار کو پہلے سرینگر کے فوجی اسپتال منتقل کیا گیااور اس کے بعد فوجی جہاز کے ذریعے جموں منتقل کیا گیا۔ضلع بارہ مولہ کے اس وقت کے ایس ایس پی مسٹر سہائے نے ایک نامہ نگار کوبیان دیتے ہو ئے اس بات کی تصدیق کی کہ وردی پوشوں نے سوپور میں لوگوں پر بوکھلا کر حملہ کیا اور جنس یا عمر کا لحاظ نہ کرتے ہوئے درجنوں افراد کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا۔ مشتعل اہلکاروں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ گن پاوڑدکا استعمال کر کے قصبہ کے تقریباً پانچ علاقوں کو تباہ و برباد کیا۔ اس داستان ِالم کا ایک اور چشم دید گواہ بلال احمد ملا ولد خضر محمد ساکن شالہ پورہ سوپور نامی طالب علم کا کہنا تھا:''جس وقت اہلکاروں نے اندھا دھند گولیاں چلانا شروع کیا اس وقت میں شالہ سوپور کے ’’یونین واچ کو ‘‘نامی دکان میں اپنی دادی کی گھڑی ٹھیک کرنے کے لئے گیاتھا۔جوں ہی گولیوں کی گن گرج شروع ہوئی تو میں اور میرے ساتھ چار دیگر افراد جو اس وقت دکان میں موجود تھے، نے اپنے آپ کو دوکان میں پیٹ کے بل لٹا دیا۔دوکان کا دروازہ کھلا رہا اور میں صرف گولیوں کی آواز سنتا رہا۔ دو اہلکار دوکان میں داخل ہوئے اور ان کو کھڑا ہونے کا حکم دیا۔ یہ دیکھ کر کہ اب اہلکار ان کو بھی گولیوں کا نشانہ بنا ئیں گے،اس نے ایک اہلکار کے پاؤں پکڑکرزندگی کی بھیک مانگ لی۔اسے فوراً دوکان چھوڑنے کے لئے کہا گیا اور نزدیک میں عبد الخالق کی ہارڈ ویر دوکان میں جانے کا راستہ دکھایا گیا۔بلال نے یہی کیا اور پاس والی دوکان میں چلا گیا۔دوکان میں اس نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جس کو وہ پہچانتا نہ تھا۔اس کے ساتھ ہی چند اہلکار دوکان میں داخل ہوئے اور ان پر گو لیاں چلانا شروع کیں۔ بلال نے اپنے آپ کوسینٹری پائپوںکے نیچے چھپا دیا جب کہ دوسرا آدمی وہیں پر دم توڑ بیٹھا۔ اس کے بعد انہوں نے دوکان پر پٹرول چھڑک دی جس سے بلال احمد بھی گیلا ہوگیا۔ بلال نے پھر دوسرے اہلکار کے پاؤں پکڑ کرزندگی کی بھیک مانگی۔ اہلکار نے بلال کو بھاگنے کا راستہ دکھایا،جوں ہی وہ بھاگنے لگا تو پیچھے سے دوسرے اہلکار نے اس پر گولیاں چلانا شروع کیں مگروہ معجزاتی طور پر ایک تنگ گلی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا۔حبیب اللہ میر ولد حمزہ میر ساکن لالڈ سوپور کو ایک اہلکار نے گولی مار کر بے دردی سے ہلاک کر دیا۔حبیب اللہ میر مرکنٹائل کواپریٹیو بنک سوپور میں بہ حیثیت چپراسی ملازم تھا۔اس وقت وہ دفتر میں اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔اس کے ساتھ دو گاہک جن میں محمد اشرف کر نائی ولد غلام حسن کرنائی ساکن خانقاہ معلی سوپور ا ور غلام حسن وار ولدمحمد سلطان وار ساکن نوپور ہ تجر سوپور اور ان کے علاوہ تین خواتین بنک ملازمین یاسمین دختر غلام محمد بیگ ساکن خواجہ گلگت سوپور ، رفعت دختر غلام محی الدین ساکن ممہ کاک سوپور، رخسانہ دختر غلام نبی شیخ ساکن توحید باغ سوپور معجزاتی طور پر بچ گئیں۔یہ سب اس وحشیانہ قتل عام کے چشم دید گواہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اس سیاہ دن دس بج کر تیس منٹ پر دفتر پہنچ گئے۔