۵ جنوری جموں کشمیر کی سیاسی تاریخ کے لوح پر ایک اہم نوشتے کے صورت میں آج بھی من وعن درج ہے۔ اس دن اقوام متحدہ نے اہل کشمیر کے استصواب رائے کا حق تسلیم کرتے ہوئے بھارت اور پاکستان کو پوری ریاست میں عالمی ادارے کی زیرنگرانی ریفرینڈم کرانے کا قانوناََ و اخلاقاََ مکلف بنایا مگر تادم تحریر ان قرارداددوں پر کوئی عمل درآمد نہ ہوا۔ عہد شکنی کی اس لمبی تاریخ کے پیچھے ووٹ بنک سیاست کی مجبوریاں اور ضد اور اکڑ ہے۔ اس لئے ۵؍ جنوری کا دن جب کیلنڈر میں نمودار ہوتا ہے تو کشمیریوں کو وہ تاریخی المیہ یاد آجاتا ہے جو ناقابل مندمل زخم بن کر آج بھی کشمیر میں امن و چین کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہونے سے روکا ہوا ہے۔ حالانکہ مجلس اقوام کی راکھ پر اقوام متحدہ کا تاج محل اس عالمی میثاق کے ساتھ تعمیر کیا گیا تھا کہ دنیا کو جنگ و جدل، بھوک، افلاس، جہالت اور بیماری سے نجات دلائی جائے گی۔ عالمی ادارے کے منشور کو منظوری دے کر یہ اعلان بھی ہوا کہ مظلوم اور کمزور قوموں کو اپنے حق خودارادیت کے لئے پُرامن سیاسی جدوجہد کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ چنانچہ یو این چارٹر کی بنیاد پر دنیا میں بہت سارے مظلوم لوگوں اور محکوم قوموں کو نہ صرف یہ کہ آزادی ملی بلکہ حق خودارادیت کی سیاسی تحریکوں کو اخلاقی جوازیت بھی حاصل ہوئی۔ عالمی ادارے کے قیام کے ابتدائی ماہ و سال میں ہی دنیا کا نقشہ تبدیل ہونے لگا، مثلاً تاجِ برطانیہ کا نوآبادیاتی نظام اس کے زیر تسلط اقوام کی آزادی سے ختم ہوا، سویت یونین اور امریکہ سپر پاور بنے، یورپی ممالک جو ہٹلر کی پالسیوں سے منقسم تھے، ازسرنو متحد ہونے لگے۔ برصغیر بھی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا ۔تحریک آزادیٔ ہند پروان چڑھ گئی اور مسلمانانِ برصغیر اپنے الگ ملک پاکستان کا مطالبہ کرنے لگے، کشمیری قوم کی ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک جوش و خروش سے چلنے لگی۔ سنتالیس میں اہل جموں کشمیر کو سیاسی میلان کچھ اور تھا مگر کانگریسی قیادت اور فاسق انگریز نے مل کر پوری عیاری سے کشمیر کے سیاسی مستقبل کو معلق کر کے اسے تنازعہ بنا ڈالا۔اسی ملی بھگت کا خمیازہ آج کشمیری ہی نہیں بلکہ برصغیر کے کروڑوں عوام مشترکہ طوراُٹھا رہے ہیں۔ ۴۷ء میں قبائلی حملے کی آڑ میں بھارتی افواج جموں کشمیر میں داخل کی گئیں اور پہلی ہند پاک جنگ کا آغاز کیا گیا۔ وزیراعظم ہندپنڈت جواہر لال نہرو نے فوراً اقوام متحدہ سے رجوع کیا تاکہ پاکستان کو جنگ کے لئے موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو ہندوستان نے سلامتی کونسل میں یہ عرضی داخل کی کہ ریاست جموں کشمیر نے آئینی و قانونی طریقے سے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا ہے ۔الحاق کی دستاویز پر ریاست کے والی مہاراجہ ہری سنگھ نے دستخط کئے ہیں( شیخٰ عبداللہ نے اس مہاراجی اقدام کی سیاسی حمایت کی) مگر پاکستان کے سرحدی علاقوں کے قبائل نے ریاست پر حملہ کردیا۔