پی ڈی پی کا یوم تاسیس پر سرینگر میں طاقت کا مظاہرہ
سرینگر// پی ڈی پی صدر اورسابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ بھاجپا کے ساتھ حکومت کی تشکیل مجبوری کے تحت زہر کا پیالہ پینے کے مترادف تھا اور گزشتہ2برس کی مدت انکے لئے قیامت خیز ثابت ہوئی۔مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے حریت اور پاکستان سے بات کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کی نئی سرکار نے مرکز کو بات چیت کی جو پیشکش کی ہے،اس کا مثبت جواب دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے آئین ہند کی دفعہ35اے کے دفاع کیلئے نیشنل کانفرنس اور حریت کانفرنس کیساتھ مشترکہ طور پر دفاع کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا کہ کانگریس ایک مرکزی جماعت ہے،اور انکی اپنی پالیسی ہے۔مخلوط سرکار کے خاتمے کے بعد پی ڈی پی نے پارٹی کے19ویں یوم تاسیس کی مناسبت سے عوامی جلسہ منعقد کیا جس کے دوران مظفر بیگ سمیت چھوٹے بڑے لیڈروں اور سابق وزراء نے شرکت کی۔
۔35دفعہ اے کا دفاع
محبوبہ مفتی نے کہا کہ حریت کانفرنس اور نیشنل کانفرنس سمیت دیگر تمام جماعتوں کو مشترکہ طور پر ریاست کی خصوصی پوزیشن کا دفاع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی سبھی سیاسی جماعتوں کو 35Aکے تحفظ کی خاطر یک جٹ ہوجانے کی ضرورت ہے۔سابق وزیر اعلیٰ نے کہا ’’ ریاست کو خصوصی تشخص فراہم کرنے والی آئینی شق آرٹیکل 35Aکا سبھی سیاسی جماعتوں کو تنظیمی مفادات سے بالاتر ہوکر اس کا دفاع کرنا ہوگا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ کچھ خود غرض عناصر سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے جموں، کشمیر اور لداخ کے لوگوں کے درمیان دوریاں بڑھانے کی کوششیں کررہے ہیں جس کو کسی بھی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ فی الوقت آرٹیکل 35Aکا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ،لہٰذا ریاست کی سبھی سیاسی جماعتوں کو تنظیمی مفادات سے بالاتر ہوکر ریاست کے تحفظ کی خاظر یک جٹ ہوکر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔۔ محبوبہ مفتی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت کے دوران دفعہ 35 اے کا کامیاب دفاع کیا۔ انہوں نے کہا ’جب دفعہ 35 اے سپریم کورٹ میں تھا تو میرے لئے حکومت سے الگ ہوجانے کا وقت آگیا تھا۔ میں نے مودی جی (وزیر اعظم نریندر مودی) سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ آپ دفعہ 370 کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے۔ میں نے مودی جی سے کہا کہ دفعہ 35 اے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور آپ کا اٹارنی جنرل اس کا دفاع نہیں کررہا ہے۔ اگر آپ نے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو ہم اس اتحاد کو آگے لے جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی اٹارنی جنرل نے بعد میں بیان دیا کہ دفعہ 35 اے پر سماعت کو تعطل میں رکھا جائے کیونکہ ہم نے جموں وکشمیر میں بات چیت کے لئے مذاکرات کار نامزد کیا ہے۔
این آئی اے
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’میں نے مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے کہا تھا کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی این آئی اے کے ذریعہ گرفتار کئے گئے علیحدگی پسند رہنماؤں کو عیدالفطر کے موقع پر رہا کیا جائے‘۔ محبوبہ مفتی نے کہا ’میں نے اپنے دور حکومت میں کسی بھی معاملے پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ میں یہاں ایک طوفان جبکہ وہاں (نئی دہلی میں) دوسرے طوفان کا سامنے کرتی تھی‘۔ انہوں نے کہا ’وزیر داخلہ (راجناتھ سنگھ) نے (علیحدگی پسندوں) سے بات چیت کی پیشکش کی۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہو کہ حریت والے مذاکرات کے ٹیبل پر آجائیں تو کچھ حریت رہنماؤں کو رہا کردیجئے جن کو آپ نے این آئی اے کے ذریعہ بند کرایا ہے۔ انہیں آپ جذبہ خیرسگالی کے طور پر عید کے موقع پر رہا کیجئے۔ وہ سازگار ماحول قائم کرنے میں ہماری مدد کریں گے۔ وہ یہاں کے حالات ٹھیک کرنے اور بات چیت میں ہماری مدد کریں گے‘۔
