سانحہ کنن پوشہ پورہ کے متعلق انصاف کا قاضیٰ ابھی اپنا فتوی دینے کے متعلق دم بخود ہی تھا کہ قوم کی عزت و عصمت پر ایک اور کاری ضرب لگائی گئی۔29 ؍مئی 2009ء اسی دردوکرب کا جعلی عنوان ہے۔ اس روز شوپیان کی دو عفت مآب بیٹیاں۔۔۔آسیہ اور نیلوفر۔۔۔ حسب معمول گھر کے نزدیک اپنی سبزی واری میں گئیں تاکہ وہاں سے سبزی لائیں ، سبزی تو نہیں آسکی لیکن وہاں سے ان دونوں کی زخم زخم لاشیں آئیں جن کو دیکھ کر آسمان بھی پھٹ پڑا اور زمین بھی سہم کر رہ گئی۔29؍ مئی کی وہ غم ناک شام جب شوپیان میں سورج تھک ہار کر اہرہ بل کے اونچے اونچے پہاڑوں کے پیچھے سستانے کی تیاری کر رہا تھا، شام کا اندھیرا دن کی روشنی کو نگلنے کی کوشش کر رہا تھا اور پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹنے کا سوچ رہے تھے ،آسیہ و نیلوفر بھی گھر کی طرف وآپس مڑنے کے لئے نکلیں لیکن سوچا ہی نہیں کہ اب وہ گھر نہیں سیدھے قبرستان سدھاریں گی۔ سوچتی بھی کیسے ، وہ تھوڑی ہی پہلی بار گھر سے سبزی واری کو جارہی تھیں مگرآج ان کا وقت کے فرعون کے ہاتھوں انہیں ایک ایسی دنیا میں پہنچنا طے تھا جہاں جانے والے کبھی واپس نہیں لوٹتے۔ دن کی روشنی میں گھر سے سبزی واری کی طرف نکلنے والی آسیہ اور نیلوفر جب وقت بھی وآپس نہ لوٹیں جب کہ اندھیرا روشنی پہ حاوی ہوچکا تھا ، تو گھر والے بہت پریشان ہوگئے۔انہوں نے رات بھر اپنی پیاری بچیوں کو ڈھونڈا لیکن بے سود۔30؍مئی کی سحر طلوع ہوئی تو یہ لوگ ان کی تلاش کرتے کرتے نالہ رمبی آرہ تک پہنچے اور یہ دیکھ کر سکتے میں آگئے کہ آسیہ اور نیلوفر پتھروں کے ننگے بستر پر تشدد و اجتماعی عصمت دری کی لحاف اوڑھے ابدی نیند سو چکی تھیں۔ لوگ چیخ وپکار کر نے لگے ، زار و قطار رو نے لگے ، واویلا اور سینہ کوبی میں اپنے غم کا مداوا ڈھونڈنے لگے ، وہ حیران وپریشان تھے یہ کیا ہو ا، یہ قیامت کیونکر ٹوٹی لیکن سامنے پڑیں دو لاشیں ابدی نیند چھوڑ دینے کو تیار نہ تھیں کیونکہ آسیہ اور نیلوفر کی زبانیں ہمیشہ کے لئے خاموش ہوچکی تھیں۔ وہ اپنی بپتا بیان کرنے کے لئے وہ آثار و قرائین منہ کھلی شہادت دے رہی تھیںکہ ہم کس حیوانیت اور کن درندوں کی ہتھے چڑھ گئیں ۔ ہمارے اغواء کار کون ہیں اور ہمارے قاتل کون ہیں۔ رمبی آرہ کی فضا غم زدہ اورسوگوار تھی، یہاں پتھر مرثیہ خواں تھے، یہاں پیڑپودے اور جھاڑیاں غم کے آنسو بہا بہاکر آسیہ اور نیلوفر پر ڈھائے گئے ظلم کی گواہی دے رہے تھے ۔ ان میں قوت ِگویائی نہ تھی مگر وہ بزبان حال ساری روداد سنارہے تھے کہ کس طرح آسیہ ونیلوفر کی فلک شگاف چیخوں نے رمبی آرہ کے پتھروں کو موم کردیا تھا ، کس طرح درندہ صفت حیوانوں نے وردی کا سہارا اور افسپا کی آشیرواد سے اپنی بدترین درندگی کا اظہار کر کے ان دومعصوموں پر ترس نہ کھا یا ۔شوپیان المیہ سے کشمیری قوم بھونچکا رہ گئی۔ یہ ایک ایسا ناقابل مندمل زخم ہے جس کی ٹیسوں نے پورے کشمیر کو بے قرار کر دیا، سارا کشمیر دہل اٹھا، کشمیر ی قوم غم وغصہ کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گئی ، طویل ہڑتال ہوئی ، سڑکیں ویران ہوگئیں، بازار سنسان ہوگئے، ہر فردبشر آسیہ اور نیلوفر کے قاتلوں کی نشاندہی کرکے انہیں پھانسی دینے کی مانگ کر رہا تھا۔ شوپیان میں حصول ِانصاف کے لئے عوامی سطح پر ایک کارڈی نیشن کمیٹی تشکیل دی گئی ۔اُس وقت عاریتاً کرسی پر بیٹھنے والے عمر عبداللہ نے پہلے معاملہ گول کر دینے کی ہر ممکن کوشش کی مگر جب عوامی دباؤ ناقابل برداشت ہوا تو ٓآسیہ اور نیلوفر کو اپنی بہن کہہ کے انصاف کا ویسا ہی وعدۂ فردا دیا جیسے شیخ عبداللہ نے قوم کو رائے شماری کے وعدے پر ۲۲؍سال تک خوب جذباتی استحصال کرنے کے بعد خالی ہاتھ رکھ چھوڑا اور اس وعدہ خلافی کے عوض عارضی کرسی سنبھالی۔
شوپیا ن نہایت ہی المناک اور خون کے آنسو رُلادینے والا المیہ ہے۔ ایک تو معصوم خواتین کی عصمت دری اور قتل کا یہ اندوہناک معاملہ پیش آیا تھا ، اوپر سے عمر عبداللہ کی کرسی نواز گومگو پالیسی اور نام نہاد تحقیقاتی ٹیموں کی کذب بیانیاں ملوثین کو بچانے اور عوام کے ہرے زخموں پر نمک پاشی پر مر کوز تھیں ۔ طارق احمد گنائی جوشوپیان کے رہنے والے معزز شہری ہیں اور جنہوں نے لواحقین کو انصاف دلانے کے لئے کافی جدوجہد کی اور آج بھی جرم بے گناہی میں جیل کی زینت بنے ہوئے ہیں،کا کہنا ہے ــ’’یہاں کی تمام ہندنواز جماعتیں اور ایجنسیاں جانتی تھیں کہ اس فعل بد کو انجام دینے والے کون ہیں، مگر جان بوجھ کر گناہ گارروں کو چھپانے کی کوشش کی گئی کیونکہ وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے ۔ حکومت کی حرکات وسکنات سے روز اول سے واشگاف ہوا تھا کہ اس کیس کو دبانے کی باضابطہ کوششیں کی جارہی ہیں بلکہ تھانہ شوپیان میں اس سانحہ سے متعلق کئی دن تک محض ایک معمولی شکایت درج رہی اور پھر سیف الدین سوز نے نیم دلی سے سونیا گاندھی کے کہے پر ایف آئی آر درج کروائی‘‘ ۔ اس وقت کی کٹھ پتلی حکومت کا یہ کہنا کہ مقتولین دوانچ پانی کی سطحِ آب رکھنے والے نالہ میں ڈوب مری ہیں، صریحاً مجرموں کی بھونڈی وکالت ہے ۔ تھانہ شوپیان میں اس المیہ سے متعلق کئی دن تک محض ایک معمولی شکایت درج رہی۔وقت کے چیف منسٹر کے بعد عمر عبداللہ کے اس بیان نے ان نازک گھڑیوں میں جلتی پر تیل چھڑکاکہ ان دونوں کی موت قدرتی طور خشک نالہ رمبی آرہ میں ڈوبنے سے ہوئی ۔ لیکن بعد ازاں جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اس صریح جھوٹ پر آتش زیرپا ہیں تو انتظامیہ کو موردالزام ٹھہرایا کہ اس نے غلط اطلاع فراہم کی تھی مگر کیا غلط اطلاع رسانی پر عمر عبداللہ نے کسی آفیسر کے خلاف کوئی قانونی یا انتظامی کاروائی کی؟ نہیں۔ جسٹس جان کمیشن کی تحقیقات میں ایک نہیں سو خامیاں اور نقائص تھے مگر سرکار نے عوام کی زبردست ناراضی کے باوجود اسے لوگوں کے سرتھوپ دیا۔ اسی طرح پولیس کی اسپیشل انیوسٹی گیشن ( sit) کا نتیجہ بھی صفر کے برابر رہا۔جان کمیشن سے لے کر سی بی آئی کی نام نہاد تحقیقات تک پھیلی ساری رام کہانی کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کسی طرح جرم کی جڑوں تک نہ پہنچنا جائے ۔ سی بی آئی نے جو انکوائری رپورٹ پیش کی اس کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ۔ایجنسی کا یہ کہنا کہ مقتولین کی موت نالہ رمبی آرہ میں ڈوب مرنے سے ہوئی ہے، ایک مضحکہ خیز جھوٹ ہے۔حالانکہ جان کمیشن نے بھی اس بات کی گواہی دی تھی کہ نالہ رمبی آرہ میں اتنا پانی نہیں تھا کہ جس میں ڈوب کر مرا جاسکتا اور نہ ہی گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس نالے میں کسی کے ڈوب مرنے کا کوئی ریکارڈ ہے۔بحث کے لئے اگر مان بھی لیا جائے کہ آسیہ و نیلوفر قدرتی طور اس نالے میں میں ڈوب گئی تھیں وت سوال یہ ہے کہ ان کے جسموں پر لگے زخموں کا کسی تحقیقاتی ایجنسی کے پاس کوئی جواب موجود ہے؟ آخر آسیہ اور نیلوفر زخمی کیسے ہوگئیں؟ ان کے اعضاء پر کیونکر تشدد کے نشانات ثبت تھے؟ سی بی آئی کی 66؍ صفحات پر مشتمل رپورٹ کو حقائق کی بنیاد پر حرف بہ حرف جھوٹ کا پلندہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔حد یہ ہے کہ انکوائری ایجنسیوں نے مجرموں کی نشاندہی کرنے کے بجائے خود سوگواروں کو ہی ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا، اتنا ہی نہیں بلکہ انصاف کے متلاشی وکلاء ، پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر وں اور واقعہ کے عینی شاہدین تک کو بے اعتبار بتایا۔یہ وہی سی بی آئی ہے جس نے ہندوستان میں پراسرار معاملوں کی تہہ تک جاکر کئی بار جرائم کے حوالے سے حقیقتوں کو سامنے لایا مگر چونکہ اہل کشمیر ہندوستان سے اپنا پیدائشی حق مانگ ر ہے ہیں، اس لئے آسیہ و نیلوفر کا کیس بھی سیاسی بغض و عناد کے مقتل میں لٹکایا گیا۔آج جب شوپیان المیہ کو نو سال مکمل ہوئے ، مقتولین کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ پوری کشمیری قوم اس دن کی منتظر ہے جب ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ یہ حقوق البشر کا تقاضا ہی نہیں بلکہ بقائے انسانیت کا مطالبہ ہے کہ شوپیان کی مظلوم بیٹیوں کے ساتھ خونخوارانہ معاملہ کرنے والے معلوم ونامعلوم درندوں کو کشمیریوں کے اجتماعی ضمیر کی تسکین کے لئے عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ آسیہ و نیلوفر کی بے قرار روحوں کو قرار مل سکے۔ کشمیری قوم کا اس بات پر متزلزل ایمان ہے کہ شوپیان المیہ کے ذمہ داروں سمیت کنن پوشپورہ ، تابندہ غنی اور آصفہ جیسی ملت کی بیٹیوںکے مجرموں کو دیر سویر قدرت کا قانون اپنے کیفر کردار تک پہنچائے گا۔
رابطہ۔۔۔منزگام، اہرہ بل، کولگام
9070569556