قبائل پاکستانی حدود سے گذر کر ریاست میں آئے ہیںاور انہوں نے اپنے فوجی ٹھکانے پاکستان میں بنا رکھے ہیں ،ہماری درخواست ہے کہ پاکستانی حکومت کو کہا جائے کہ قبائلوں کی مدد اورانہیں کشمیر پر حملہ آور ہونے سے روکے، اگر کسی وجہ سے پاکستانی حکومت ایسا نہیں کر سکتی ہے تو پھر ہمیں قبائلوں کے جنگی مراکز کا قلع قمع کرنے کی اجازت دی جائے‘‘۔ہندوستان نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سلامتی قونسل میں جو درخواست پیش کی ،اُس کے جواب میں پاکستان نے اپنا یہ موقف اختیار کیا کہ ریاست کا ہند یونین سے الحاق فراڈ پر مبنی ہے ۔دونوں ملکوں کے مندوبین کے درمیان کافی دنوں تک عالمی ادارے میں بحث و مباحثہ کے بعد سلامتی کونسل نے دلی اور اسلام آباد کے اتفاق رائے سے پوری ریاست میں رائے شماری کرانے کی قراردادیں منظور کیں ، اس کے لئے طریقہ کا ر بھی وضع کیا گیا اور ناظم رائے شماری بھی مقرر کیا گیامگر ہندوستان مکر کہہ نیوں سے باور کراتا رہاکہ اہل کشمیر نے متعدد اسمبلی و پارلیمانی الیکشن میں حصہ لے کر ہندوستان کے ساتھ اپنی سیاسی وابستگی کا اعلان متعدد بار کیا ہے۔ اُدھر اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین آج بھی سرینگر اور اسلام آباد میں تعینات ہیں جو مسلٔہ کشمیر کی حقیقت پر دلالت کر تے ہیں۔مختصراََ تقریباََسات دہائیوں سے کشمیر قراردادیں معرضِ التواء میں ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یواین او نے مشرقی تیمور، بوسنیا، سوڈان میں مداخلت کر کے ان ملکوں کے ناراض عوام کو اپنی سیاسی منزل مراد تک پہنچا کر ہی دم لیا لیکن کشمیر اور فلسطین کے بارے میں عالمی ادارہ بوجوہ دوہرا معیار اپنا رہا ہے، کیونکہ امریکہ کو اپنے قومی مفادکی قیمت پر کشمیر حل میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کشمیر کے تعلق سے اپنی قراردادوں پر عمل درآمد میں ناکامی نے عالمی ادارے کی مقصدیت اور کریڈبلٹی پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگا یاہے۔عالمی برادری کو چاہیے کہ پوری دنیا میں بالعموم اور برصغیر میں بالخصوص پائیدار امن و استحکام، تعمیر و ترقی اور نیک ہمسائیگی کو فروغ دینے کی خاطر مسئلہ کشمیر جیسے حساس ترین اور نازک مسئلے کو بلا تاخیر ریاستی عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی کشمیر قراردادوں کے عین مطابق حل کرائیں ۔اسی میں برصغیر کے لئے امن و امان کا راز پنہاں ہے۔ نئی دلی کو چاہیے کہ جموں کشمیر کی تاریخی حیثیت کو قبولتے ہوئے افسپا جیسے کالے قانون کو کشمیر کے مذاکراتی حل کا متبادل سمجھنے سے گریز کرے اور مزید معصوموں اور بے گناہوں کے لہو سے ارض ِ کشمیر کو داغ دار بنانے سے بازآئے ۔ یاد رکھئے آج تک جموں کشمیر میں ظلم و جبر اور قہروستم کا ہر کوئی اوچھا حربہ اور ہتھکنڈہ آزمایا گیا مگر نہ ہی اس سے مسئلہ حل ہوا اور نہ ہی لوگوں کی مبنی بر حق آواز کو دبایا جا سکا بلکہ بقول سنتوش بھارتیہ"Dear Modi, the land of kashmir is with us but the people of kashmir are not with us"
ایک چشم کشاصداقت ہے ۔
رابطہ :منزگام،اہرہ بل ،کولگام
9070569556