رمضان سیز فائر اور ہلاکتیں
پی ڈی پی صدر نے کہا کہ رمضان سیز فائر کی بدولت وادی میں شہری ہلاکتوں کا سلسلہ رک گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’جب کسی جگہ مسلح تصادم ہوتا تھا تو وہاں جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ عام شہری اور بچے بھی جاں بحق ہوتے تھے۔ میرے ہاتھ میں کیا تھا؟ میرے ہاتھ میں یہی تھا کہ میں نے مرکزی حکومت کو رمضان سیز فائر کے لئے آمادہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گولیاں چلنے، مسلح تصادموںاور عام شہریوں کے جاں بحق ہونے کا سلسلہ رک گیا‘۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ’میں نے گذشتہ دو برس کے دوران کبھی نہیں ہنسا اور اس کی یہ وجہ ہے کہ مجھے ایک کے بعد ایک طوفان کا سامنا کرنا پڑا‘۔ ان کا کہنا تھا ’ہمارے درمیان بہت چیزوں پر اختلافات ہوا۔ مجھے سے لوگ کہتے تھے کہ آپ ہمیشہ مایوس رہتی ہیں۔ میں کہاں آرام کرتی یا خوش رہتی؟ صبح فون آتا تھا کہ اتنے لوگ مر گئے۔ شام کے وقت فون آتا تھا کہ اتنے لوگ مر گئے۔ کیا مجھے سکون سے کام کرنا کا ایک دن بھی دیا گیا؟‘۔
زہر کا گھونٹ
پی ڈی پی صدر نے بتایا کہ میں نے بحیثیت وزیر اعلیٰ 2برسوں کے دوران کسی بھی سطح پر ریاست عوام کی خواہشات کا سودا نہیں کیا اور نہ ہی مصلحت پسندی سے کام لیا۔انہوں نے بھاجپا کے ساتھ2سال کی حکومت کو قیامت خیز قرار دیتے ہوئے کہا ’’بدقسمتی سے2016میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ،جس کی وجہ سے صورتحال ہی تبدیل ہوئی‘‘۔محبوبہ نے کہا کہ جب بھی مجھے کسی نوجوان کے مرنے کی اطلاع ملتی تھی،تو میرا جگر چھلنی ہوجاتا تھا،میں کھبی دہلی اور کھبی سرینگر کا طواف کرتی۔انہوں نے کہا’’ میں نے وزیر اعظم ہند نریندر مودی سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ کشمیر میں ایک ہلاکت ہمارے تمام کئے کرائے کام پر پانی پھیر رہی ہے،اور اگر80 ہزار کروڑ روپے کے بدلے اور کچھ بھی دیا جائے،اس سے ان ہلاکتوں سے ناراض ہوئے لوگوں کی بھر پائی نہیں ہوگی۔ انہوں نے بھاجپا کے ساتھ حکومت سازی کو ایک سمجھوتہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ محبوبہ نے بتایا کہ مفتی محمد سعید کے انتقال کے ساتھ ہی میری سیاست کی موت بھی واقع ہوئی،اور میں وزیر اعلیٰ نہیں بننا چاہتی تھی،جبکہ میں نے پارٹی کو اس سلسلے میں آگاہ بھی کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ بعد میں اکثریتی ممبران نے کہا کہ اگر بی جے پی کے ساتھ ہم حکومت سازی نہیں کرینگے،تو یہ مرحوم مفتی محمد سعید کے ایجنڈے کی تذلیل ہوگی۔ محبوبہ مفتی نے ایک بار پھر بھاجپا کے ساتھ حکومت سازی کا دفاع کرتے کہا کہ انہوں نے دفعہ35اے اور دفعہ370کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے سے بھاجپا کو روکا۔
مذاکرات
محبوبہ مفتی نے وزیر اعظم ہند نریندر مودی سے اپیل کی کہ وہ پڑوسی ملک پاکستان کے نئے متوقع وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے دوستی کی پیشکش کا مثبت انداز میں جواب دیں۔انہوں نے کہا’’ پاکستان کی نئی متوقع سرکار نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے،اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے،اور مرکز کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیشکش کا مثبت جواب دیں‘‘۔ انہوں نے وزیر اعظم سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان بہتر رشتوں کو مضبوط بنانا خطہ میں ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ پی ڈی پی صدر نے کہا’’ میں وزیر اعظم سے اپیل کرنا چاہتی ہوں کہ وہ پڑوسی ملک کی طرف سے دوستی کی پیش کش کا مثبت انداز میں جواب دیں‘‘۔سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان رشتوں کی مضبوطی ہی کامیابی کی ضمانت ہے جس کے لیے دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کو سنجیدہ اقدامات اُٹھانے ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان رشتوں میں سدھار آنے سے خطے میں بھی غیر یقینی کے بادل چھٹ جائیں گے اور ہر سو امن، سکون اور خوشحالی کا ماحول قائم ہوگا۔پی ڈی پی صدر نے بتایا ’’ ملک میں آنے والے انتخابات وزیر اعظم نریندر مودی کو پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ تھامنے میں مانع نہیں بننے چاہیے۔انہوں نے بتایا ’’ انتخابات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، آپ سے پہلے بھی ملک کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ۔ انہوں نے وزیر اعظم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا’’ ملک کا جو بھی وزیر اعظم جموں وکشمیر کے مسئلے کو انسانی دائرے کے اندر حل کرنے ، خون خرابے کو رکوانے اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی پہل کرے گا اُس کا نام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا‘‘۔
اراکین کی بغاوت
محبوبہ مفتی نے پی ڈی پی کے اندر بغاوت کا راست ذکر کئے بغیر کہا ’میں جانتی ہوں کہ ورکر کو ایم ایل اے سے شکایت ہے۔ ایم ایل اے کو منسٹر سے شکایت ہے۔ منسٹروں کو مجھ سے شکایات ہوسکتی ہیں۔ مگر ہم (پیچیدہ) حالات میں مبتلا ہوگئے تھے۔ ہم طوفان میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ ایک طرف یہاں حالات سے جنگ لڑنی پڑی وہیں دوسری طرف دلی میں بات چیت ، پاکستان سے بات چیت، دفعہ 370 ، دفعہ 35 اے کے لئے جنگ لڑنی پڑی‘۔
کھٹوعہ واقعہ
محبوبہ مفتی نے ضلع کٹھوعہ میں جنوری میں پیش آئے وحشیانہ عصمت دری واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’پھر رسانہ (کٹھوعہ) واقعہ کی صورت میں ایک اور بدقسمت واقعہ سامنے آیا۔ میں کبھی اس مسئلے پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی، کیونکہ میری بھی دو بیٹیاں ہیں، آج بھی جب میں اس لڑکی کے بارے میں سوچتی ہوں تو میرے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کے وزراء میرے پاس آئے اور کہا کہ کیس کی انکوائری سی بی آئی کے حوالے کی جائے۔،میں نے ان سے کہا کہ میں یہ قطعی نہیں کروں گی‘۔ پی ڈی پی صدر نے کہا کہ صوبہ جموں میں خانہ بدوش گوجر و بکروال کیمونٹی سے زیادتی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا ’ہمارے پاس گوجر برادری ہے،ان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے،ہم نے قانون بنانا چاہا جس کا مقصد تھا کہ گوجر برادری جہاں کہیں رہائش اختیار کرتی ہے ان کے ساتھ چھیڑا نہ جائے، اس کے لئے ہم نے کابینہ میں ایک بل کا مسودہ لایا‘‘۔ انہوں نے (بی جے پی نے) نہیں مانا۔ مجھے ایک آڈر نکالنا پڑا کہ جب تک ہم نیا قانون بناتے ہیں، تب تک ان کے ساتھ چھیڑا نہ جائے‘۔
ہجومی تشدد کو روکا نہیں گیا تو ایک اور تقسیم ہوگی :بیگ
سرینگر/ بلال فرقانی/ پی ڈی پی کے سنیئر لیڈر مظفر حسین بیگ نے اقتدار کو آنے جانے والی شئے قرار دیتے ہوئے باغی و ناراض اراکین کو گھر لوٹ آنے کی صلاح دی۔ انہوں نے مرکزی حکومت کو خبردار کیا کہ اگر ہجومی تشدد (lynching)کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو بھارت کو ایک اور تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بیگ نے کہا کہ پی ڈی پی کا مقصد اقتدار میںآنا نہیں،بلکہ کشمیریوں کو اس صورتحال سے باہر نکالنے کا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقتدار آنے جانے والی شئے ہے،تاہم ہر پارٹی کیلئے اقتدار ضروری ہے،تاکہ وہ لوگوں کے مسائل حل کرسکے۔پی ڈی پی کے باغی ممبران کو گھر واپس آنے کا مشورہ دیتے ہوئے بیگ نے کہا کہ ادِھر ادُ ھرجانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ پی ڈی پی کے پلیٹ فارم سے ہی مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔انکا کہنا تھا کہ جب پی ڈی پی کی داغ بیل ڈالی گئی،اس وقت نیشنل کانفرنس،جماعت اسلامی اور کانگریس جیسی بڑی جماعتیں موجود تھیں،تاہم اس کارواں میں لوگ جڑتے رہے،اور پی ڈی پی نے حکومت بھی تشکیل دی،تاہم انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پارٹی لیڈروں سے کچھ کوتاہیاں ہوئیں،اور وزراء نے کارکنوں کو تو دور ممبران اسمبلی کو بھی خاطر میں نہیں لایا۔