کپوارہ//پیپلزکانفرنس چیئرمین سجادغنی لون نے نیشنل کانفرنس کوریاست کی اندرونی خودمختاری کی بیخ کنی اور اس میں مرکزی کردارادا کرنے پر کھلے بحث کا چیلنج کیا ہے۔ خمریال کپوارہ میں کارکنوںکے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سجاد لون نے کہا’’ریاست میں کسی بھی اصل و نسب نے اکیلے ریاستی اٹانومی کی اتنی بیخ کنی نہیں کی جتنی عبداللہ خان نے غدارانہ ذاتی مفاد کی جستجو میں کی ہے، تاہم اس کے باوجود وہ ناقابل یقین حد تک جھوٹ بولنے اور مسلسل دھوکہ دہی کی جسارت کررہے ہیں‘‘۔انہوں نے 1975سے2014کے درمیان عبداللہ خانوادے کی حکمرانی پر سوال اٹھاتے ہوئے نیشنل کانفرنس سے کوئی ایک مثال پیش کرنے کیلئے کہا جب عبداللہ خانوادے کی تین نسلوں نے اقتدار میں رہ کردفعہ370کے ساتھ کی گئی بیخ کنی کو بحال کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہو۔سجاد نے کہا’’مجموعی طور پر یا تو نیشنل کانفرنس یا ان کے جرائم میں شریک ان کے مستقل حلیف اور موجودہ دوستانہ حریف کانگریس کے ہاتھوں 44دفعہ 370کی ترمیم ہوئی ہے۔شیخ عبداللہ نے1975میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد درج ذیل ترامیم کیں: آئینی حکمنامہ100محرر29جون1975،آئینی حکمنامہ101محرر23جولائی1975،آئینی حکم نامہ 104 محرر 25 مئی 1975 ، آئینی حکم نامہ 108محرر31دسمبر1977،آئینی حکم نامہ122محرر4جون1985اورآر ڈی نینس نمبرIII of 1976،جس کے ذریعے زرعی اصلاحات قانون مجریہ1960کی دفعہ4میں ترمیم کی گئی‘‘۔سجاد نے کہا کہ 1996کے انتخابات کے دوران موجودہ شورش یا تنازعہ نے نئی دہلی کودفاعی پوزیشن پر لادیاتھا اور وہ سیاسی عمل میں شمولیت کیلئے بے تاب نئی دہلی جموں وکشمیر میں اندرونی خودمختاری کو بحال کرنے پر آمادہ تھی۔
لون نے کہا’’اْس وقت کے وزیراعظم نرسمہا رائو نے ’’آسمان حد ہے‘‘کی پیشکش کی اور یہ اس تنازعہ میں وہ صحیح موقعہ تھا جب کشمیر کو اپنا منفرد آئینی مقام بحال کرنے اور محصوریت کے احساس سے دوچار نئی دہلی سے ایک باوقار ڈیل کرنے کا موقعہ ہاتھ لگاتھا تاہم فاروق عبداللہ منظر پر نمودار ہوئے اور اپنی خاندانی میراث کے عین مطابق اقتدار میں اپنی واپسی کیلئے ڈیل کر ڈالی ‘‘۔سجاد نے کہا کہ 1996میں جب کشمیر میں کوئی جماعت الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہ تھی، فاروق عبداللہ نے ایک مرتبہ پھران انتخابات میں حصہ لیکراندرونی خودمختاری کی بحالی کا ایک نادر موقعہ گنوانے کا انتخاب کیا۔ سجاد کا مزید کہناتھا’’اس ایک حرکت نے اْس وقت کی عوامی طاقت کو پس منظر میں دھکیل دیا اور وہ عملی طور اْن لاشوںپر چل کر اقتدار کی لال پری سے بغلگیر ہوئے جو 1987کے اْس دھاندلی شدہ الیکشن کے متاثرین کی تھیں جس الیکشن کا منڈیٹ عبداللہ خانوادے کی ایماء پر چوری کیاگیاتھا۔الیکشن میں حصہ لینے کے فاروق عبداللہ کے فیصلہ نے نہ صرف ایک اور موقعہ ضائع کردیا بلکہ دھوکہ دہی کی ایک اور تاریخ رقم کی گئی اور جہاں تک اندرونی خود مختاری کا تعلق ہے تو شاید 1975کا سرینڈر ،1987کی دھاندلی اور چوری اور1996کی دھوکہ دہی اس اٹانومی کے کفن میں آخری کیل ثابت ہوئے‘‘ لون نے صدر ریاست اور وزیراعظم کے عہدوں کی بحالی پر ان کے دوغلے پن کو دہرایا۔انہوںنے کہا کہ 1975میں شیخ محمد عبداللہ کی سرپرستی میں آئین ہند کی دفعہ368میں ترمیم کی گئی جس کے نتیجہ میں ان عہدوں کی بحالی پر روک لگ گئی اور عہدوں میں تنزلی ریاستی سیاست کا مستقل حصہ بن گئی۔سجاد لون نے کہا’’1975میں اپنی سابقہ پوزیشن وزیراعظم سے نیچے اتر کروزیراعلیٰ کا عہدہ قبول کرکے شیخ عبداللہ نے اس تنزلی کی نہ صرف تائید کی بلکہ ریاستی اٹانومی کے ساتھ ماضی میں کی گئی تمام بیخ کنیوں کو بھی تقدس فراہم کیا‘‘۔لون نے مزید کہا کہ اقتدار کی کرسی سے چمٹے رہنے کی لازمی رعایت کے عوض وہ خصوصی آئینی پوزیشن کی موذی بیخ کنی کے عمل پر گامزن رہے اور یہ سلسلہ ان کے اختتام تک جار ی رہا۔