مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں،بھارت جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا، پھر بھی دم ہے تو اُس پار کشمیر واپس لینے کیلئے آزاد
یو این آئی
نئی دہلی// نیشنل کانفرنس صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کو پرانے زخموں کو بھول کر آگے بڑھنا ہوگا۔انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ دونوں ممالک کے پاس مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ فاروق عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار انڈیا ٹوڈے گروپ کی جانب سے منعقدہ ’ایجنڈا آج تک‘ ایونٹ میں کیا۔ انہوں نے بھارت پاکستان تعلقات میں کسی تیسرے ملک کی ثالثی کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ کرگل کی جنگ ختم کروانے کے لئے امریکہ کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔نیشنل کانفرنس صدر نے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف پر اٹل رہتے ہوئے کہا کہ بھارت اپنے والے کشمیر کو سنبھال نہیں پاتا ہے اور اگر مرکزی حکومت کے پاس دم ہے تو وہ پاکستانی زیر قبضہ کشمیر حاصل کرنے کے لئے آزاد ہے۔
انسانیت،جمہوریت،کشمیریت
جب فاروق عبداللہ سے پوچھا کہ واجپائی کے نعرے ’انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت‘ سے اب تک کچھ بدلتا ہے، تو ان کا جواب تھا ’انہوں نے(واجپائی نے) یہ بھی کہا تھا کہ دوست بدلے جاسکتے ہیں، پڑوسی نہیں۔ پڑوسیوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات میں ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے اور ترقی کی جاسکتی ہے، جھگڑے میں رہیں گے تو کوئی ترقی نہیں کرسکے گا۔،بولی سے ہی بات بننی ہے، گولی سے نہیں، چار دفعہ جنگ ہوئی ہے، لائن آف کنٹرول وہیں پر کھڑی ہے، ایل او سی کیا، ہم نے جنگیں کرکے جو حاصل کیا تھا، وہ بھی واپس کردیا ہے۔ پونچھ میں حاجی پیر اور اکھنور میں چھمب اس کی مثالیں ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’ہم کہتے ہیں کہ وہ پی او کے ہے، وہ کیاں کہتے ہیں ؟ وہ بھی تو ہندوستان مقبوضہ کشمیر کہتے ہیں۔ دونوں تو برابر کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ مجھے اللہ کے واسطے بتائیں کہ کب تک ایسا ہی چلتا رہے گا؟ کب تک ہم یہ تماشہ دیکھتے رہیں گے؟ کب ہم ہوش میں آئیں گے؟ جنگ کوئی راستہ نہیں ہے‘۔
واجپائی کا دورہ پاکستان
نیشنل کانفرنس صدر نے سابق وزیر اعظم واجپائی کے دورہ پاکستان کے حوالے سے انکشاف کرتے ہوئے کہا ’واجپائی جی جب بس میں پاکستان گئے تو انہوں نے مجھے دہلی بلایا۔ ساتھ نہیں لے گئے کیونکہ اگر میں پاکستان کو مل گیا تو وہ ہماری چمڑی اتار دیں گے۔ واجپائی نے مجھے بتایا کہ میں جارہا ہوں۔،میں نے کہا مبارک ہو۔،جب واپس آگئے تو میں نے پوچھا کہ کیا کیا آپ نے پاکستان میں۔ واجپائی نے بتایا کہ میں نے وہاں حکمرانوں کو بتایا کہ تم وہ حصہ (پاکستان زیر قبضہ کشمیر) رکھ لو اور ہم یہ رکھ لیں گے، اور ایل او سی کو ٹھیک کریں گے‘۔ انہوں نے کہا کہ اگر واجپائی اگلا الیکشن جیت گئے ہوتے تو انہوں نے اس معاملے کو ضرور بہتری کی طرف لے لیا ہوتا۔ انہوں نے کہا’ شاہد یہ ہماری بدقسمتی ہے، پتہ نہیں ہمیں کب تک یہ مخمصہ دیکھنا ہوگا‘۔
مشرف سے جب ملا
