اب کی بار بھی گزشتہ ستر سال کی طرح جموں شہر میں ۶؍ نومبر کا دن آگیا اور معمول کی طرح گزر گیا مگر آج سے سترسال قبل یہ دن جب طلوع ہو اتو مقامی مسلم آبادی پر ہمہ پہلوقیامت ڈھاکراسے وحشت و بربریت اور زخم جگر کی وہ سوغات سونپ دی جس کی ٹیسیں صدیوں انسانیت کو تڑپا تی رہیں گی ۔ اس روز صدمہ خیز قیامتیں ، درد و کرب، آہیں چیخیں، قتل عام ، تباہیاں، المیے ، آہن وآتش کی بارشیں ، تلواریں برچھیا ں ، عصمت ریزیاں،آگ زنیاں۔۔۔ انہی شعلوں کی بے قابو لپٹیں بیک وقت جموں شہر اور گردونواح میں اپنے آسان شکار ۔۔۔مسلمانان ِ جموں۔۔۔ کو بھسم کر نے یہاں کی آباد وشاداب بستیوں میں وارد ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے جموی مسلمانوںکو مولی گاجر کی طرح کاٹ کر اور انہیںظلم وبربریت کے بھینٹ چڑھا کراپنے وحشیانہ جنوں اور مسلم بیزاری کی تشفی کا سامان کیا۔ آج ہم اس سارے کرب و بلا کو فراموش بھی کر جائیں جونومبر سنتالیس کے اواخر میں جموں میں پیش آیا مگر تاریخ کے اوراق ہی چیخ چیخ کر نہیںبول رہے ہیں کہ ان ایام میں مسلمانوں پر کیا بیت گئی بلکہ بھاجپا کے لیڈرا ور آر ایس ایس کے متواتر مسلح اور ڈنڈے بردار مارچ بھی ہمیں اس المیے کی صدائے بازگشت سنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔ چنانچہ 18؍ مئی 2016ء کوصوبہ جموں کے گوجر طبقہ سے تعلق رکھنے والا ایک وفد اپنے ا راضی مسئلہ کے حوالے سے بھاجپا کے ایک ریاستی وزیر کے پاس حا ضر ہو ا ۔ وفد دونوںمسلم و ہند وکسانو ں پر مشتمل تھا َ۔ وزیر مو صوف وفد پر سیخ پاہو گئے اور دھمکی آمیز لہجے میں بولے ’’ او گوجرو! تم یہاں کس لئے آئے ہو؟ کیا 1947ء کو بھو ل گئے ہو ‘‘۔ ظاہرہے کہ بھاجپا لیڈر کا اشارہ 47ء میں تقسیم ہند کے موقعہ پر برپا کئے گئے مسلم کش فسادات میں صوبہ جمو ں کے لاکھو ں مسلما نو ں کے قتل عام کی طرف تھا۔ اچھنبے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی وحشت ناک نسل کشی اور اتنا بڑا قتل عام بر صغیر کی تاریخ میںکوئی جگہ نہیں بنا سکا ہے۔ بیسویں صدی کے اس ہولناک سانحہ کا مقامی طور اور سرکاری و غیر سرکاری سطح پر قلم بند کر نے اور صفحہ قرطاس پر لانے سے عدم تو جہی اور لاپرواہی برتی گئی ہے ۔ لا تعلقی اور عدم احساس کایہ رویہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے ۔ آج کی تاریخ میں جب ہمارا کوئی طالب علم ، تاریخی محقق یا دنیا ئے ا نسانیت ہمارے ساتھ پیش آئے، اس دلدوز سانحہ اور تاریخی واقعہ سے متعلق اصلی حقائق اور تفصیلات سے واقف ہو نے کی کو شش کرتا ہے تو اسے چار ولاچار غیر ملکی اور انگریز مصنفین کی تصنیفات کی طرف رجوع کر نا پڑتا ہے ۔ اس حوالے سے انفرادی سطح پر اگر کسی فرد نے اپنے مقدور اور محدود وسائل و ذرائع کے دائرے کے ا ندر کوئی کو شش انجام دی ہے وہ لائق تحسین تو ہے مگر وہ موضوع اور مضمو ن سے متعلق تشفی بخش بہر حا ل نہیں ہے ۔ یہ ہماری اجتماعی بے حسی کا دکھڑا ہو نے کے ساتھ تکلیف دہ امر واقعہ ہے۔ لاکھو ں لو گوں کا قتل عام اور نقل مکانی، ا جتماعی عصمت دری و ہزاروں خواتین کی اغوازنی کے ایسے انسانیت سوز واقعات اگر کسی مغربی ملک یا دوسری قوم کے ساتھ پیش آیا ہو تا تو یہ کئی صدیو ں تک انسانی تاریخ پر چھا یا رہتا ۔ بھاجپا لیڈ ر نے اس حقیقت کا جانے انجانے اعتراف کر ڈالا جو پچھلی سات دہا ئیو ں سے زمین بُرد کر دی گئی کہ ڈوگرہ حکو مت کی سر پرستی میں مسلما نو ں کی گئی نسل کشی کوئی حا دثاتی واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کے لئے فرقہ پرست ہندو تو والے کچھ انتہا پسندسکھ عنا صر اور ڈوگرہ حکو مت نے مل کر منظم تیاری کر رکھی تھی۔
قتل عام کا پس منظر
1947ء میں ہندوستانی عوام کی ایک طویل جد وجہد اور عالمی حالت میں بدلاؤ کے نتیجے میں انگریز سامراج نے برصغیر سے رخصت ہو نے کا فیصلہ کر لیا ۔ بر صغیر بھارت اور پاکستان نامی دو مملکتوں میں تقسیم ہو نے کا فیصلہ ہو چکا تھا اورتقسیم کے لئے فارمولہ بھی وضع کی گئی تھی ۔ تقسیم کے نتیجے میں پورے برصغیر میں فرقہ وارانہ تناؤ نے فسا دات کی شکل اختیار کر لی تھی ۔ ہمسایہ ریاست پنجاب کے مشرقی حصوں پٹیالہ ، کپور تہلہ، لدھیا نہ ، پٹھا نکو ٹ میں مسلما نوں کو تہہ تیغ کیا جارہاتھا ۔ان علاقوں کے مسلما نو ں کو یاتو قتل یا مغربی پنجاب کی طرف نقل مکانی کے لئے مجبور کیا گیا اور مشرقی پنجاب کو کم و بیش مسلما نو ں سے خا لی کرایا گیا ۔ جمو ں و کشمیر شاہی ریاست کی حیثیت سے ڈوگرہ حکمرانی کی زیر تسلط تھی ۔ اُس وقت ڈووگرہ خاندان کی چو تھی نسل کا بادشاہ مہاراجہ ہری سنگھ ریاست جموں و کشمیر کا حکمران تھا ۔ ریاست کشمیر اورجموں نا می دو صوبوں پر مشتمل مسلم اکثریتی ریا ست تھی۔ جس میں صوبہ کشمیر کی کل آبادی کا 93فیصدی مسلما نو ں کی تھی اور صوبہ جموں بشمو ل آج کے آزاد کشمیر کے ، کی کل آبادی کا 62 فیصد ی مسلما نو ں کی تھی۔ رعایا کی اکثریت مسلما نو ں پر مشتمل ہو نے کے با وجود ڈوگرہ راج میںر یاست میں مسلم کُش اور اسلام مخا لف قوانین نافذ تھے ا ور ڈوگرہ حکمران مسلما نو ں کے خلاف اپنے عناد اور تعصب کا کھلے عام اظہار بھی کرتے تھے ۔ مسلما نو ں کو جبری مشقت اور بیگار پر لینے کے ساتھ ساتھ مذہب آزاری کا سامنا تھا۔ مہاراجہ ہری سنگھ بد طینت اور مسلم بیزار حکمران تھا ۔ آر ایس ایس لیڈر وں کا اُس کے ہاں سرکاری مہمان کی حیثیت سے آنا جانا رہتا تھا۔ جموں میں آر ایس ایس کو مستحکم بنا نے میں مہاراجہ کا کلیدی رول رہا ہے ۔ 1940ء سے 1947ء کے زما نے میں بلراج مدہو ک، کیدر ناتھ ، سہانی وجے ملہوتر اور مدن لال کھورانہ جیسے آر ایس ایس اہم رہنما پارٹی انچار ج کی حیثیت سے جموں میں مو جود رہے ہیں۔آر ایس ایس چوٹی رہنما گرو گولوالکر مہاراجہ ہری سنگھ کے ہاں ذاتی مہما ن کی حیثیت میںرہتے تھے۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر ابراہیم خان کے مطا بق جو لائی1947میں کئی راجواڑوں کے غیر مسلم حکمرانو ں اور امرتسر سے آئے ہو ئے آر ایس ایس رہنماؤں کے مابین ایک اعلی پایہ خفیہ میٹنگ کا سرینگر میں انعقاد کیا گیا جس میں جموں صوبہ میں مسلما نو ں کے قتل عام کی سازش رچی گئی ۔ مسلما نو ں کے خلاف ما حو ل کو بہت عرصہ سے تیار کیا جا رہا تھا ۔ ہندو فرقہ پسند گرہوں میں ہتھیار تقسیم کئے جا رہے تھے ۔ جن مسلما نوں کے پاس لائسنس یافتہ ہتھیار موجو د تھے انہیں واپس حکومت کے پاس جمع کر نے کا حکم نا مہ صادر کیا گیا ۔ یہا ںتک کہ ڈوگرہ فوج میں مو جود مسلما ن سپاہیوں سے بھی ہتھیار چھین لئے گئے ۔ ہندؤں اور سکھوں کو اسلحہ چلانے کی تربیت کے لئے جموں شہر میں میں ٹریننگ کیمپ قائم کئے گئے ۔ صوبہ میں مسلمانوں کا قتل عام کر نے کے لئے تیاریاں زور و شور سے چلائی گئیں۔ دوسری طرف تعدادی لحاظ سے برتری ہو نے کا با وجود مسلما نوں پر دہشت اور خوف چھائی ہوئی تھی ۔ نہتے اور بے سر و سامان مسلما نوں کے پاس حکو متی اور انتظا می سربراہی میں وقوع پذیر ہو نے والے حالات کا کو ئی جواب نہیں تھا۔ چودھری غلام عباس کی قیادت میں مسلم کا نفرنس صوبہ جمو ں کے مسلما نو ں کی نمائندہ پارٹی تھی ۔ چودھری عباس کو ہری سنگھ نے 1947ء کے آغاد میں ہی گرفتار کر کے پورے سال جیل میں قید کر کے رکھا تھا اور مسلما نوں کو ان نازک حالات میں رہنما ئی کے لئے کوئی قیادت دستیاب نہیں تھی ۔
بے بنیاد بیانیہ
ریاستی مسلمانوں کے ا زلی دشمنوں کی طرف سے جموں قتل عام کے حقائق صے متعلق روز اول سے بے اصل شوشہ اوربے بنیاد بیانیہ کھڑا کر نے کی کو شش رہی ہے۔ قبا ئلی دستوں کا کشمیر وارد ہو نے کو جمو ں میں مسلما نو ں کی نسل کشی کا ذمہ دار گردانا جا تا ہے ۔ اس بے بنیاد بیانیہ کے حق میں کوئی تاریخی اور نہ ہی کو ئی دستاویزی دلیل موجو د ہے ۔ اس بات پر تمام مقامی و غیر مقامی مورخین اور مصنفین کا اتفاق ہے کہ صوبہ میں مسلما نو ں کی نسل کشی کا آغاز آگست کے مہینے میں شروع کیا گیا جو نو مبر تک جاری رہا ۔جب کہ کشمیر میں قبائلی دستوں کی پیش قد می اکتو بر کے مہینے میں شروع ہو گئی ۔ چند مسلم مخالف عنا صر جموں میں مسلما نوں کے قتل عام کو کشمیری مسلما نو ں کی طرف سے مہاراجہ ہری سنگھ کا تختہ پلٹنے کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ۔ حالانکہ یہ بعید از حقیقت اورتاریخی و زمینی حقائق سے با لکل متصادم ہے ۔ ایسی بحث کھڑا کر کے اصلی حقائق کی پردہ پو شی اور تاریخ کو مسخ کر نے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ لایعنی و من گھڑت مفروضے گھڑ کر مسلما نوں کے ساتھ پیش آئے اتنے بڑے سانحہ کو معمولی نوعیت کے و اقعہ کے طور پیش کیا جا رہا ہے ۔ فسادات کا رنگ دے کر مسلما نوں کو اس میں برابر کا ذمہ دار ثابت کر نے کی کو شش کی جارہی ہے ۔ حا لانکہ عینی مشاہدین ، تاریخی و دستاویزی شواہد اور غیر جانبدار مورخ و مبصر سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ڈوگرہ حکو مت کی سرپرستی میں ہندو فرقہ پسند قوتوں اور چند سکھ عنا صر نے مل کر یک طرفہ طور مسلما نوں کا قتل عام ، خو اتین کی اغوا ریزی و اجتما عی عصمت دری اور بستیوں کی بستیوں نذر آتش اور صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا ۔ لاکھو ں کی تعداد میں مسلما نوں کو بے گھر کر کے نقل مکا نی کے لئے مجبو ر کر دیا ۔
شخصی حکومت کی سرپر ستی
