بلال فرقانی
سرینگر // وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ بجلی فیس میں 20فیصد کے اضافے کی کوئی تجویز ابھی سامنے نہیں آئی ہے اور یہ محض افواہیں ہیں۔ این سی کے انتخابی منشور میں صارفین کو 200 یونٹ مفت بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے اور اس پس منظر میں 20فیصد کا اضافہ یقینا حکومت کیلئے انتہائی خفت کا باعث ہے۔کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹیڈنے ’ اوقات عروج کھپت‘(ییک اَوَر )کے دوران بجلی استعمال کرنے پر 20 فیصد سرچارج نافذ کرنے کی تجویز ٹائم آف ڈے ٹیریف سسٹم کے تحت جوائنٹ الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن کے سامنے پیش کی ہے۔کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر محمود احمد شاہ نے بذات خود اسکی تصدیق کی کہ سرچارج سے متعلق درخواست کمیشن کو بھیجی گئی ہے، تاہم نومبر 2025 تک کمیشن نے کوئی فیصلہ نہیں سنایا ہے۔ کارپوریشن نے واضح کیا ہے کہ یہ تجویز گزشتہ مالی سال کے ٹیرف فیصلوں سے مختلف ہے اور صرف زیادہ کھپت کے اوقات کیلئے مخصوص ہے۔واضح رہے کہ جولائی 2024 میں کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹرنے میٹرڈ علاقوں کیلئے کسی عام فیس میں اضافہ کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ مالی سال 2024-25میں صرف غیر میٹرڈ علاقوں کے لیے ’’کیلی بریٹڈ لوڈ ریویڑن‘‘ عمل میں لایا گیا تھا۔ البتہ 20 فیصد سرچارج کی موجودہ تجویز بالکل نئی ہے۔تجویز سامنے آتے ہی کاروباری اداروں نے اسے سختی سے مسترد کیا ۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا ایک وفد ریگولیٹری کمیشن سے ملا اور باضابطہ طور پر اپنی دی ہوئی پیٹشن کا دفاع کیا۔لیکن المیہ یہی ہے کہ حکومتی ترجمانوں کی لائن لگ گئی کہ ایسی کوئی تجویز ہی نہیں ہے۔حالانکہ کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر نے از خود میڈیا کو یہ جانکاری دی اور جب عوامی ، سیاسی اور حکومتی حلقوں میں اس تجویز پر شدید رد عمل آگیا تو منیجنگ ڈائریکٹر نے پلو جھاڑتے ہوئے کہا کہ ریگرلیٹری کمیشن نے ہر ایک ریاست کیلئے ایسا کرنے کیلئے کہا ہے۔ محکمہ کی جانب سے یہاں بھی جھوٹ بولا گیا کیونکہ ہر ایک ریاست اور یونین ٹریٹری کا اپنا ایک کمیشن ہوتا ہے اور جموں و کشمیر و لداخ کیلئے بھی الگ کمیشن کی تشکیل ہوئی ہے۔جموں کشمیر اور لداخ کے لیے جوائنٹ الیکٹرسٹی ریگولیٹری کمیشن کی سربراہی راج کمار چودھری کر رہے ہیں جبکہ سیکریٹری کی ذمہ داری محمد اشرف کے پاس ہے۔اسکے علاوہ یوٹی کمیشن میں انجینئر رینا لڈوال،راجندر سنگھ، کلدیپ کمار اور جاوید اسلم اسکے دیگر آفس عہدیدار ہیں۔ عوامی حلقوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کمیشن کی جانب سے ماضی میں جموں اور سرینگر میں عوامی سماعتیں منعقد کیے جانے کے باوجود اْس وقت حکومت یا حکمران جماعت کی جانب سے اعتراض کیوں نہیںاٹھایا گیا۔وادی میں اس مسئلے پر بڑھتی ہوئی بے چینی کے پیشِ نظر تمام تر نظریں اب مشترکہ بجلی انضباطی کمیشن کے فیصلے پر مرکوز ہیں، جو آنے والے دنوں میں یہ طے کرے گا کہ آیا پیِک اَوور سرچارج نافذ ہوگا یا صارفین و تجارتی برادری کی تشویش کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے مسترد کیا جائے گا۔