تقریباً دن کے گیارہ بجنے والے تھے جب انہوں نے گولیاں چلنے کی مہیب آوازیں سنیں اور اہلکاروں کو اندھا دُھند گولیاں چلاتے ہوئے دیکھا۔اس وقت وہ بنک کا چپراسی اور دو گاہک بنک کے احاطے میں موجود تھے ۔انہوں نے اپنے آپ کوپیٹ کے بل فرش پر لٹا دیا۔دن کے گیارہ بج کر پچیس منٹ پر بی ایس ایف کے پانچ اہلکار بنک احاطے میں داخل ہوئے اور انہیں سڑک پر آنے کا حکم دیا۔ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا اور حکم پر من و عن عمل کیا۔ایک اہلکار نے موقع پر ہی دو گاہکوں اور چپراسی کو ایک ہی قطار میں کھڑا ہونے کا حکم دیا اور ان کی موجودگی میںبے دردی کے ساتھ ہلاک کر ڈالا۔اہل کار نے تینوں لڑکیوں کو بنک کے اندر جانے کے لئے کہا اور اپنے ماتحتوں کو حکم دیا کہ بنک کا شٹر نیچے گرا دیں اور بنک کی پوری
عمارت کو آگ لگا کر انہیں زندہ جلا دیں۔ لڑکیاں عمارت کے اندر داخل ہوئیں،ایک اہلکار کو کچھ دوری پر پٹرول لانے کے لئے کہا گیا۔اس دوران لڑکیوں نے شٹر کو کھول بھاگ نکلنے میں کامیابی حاصل کی۔بی ایس ایف اہلکار نے ان کو دیکھ کر گو لیاں چلائیں مگر وہ معجزاتی طورصحیح سلامت وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئیں۔
ایک طرف وردی پوشوں نے بے گناہوں کا قتل عام کیا اور دوسری طرف انہوں نے کروڑوں روپے کا نقد و جنس لوٹ لیا۔ عبد الاحد میر ولد اسدللہ میر ساکن چنکی پورہ سوپور کے تاثرات اس طرح تھے:''اس بدقسمت دن میں نے دن دس بجے دوکان کھول دی۔ دن کے گیارہ بجے جب میںگزشتہ کل کی کمائی مبلغ ساڑھے آٹھ ہزار روپے ایک ہینڈ بیگ میں رکھ لئے اوربنک میں یہ رقم جمع کرنے نکلا ہی چاہتا تھا کہ میں نے گولیاں چلنے کی آواز سنتے ہوئے اہلکاروں کو ہر طرف اندھا دھند گولیاں چلاتے دیکھا۔'' عبد الاحد میر سوپور کے مرکزی چوک میں کپڑے کی دوکان چلاتا ہے ۔ یہ المیہ پیش آتے ہی اس نے دوکان کا شٹر نیچے گرایا اور اپنے آپ کو کاؤنٹر کے نیچے چھپا دیااور ہینڈ بیگ میںمیں رکھی رقم کوکاؤنٹر پر چھوڑ دیا۔تقریباً دن کے سوا گیارہ بجے تین اہلکار وں نے شٹر کو اوپر کر لیا۔عبدالاحد میرنے دیکھا کہ وہ ساڑھے آٹھ ہزار روپے اپنی جیبوں میں بھر نے کے بعدکپڑوں کے قیمتی تھان کو شلفوںسے نیچے اتار کر جلارہے تھے۔آگ زنی کے بعد اہلکاردکان کا شٹر کھلا چھوڑکر باہر آگئے۔میر نے دوکان سے باہر آنے کی کوشش کی لیکن آگ کے شعلوں نے انہیں آگھیرا۔میر کہتا ہے ''میں نے آگ سے زندہ جلنے کے مقابلے میں گولیوں سے مرنے کو ترجیح دی اور یہ سوچ کر باہر آیا کہ اب گولیوں کا سامنا کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔''چونکہ اہلکار سڑک کے آر پار عمارات کو جلانے میں مصروف تھے، میر دوکان میں آگ سے پچاس فیصد جھلس جانے کے باوجود اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ اس وقت کے ایس ایس پی بارہ مولہ نے سوپور المیہ پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ 6 جنوری،1993 بروز بدھ درجنوں افرادلقمہ ٔ اجل بن گئے ، بر سر موقع مال و جائداد اور املاک تباہ ہوئیں۔یہ بیان اس سانحہ سے متعلق ایک معتبر گواہی اور اعتراف ِ حق ہے۔ کرب وبلا کی اس داستان نے واضح طور صاف کیا کہ کشمیر میں افسپا کا نفاذ کس قیامت کا نام ہے اور یہاں انسانی حقو ق کی پا مالیوں میں کس طرح ریاستی عناصر ملوث ہیں۔