مسلما نو ں کے خلاف تشدد ، لوٹ مار ، جلاؤ و گھیراؤ کا سلسلہ آگست کے مہینہ میں شروع کر دیا گیا جو مسلسل گیارہ ہفتوں نو مبر تک جا ری رہا ۔ جس کی زد میں سب سے پہلے صوبہ جموں کے مشرقی اضلاع ادھمپور ، ریاسی اور کٹھوعہ لائے گئے ۔ ایسا ہی سلسلہ اسے پہلے ہمسایہ ریاست پنجاب کے مشرقی علاقوں با لخصوص پٹیالہ ، کپور تہلہ، پٹھا نکوٹ اور لدھیانہ میں شروع کیا جا چکا تھا جس کے دوران ان علاقوں میں مو جو د تقریبا ً تمام مسلم آبادی کو ختم کیا جا چکا تھا ۔ صوبہ جموں میں مسلما نوں کی منظم اور منصوبہ بند انداز سے نسل کشی براہ راست ریاستی حکو مت کی سر پرستی میں انجا م دی گئی ۔ یہانتک کہ مہاراجہ نے ازخود گولیاں چلاکر کئی مسلما نوں کاقتل اور اسکی بیوی کو لو گوںکومسلمانوں کا قتل عام کر نے کیلئے اُکساتے ہو ئے پا یا گیا جس کا تذکرہ با ضا بطہ کئی مصنفین اور اس سانحہ کے چشم دید گو اہوں نے کیا ہے۔ ڈوگرہ حکو مت کا قتل عام میں با لواسطہ ملوث ہو نے کے بارے میں معروف مؤرخ الیسٹر لیمب کہتے ہیں :
’’ ریاستی حکام کھلے عام مسلم کُش پالیسی میں شریک رہے۔ انہوں نے ریاست کی سرحد پر پاکستانی علا قوں سیالکوٹ اور گجرات کے مقام پر تین کلو میٹر آس پاس کے علاقوں کو اپنی تحو یل میں لے لیا ۔ اُس علاقے سے پہلے ہندؤں کو نکا لا گیا اور اسکے بعد مسلما نوں کا یاتو قتل عام کیا گیا یا انہیں پاکستان بھگا دیا گیا ۔ ۔ کئی دفعہ ڈوگرہ فوجی دستوں نے پاکستان کے علا قے میں داخل ہو کر کئی گاؤں کو تباہ کر دیا ۔ اکتو بر کے آغاز میں بر طانو ی مبصر نے ایسے ہی پاکستان طرف کے ایک گا ؤں میں سترہ سو مسلما ن مردوں ، عورتوں اور بچوں کی قتل ہوئی لا شوں کو دیکھا ۔۔۔‘‘
انگریز مصنف کرسٹو فر سنیڈین ریاستی حکو مت اور ڈوگرہ فورسز کے ملوث ہو نے کی ثبوٹ کے طور لکھتے ہیں ، ’’ اکتوبرکے آغاز سے 9 نو مبر کی تاریخ تک مسلما نوں کے قتل عام کے دس بڑے واقعات پیش آئے جن میں۲۰اکتو بر کو کٹھوعہ اور اکھنو ر پل کے قریب ، ۲۲اکتوبر کو سانبہ ، ۲۳اکتوبر کو ماؤگاؤں ، ۵ اور ۶نو مبر کو جموں شہر میں اور ۹ نو مبر کو سو چیت گھر کے نزدیک قتل عام کے واقعات شا مل ہیں ۔جن میں ستر ہزار مسلما نوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ ان سات قتل عام کے واقعات میں چار اُس وقت انجام دئے گئے جب ابھی مہاراجہ کی حکو مت قائم تھی اور مہاراجہ نے ابھی بھارت کے ساتھ الحا ق نہیں کیا تھا ۔ ان تمام واقعات میں قاتلوں کا تعلق ریاستی اور ڈوگرہ فو جیو ں سے تھا ۔ مسلمانوں کا وحشیانہ طور قتل عام کرنے کے ان واقعات کے ایک موقعہ پر ریاست کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل آف انٹلیجنس اور بھارتی وزیر اعظم کے ہمرازنے جموں سے پنڈت جو اہر لال نہرو کو ایک خط روانہ کرتے ہوئے لکھا کہ فوج کے ڈوگرہ اور راجپوت بٹالین سے وابستہ سپاہی بلوائیوں کی طرح بستیوں کی بستیوں کو نذر آتش، عورتوں کو اغوا کر کے انکی ؑعصمت دری کر رہے ہیں۔ مہاراجہ اور ارباب اقتدار کی جانب سے انہیں کھلی اجاز ت ملی ہو ئی ہے۔ ۔‘‘اس حو الے سے ریاست کے پہلے مسلمان انڈین سول سروس آفیسر قدرت اللہ شہاب اپنی سوانح میں لکھتے ہیں :
بقیہ منگلوار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں
رابطہ [email protected]