فاروق عبداللہ نے کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کاپہلا فریق قرار دیتے ہوئے کہا ’جب جنرل پرویز مشرف یہاں آئے تھے اور اشوکا ہوٹل میں کھانے پر ہماری ملاقات ہوئی۔ جب مجھے مشرف سے ملایا گیا تو کہا گیا کہ یہ تھرڈ پارٹی ہے۔ میں نے کہا کہ جناب میں تھرڈ پارٹی نہیں بلکہ فرسٹ پارٹی ہوں‘۔ انہوں نے پاکستان زیر قبضہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے کہا ’اگر آپ لے سکتے ہو ، تو لے لو۔ میں کب روکتا ہوں آپ کو۔ آپ کے پاس طاقتور آرمی، ایئر فورس اور نیوی ہے۔ چار جنگیں آپ نے کرلیں۔ جو علاقہ آپ کے پاس تھا، وہ بھی آپ نے دے دیا۔ کب تک ہمیں مرواو گے‘۔ انہوں نے کہا ’میں 82 سال کا ہوں، میں کوئی سیاسی بات نہیں کرتا۔ میں حقیقت کی بات کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان زیر قبضہ کشمیر ان کے پاس 70 سال سے ہے۔ دم ہے تو پاکستان زیر قبضہ کشمیر حاصل کرلو۔ فاروق عبداللہ کے پاس وہ دم نہیں ہے‘۔ فاروق عبداللہ نے کہا ’اس کو (بھارتی کشمیر) کو تو آپ سنبھال نہیں پاتے ہو۔ اُس پر ہاتھ ڈالو گے تو ایک نئی مصیبت مول لے لو گے۔ خدا کے واسطے پہلے اس کو تو سنبھال لو‘۔
اندرا گاندھی نے کیا کہا تھا؟
تاہم انہوں نے کہا کہ بھارت ایک اور جنگ نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا ’میں نہیں سمجھتا انڈیا جنگ کرے گا۔ بات چیت سے ہی معاملہ حل ہوگا، جنگ سے کوئی معاملہ حل نہیں ہوگا۔ مرکزی حکومت کو ایک دن بات کرنی پڑے گی۔ حکومت پاکستان کو بھی بات کرنی پڑے گی۔ اس کے بغیر یہ دونوں ممالک آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ میں وہ دن دیکھنا چاہتا ہوں جب یہاں سے لوگ گاڑی میں بیٹھ کر لاہور، کراچی اور پشاور جائیں گے اور وہاں سے وہ آئیں گے۔ میں یورپ میں گیارہ ممالک گھوما اور کسی نے یہ تک نہیں پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہو‘۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ ہند و پاک کی دشمنی سے سارک کا مقصد فوت ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا ’سارک جب بنا تو میں نے اندرا گاندھی سے پوچھا کہ اس کا کیا فائدہ ہے۔ تو ان کا جواب تھا کہ ہم یورپی یونین کی طرح ایک جٹ ہوکر ترقی کریں گے۔ رکاوٹ کہاں ہے؟ ہندوستان اور پاکستان۔ دونوں کے درمیان دوستی ہوئی تو سارک بہت ہی طاقتور اور مستحکم ہوگا‘۔
تیسرے ملک کی ثالثی
نیشنل کانفرنس صدر نے بھارت پاکستان تعلقات میں کسی تیسرے ملک کی ثالثی کی وکالت کرتے ہوئے کہا ’یاد ہے جب کرگل کی جنگ ہوئی۔ کیا تب امریکہ نہیں آیا۔ کیا یہ لوگ امریکہ کے پاس نہیں گئے؟ کیا پاکستان کا وزیر اعظم امریکہ کے پاس نہیں گیا کہ ہندوستان سے کہئے کہ ہم نکل جائیں گے۔ دو ہفتوں کے اندر انہوں نے اپنے تمام ہتھیار واپس لے لئے۔ اور لائن آف کنٹرول واپس آگئی۔ امریکہ تو آیا نا۔ آج ہم دوستوں کا استعمال کیوں نہیں کرسکتے۔ کب تک لڑتے اور جھگڑتے رہو گے۔ تم تو یہاں آباد ہو۔ جاکر ہمارا حال دیکھو۔ سرکار اور
سرکار کو بات کرنی پڑے گی۔ آپ اور میں نہیں بات کرسکتے۔ بات چیت کے لئے آپ کو ماحول بنانا پڑے گا۔ ان لوگوں کا استعمال کرنا پڑے گا جن کے ان کے ساتھ رشتے اچھے ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’وہ (پاکستان) بھی 70 سال سے کہہ رہا ہے کہ کشمیر ہمارا ہے۔ ہماری شہ رگ ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ سارا کشمیر ہمارا ہے۔ کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا پڑے گا ۔ اس دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں ہے‘۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ دونوں ممالک کو پرانے زخموں کو بھول کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا ’آپ کو شرم الشیخ (مصری شہر) میں ہوئے معاہدے کے بارے میں معلوم ہی ہوگا۔ اس پر یہاں زبردست شور اٹھا تھا۔ ہمیں پرانے زخموں کو بھول کرکے آگے بڑھنا ہوگا‘۔
