اچھن میں روزانہ 550ٹن کچرا 4سال سے مکمل پہاڑ میں تبدیل
بلال فرقانی
سرینگر // سعد پورہ اچھن میں شہر سرینگر سے روزانہ نکلنے والے کچرے کو الگ الگ کرنے کیلئے نصب کیا گیا پلانٹ پچھلے4سال سے بند پڑا ہے۔اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جب بھی نیشنل گرین ٹربیونل یا اور کوئی ٹیم یہاں معائینے کیلئے آتی ہے تو پلانٹ کو کچھ منٹوں کیلئے چلایا جاتا ہے تاکہ ٹیم کو یہ باور کرایا جائے کہ پلانٹ کام کررہا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ بنیادی طور پر میکنیکل سیگریگیٹر پلانٹ 2021سے بند پڑا ہے کیونکہ پلانٹ کی مرمت نہیں کی گئی جس سے یہ تقریباً ناکارہ ہوگیا ہے۔ یہاں میکنیکل سیگریگیٹر پلانٹ اگست 2017 میں 2کروڑ روپے کی لاگت سے نصب کیا گیا۔ یہاںالفا تھرم(Alfa therm ) پرائیویٹ لمیٹیڈ نامی کمپنی کی جانب سے مکینیکل سیگریگیٹر اور کمپوسٹنگ پلانٹ کی تنصیب کی گئی۔اس سیگریگیٹر کی روزانہ صلاحیت 30ٹن فی گھنٹہ تھی اور یہ دن میں تقریباً 5گھنٹے کیلئے کام کرتا تھا۔یہ پلانٹ مجموعی طور پر دن میں 150ٹن کچرے کو الگ الگ کرتا تھا جبکہ روزانہ کی بنیاد پر شہر سرینگر سے550ٹن کچرا جمع ہوتا ہے۔محکمہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر ہر دن 400 ٹن کچرا الگ الگ کرنے سے رہ جاتا تھا اور 2021کے بعد سارا کچرا جمع ہوتا گیا جو اب کچرے کے پہاڑ بن گئے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ مکینیکل سیگریگیٹر کے ذریعے شہر سے نکلنے والے کچرے کو الگ الگ کرنے کا عمل ہر روز شروع ہوتا تھا اور جتنی اسکی صلاحیت تھی ، اتنے کچرے کوا الگ الگ کیا جاتا تھا جس میں 60فیصد پالیتھین و پلاسٹک اور 40فیصد کھانے پینے کی استعمال شدہ اشیاء، کاغذ اور دیگر کوڑا کرکٹ ہوتا تھا۔انہوں نے کہا کہ مکینیکل سیگریگیٹرکے ذریعے جو پالی تھین الگ کیا جاتا تھا، اسے کھنموہ اور کھریو میں قائم سیمنٹ فیکٹریوں کو فروخت کیا جاتا تھا جو اسے بطور (Fuel) ایندھن استعمال کرتے تھے۔ذرائع نے مزید کہا کہ پلاسٹک کو ragpicker چھانٹ کر لیجاتے تھے، جسکی جموں و کشمیر سے باہر ری سائیکلنگ ہوتی ہے۔انکا کہنا تھا کہ جو کچرا باقی بچتا تھا وہ جمع ہوتا گیا اور مکینیکل سیگریگیٹر اور کمپوسٹنگ پلانٹ کے مفلوج ہونے کے بعد شہری سرینگر سے نکلنے والا 550ٹن سے زائد کچرا جمع ہونا شروع ہوا جو اب پہاڑ کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور اچھن کی ڈمپنگ سائٹ مقامی لوگوں کیلئے قیامت سے کم اثر انداز نہیں ہورہی ہے۔اچھن کے معروف سماجی کارکن منظور احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کچرے کے پہاڑوں کے متصل 12بستیاں قائم ہیں، جہاں کی صورتحال قیامت خیز بنتی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس علاقے کی صورتحال کے بارے میں انہوں نے بذات خود متعلقہ محکمے میں کئی بار تحریری شکایات جمع کرائیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
ویسٹ مینجمنٹ سسٹم مفلوج
2016 میں یہاں ایک ویسٹ ٹو انرجی پلانٹ کی تجویز دی گئی تھی، لیکن حکومت اس منصوبے کو شروع کرنے میں ناکام رہی۔ یہاں سالڈ ویسٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود ہے جو صرف فضلے کو علیحدہ کرتا ہے جبکہ دن میں کوڑے کے پہاڑوں پر تین چار بار سپرے کی جاتی ہے۔میونسپل فضلہ میں اضافہ بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور بدلتے ہوئے استعمال کے پیٹرن نے موجودہ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کو مفلوج کر دیا ہے۔ سری نگر کی آبادی، جس کا تخمینہ 1.2 ملین سے زیادہ ہے، فی کس فضلہ پیدا کرنے کی شرح تقریباً 400-700 گرام فی دن ہے، جو ہندوستان میں قومی اوسط سے نمایاں طور پر زیادہ ہے۔ اس اضافے کی وجہ صارفیت میں اضافہ، ماخذ پر فضلہ کی علیحدگی کی کمی اور ری سائیکلنگ یا کمپوسٹنگ کی محدود سہولیات ہیں۔سرینگر کے میونسپل فضلہ کی ساخت میں نامیاتی فضلہ،کھانے پینے کی اشیاء، کوڑا کرکٹ، پلاسٹک، کاغذ، ٹیکسٹائل، اور طبی فضلہ جیسے خطرناک مواد شامل ہیں۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ رولز (SWM) 2016 کے باوجود، جو علیحدگی، ری سائیکلنگ، اور سائنسی طریقے سے ٹھکانے لگانے کا حکم دیتا ہے، سری نگر کا زیادہ تر کچرا غیر منقطع رہتا ہے۔ دھوپ اور بارش کے اثرات سے کچرے کے ڈھیر بگڑتے جا رہے ہیں اور یہ قریبی زرعی زمینوں اور انچار جھیل میں بہنا شروع ہو گئے ہیں۔ شہریوں نے حکومت سے فوری توجہ دینے اور صفائی کے مستقل انتظامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اب سرینگر یومیہ 11.5لاکھ ٹن کچرا پیدا کرتا ہے۔ صرف 20 سے 25 کنال زمین پر کچرا ڈمپ کیا جا رہا ہے، جبکہ مجموعی لینڈ فل ایریا 914 کنال پر محیط ہے ۔
ناکافی افرادی قوت
سری نگر میونسپل کارپوریشن کو ناکافی افرادی قوت، ناکافی گاڑیاں، اور مالی رکاوٹوں جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے، جو کچرے کے انتظام کے جدید طریقوں کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں۔ نتیجے کے طور پر، اچھن ڈمپنگ سائٹ ماحولیاتی اور صحت سے متعلق خدشات کا مرکز بن گئی ہے، اس کی گنجائش کئی دہائیوں کے دوران جمع ہونے والے 11.5 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ تجاوز کر گئی ہے۔ اس سائٹ کو ابتدائی طور پر Ramky Enviro Engineers Ltd. کی طرف سے سائنسی لینڈ فل کے طور پر تیار کیا گیا تھا، لیکن اس کے کام بڑے پیمانے پر کھلے، غیر سائنسی ڈمپنگ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ تقریباً 400-550 میٹرک ٹن کچرا روزانہ پھینک دیا جاتا ہے، بغیر مناسب علیحدہ کرنے یا ٹھکانے لگانے کے،جو بڑے ڈھیروں کی شکل اختیار کرتا ہے، جسے مقامی لوگ “موت کے پہاڑ” کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
گرین ٹریبونل کا حکم
مئی 2024میں نیشنل گرین ٹریبونل نے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت دی جسے کہا گیا کہ وہ اچھن میں صحیح پوزیشن، لینڈ فل سائٹ پر غیر قانونی ڈمپنگ سے پیدا ہونے والی آلودگی ، اس کے نتیجے میں صحت کو لاحق خطرات اور اسکے تدارک کے اقدامات تجویز کریں اور آٹھ ہفتوں کے اندر رپورٹ ٹریبونل کے سامنے پیش کریں۔ اس کمیٹی میں مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ ، ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت کی نیشنل ویٹ لینڈ کمیٹی، سرینگر کے ڈپٹی کمشنر، اور آلودگی کنٹرول کمیٹی کے ممبر سکریٹری کے نمائندے شامل ہیں۔عدالت سے استدعا کی گئی کہ تقریباً450 میٹرک ٹن کچرا روزانہ لینڈ فل سائٹ پر پھینکا جاتا ہے جو کہ 75 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور جو انسانی رہائش کے قریب واقع ہے۔ یہاں کچرے کو پھینکنا سالڈ ویسٹ مینجمنٹ رول، 2016، میونسپل سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، جموں و کشمیر، 2018 کے ایکشن پلان میں مقرر کردہ ٹائم لائن، بائیو میڈیکل ویسٹ مینجمنٹ رولز، 2016، اور پلاسٹک ویسٹ مینجمنٹ رولز، 2016 کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے قبل بھی اس سلسلے میں2015 اور 2017 میں احکامات جاری کیے گئے لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