انہوں نے کورپشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سابق مخلوط سرکار میں بھی کورپشن تھا،اور اب گورنر راج کے دوران بھی یہ لعنت ختم نہیں ہوئی۔بھارت میں بڑھتے ہوئے ہجومی تشدد پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا جلد خاتمہ ہونا چاہے۔مظفر بیگ نے کہا کہ بھارت اس ہجومی تشدد کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا ،تو تقسیم ہند کی ایک اور تاریخ رقم ہوگی‘‘ ۔انہوں نے کہا ’مسلمانوں پر بھارت میں اس وقت ظلم وتشدد ڈھایا جارہا ہے ،گائے کی مبینہ سمگلنگ کے نام پر مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ایک اور تقسیم ہند ہوگی ‘۔انہوں نے کہا کہ بھاجپا کے ساتھ حکومتی اتحاد قائم کرنے کا واحدمقصد یہ تھا تاکہ ملک بھر کے مسلمانوں اور کشمیری عوام کے ساتھ انصاف ہوسکے ۔ انہوں نے بی جے پی کے ساتھ حکومت سازی کے حوالے سے شراکت داری کو جواز بخشتے ہوئے کہا کہ پی ڈی پی نے صرف ملک اور ریاست کے مسلمانوں کی سلامتی کو لے کر بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا ،جبکہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی شروعات تھی۔انہوں نے واضح کیا کہ پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ اقتدار کیلئے اتحاد نہیں کیا ،ہم نے بی جے پی کے ساتھ اس لئے اتحاد کیا ،تاکہ کشمیریوں اور مسلمانوں کو انصاف مل سکے۔ بیگ نے کہا کہ جموں وکشمیر کے سیاسی مسئلے کے حل کیلئے پاکستان اور حریت کانفرنس کے ساتھ مذاکرات ضروری ہیں ۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے پہلے ہی بیان میں دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور مذاکرات کی پیشکش کی ،یہ خوش آئندہ ہے ،اس کا مثبت جواب دیا جانا چاہئے ۔ بیگ نے کہا ’’مجھے یہ معلوم ہے کہ پارلیمنٹ کے انتخابات ہورہے ہیں ،اور ہوسکتا ہے کہ اس کا مثبت جواب نہ آئے ،لیکن پاکستان کے ساتھ بات ہر صورت میں کرنی ہوگی ‘‘۔ا نہوں نے پنچایتی انتخابات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ستمبر میں شاید یہ انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اور ہماری پارٹی ان انتخابات میںحصہ لے گی،کیو نکہ ہر پنچایت کو 50لاکھ روپے ترقیاتی کاموں کیلئے ملتے ہیں ،جسے گائوں کی تقدیر کو بدلا جاسکتا ہے۔ جلسہ سے خورشید عالم اور منتظر محی الدین نے بھی خطاب کیا۔
کارکن چنائو کیلئے تیار رہیں:بخاری
سرینگر/بلال فرقانی/پی ڈی پی کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر سید الطاف بخاری نے کہا ہے کہ پی ڈی پی کے بغیر کوئی بھی جماعت حکومت سازی نہیں کرسکتی۔ سرینگر میں پارٹی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر نے کارکنوں کو انتخابات کیلئے تیار رہنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست میں حکومت سازی ہوگی،تو پی ڈی پی کے بغیر کوئی بھی حکومت نہیں بنا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سرینگر کی ترقی میں سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا بڑا ہاتھ ہے،کیونکہ سرینگر کے ضلع پلان میں گزشتہ30برسوں سے اگر اضافہ ہوا ، تو وہ محبوبہ مفتی کے دور میں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی پی حکومت نے تعمیر و ترقی کے لحاظ سے کئی تاریخی اقدامات اٹھائے،تاہم کچھ کوتاہیاں بھی ہوئیںہونگی،جن کا ہمیں خالی احساس ہی نہیں افسوس بھی ہے۔ بخاری نے کہ جموں کشمیر کے اندرونی حالات کو مد نظر رکھ کر پارٹی نے ہمیشہ مفاہمت اور بات چیت کو دھونس دبائو پر ترجیج دی اور نہ صرف سماجی اور معیشتی منصوبوں پر کام کیا،بلکہ سیاسی انتشار کو ختم کرنے کی بھی دل وجان سے کوشش کی۔