دفعہ 370
علیحدگی پسندوں کے ساتھ بات چیت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نیشنل کانفرنس صدر نے کہا ’کیا وہ کشمیری نہیں ہیں، اگر وہ کشمیری ہیں تو ہندوستانی ہیں یا نہیں؟ تو پھر بات کیوں نہیں کرو گے‘۔ انہوں نے دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو الحاق کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان دفعات کو کوئی بھی طاقت ختم نہیں کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’آپ کبھی بھی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ہٹا نہیں سکتے ہو، یہ جموں وکشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی بنیاد ہے، کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب کشمیر کے مہاراجہ (ہری سنگھ) نے دستاویز الحاق پر دستخط کیا تو اس نے صرف تینوں چیزوں دفاع، رسل ورسائل اور امور خارجہ پر بھارت کو حق دیا، جواہر لعل نہرو نے بیان دیا کہ جموں، کشمیر اور لداخ کے لوگ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔،وہ آزادانہ اور منصفانہ رائے شماری کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے، جب جب رائے شماری کے لئے منتظم کی تقرری عمل میں لائی گئی تو دونوں میں سے کسی ملک نے اس پر اعتراض کیا۔ حالیہ وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ نے پارلیمنٹ
میں بیان دیا کہ آزادی ہم نہیں دے سکتے ہیں، لیکن جہاں تک اٹانومی کا سوال ہے تو حکومت ہندوستان کے لئے آسمان حد ہے، کہاں ہے وہ آسمان؟‘۔
سیکولر انڈیا خطرے میں
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے سیکولر تانے بانے کو اس وقت خطرہ لاحق ہے۔ انہوں نے کہا ’آپ بنیادوں کو بھول نہیں سکتے ہیں۔ کیا آپ جمہوری ہندوستان کی بنیادوں کو بھول گئے ہو۔ آج سیکولر انڈیا کو بہت بڑا چیلنج لاحق ہے۔ آج اس ملک کا سیکولر تانہ بانہ خطرے میں ہے‘۔
قیدیوں کی مارپیٹ
فاروق عبداللہ نے تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں کی مارپیٹ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ ہوتے تو وہ از خود تہاڑ جیل جاکر قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں دریافت کرتے۔ انہوں نے کہا ’کشمیری کو تہاڑ جیل میں مارا گیا۔ اس کے خون میں لت پت کپڑے عدالت میں دکھائے گئے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہو کہ فاروق عبداللہ یہ کہے کہ ایک اور بار مارو۔ کیا انسانی حقوق نہیں ہیں۔ آپ انسان کو قید میں رکھ سکتے ہیں، لیکن مار نہیں سکتے۔ ہماری وزیر اعلیٰ نے داخلہ سکریٹری سے معاملے پر بات کی۔ میں نے کہا کہ آپ خود بھی تہاڑ جیل جاکر وہاں قیدیوں کا حال دیکھ لیجئے۔ میں وزیر اعلیٰ ہوتا تو میں ضرور جاتا۔ میرے وقت میں بھی قیدیوں کو باہر کی جیلوں میں رکھا گیا، مگر کسی پر اس طرح سے حملے نہیں کئے گئے۔ گیلانی (سید علی گیلانی) کو بھی رانچی اور جودھپور میں رکھا گیا تھا‘۔