سرینگر //زلزلیاتی پیمانے پر سب سے زیادہ خطرناک 4 اور 5 سسمٹک زون میں آنے والے جموں وکشمیر میں ہر ماہ اوسطاً زلزلے کے5سے زائد جھٹکے محسوس کئے جاتے ہیں۔رواں سال کے 37 دنوں کے دوران ابتک جموں وکشمیر میں 19 بارزلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں ۔محکمہ موسمیات وآفات سماوی کے ا عدادوشمار کے مطابق جنوری کے مہینے میں جموں وکشمیر میں 7 بار زلزلے کے جھٹکے آئے جبکہ فروری میں ابتک 12 بارزلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق 17فروری 2022کو 3.5شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا جس کا مرکز 25کلو میٹر دور جنوبی کشتواڑ تھا۔16فروری کو 3.2شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا جس کا مرکز اسلام آباد پاکستان تھا اور اس زلزلے کے جھٹکے جنوبی کشمیر میں بھی محسوس کئے گئے ۔11فروری کو 3.6شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا جس کا مرکز شیخ پورہ پنجاب پاکستان تھا ۔10فروری کو 3.8شدت کا ایک زلزلہ محسوس کیا گیا جس کا مرکزی مظفرآباد اور اسلام آباد کے درمیان تھا ۔8فروری کو بھی زلزلہ محسوس کیا گیا جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 3.7تھی ۔5فروری کو زلزلے کا ایک جھٹکا محسوس کیا گیا جس کا مرکز جموں وکشمیر تھا ۔3فروری کو بھی جموں وکشمیر میں زلزلہ آیاجس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 4.4تھی اور اس کا مرکزی گلگت بلتستان تھا ۔2فروری کو دن میں 4بار زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے ۔ 30جنوری کو جموں وکشمیر میں 4.2شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا ۔29جنوری کو 4,2شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا اور اس کا مرکز کرگل تھا ۔28جنوری کو 3.9شدت کا زلزلہ محسوس کیا گیا۔ 27جنوری کو 3.4 ، 22جنوری کو 3.5، 22جنوری کو 4.0 ، 21جنوری کو 3.1 اور19جنوری کو 2.7شدت کے زلزلوں کے جھٹکے محسوس کئے گئے ہیں ۔ معلوم رہے کہ چند سال قبل سابق ریاستی حکومت نے شہر سرینگر میں زلزلہ سے غیر محفوظ عمارتوں کی سروے کی تھی جس کے بعد ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی جس میں قریب 2000ایسی عمارتوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو غیر محفوظ قرار دی گئی اور ان میں سے چند ایک عمارتوں کو بعد میں گرایا بھی گیا لیکن انکی جگہ بڑے تعمیراتی کمپلیکس کھڑا کئے گئے۔اس سروے پر بعد میں کوئی عملدر آمد نہیں کیا جاسکا اور وادی بھر میں لگا تاربے ڈھنکی تعمیرات کھڑا ہو رہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر وادی میں 80فیصد عمارات زلزلے کیلئے محفوظ نہیںکیونکہ انہیں بنانے کے دوران اس چیز کا کوئی بھی خیال نہیں رکھا گیا کہ یہ زلزلے کے جھٹکے برداشت کر پائیں گی یا نہیں۔پوری وادی میں دو منزل تو دور تین سے چار چار منزلہ تعمیرات کھڑا کی گئی ہیں، چاہئے سرکاری عمارات ہوں یا پھر غیر سرکاری۔ 8اکتوبر 2005کے تباہ کن زلزلے کے بعد سب سے زیادہ تباہی کرناہ اور اوڑی میں ہوئی۔ اْس وقت کی سرکار نے بڑے پیمانے پر تباہی کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ لیا تھا کہ جموں وکشمیر میں اب جو بھی تعمیرات کھڑا ہوں گی، وہ زلزلہ سے محفوظ ہو، جو زلزلوں کے جھٹکوں کو بھی برداشت کر سکے اور جانی اور مالی نقصان بھی کم ہو۔محکمہ موسمیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عموماً درمیانی اور گہری نوعیت کے زلزلوں سے نقصانات کا امکان کم ہی ہوتا ہے ،تاہم شیلو ٹائپ کے زلزلوں سے نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ یہ زمین میں زیادہ گہرائی تک نہیں ہوتے ہیں۔محکمہ کے مطابق کم گہرائی میں آنے والے زلزلوں میں زمین کے اوپر جھٹکے زیادہ شدت سے محسوس کئے جاتے ہیں۔ زلزلے سے نقصانات کی وجوہات درمیانی شدت کے زلزلے کا بہت کم گہرائی میں ہونا شامل ہوتا ہے۔ماہر ارضیات کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ہر ماہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے جاتے ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ اگر وہ زلزلے کے بارے میں پہلے ہی کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتے لیکن جس طرح سے یہاں زلزلے آتے ہیں اور یہ زلزلہ زون پانچ میں شمار ہوتا ہے تو اگر کبھی یہاں بھاری پیمانے کا زلزلہ آیا تو یہاں کافی تباہی ہو سکتی ہے کیونکہ وادی کے شہر ودیہات میں کسی قسم کا کوئی بھی ایسا انفراسٹرکچر تعمیر نہیں کیا گیا ہے، جو زلزلہ کی شدت کو برداشت کرسکے۔اس کے علاوہ جموں کے کشتواڑ اور ڈوڈہ ضلع میں بڑے بڑے ڈیم تعمیر کئے گئے ہیں جبکہ پہاڑوں کو چیر کر ٹنل تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح پہاڑوں کا قدرتی توازن بھی تبدیل ہو چکا ہے ،خطہ چناب زون 5 میں آتا ہے جہاں زلزلے کے کافی زیادہ امکانات ہیں۔ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ بیرون ممالک میں حکومتوں کے پاس زلزلے سے نپٹنے کیلئے کافی منصوبے ہیں اور وہاں جو عمارات تعمیر ہوتی ہیں وہ زلزلہ کی شدت کے مطابق تعمیرہوتی ہیں۔