سرینگر//بشری حقوق کے ریاستی کمیشن نے27برس قبل ہندوارہ سانحہ میں جاں بحق ہوئے افراد کے کیس تحقیقات سے متعلق مکمل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔یکم اکتوبر1990کو شمالی قصبہ ہندوارہ میں سرحدی حفاظتی فورس کی اندھا دھند فائرنگ سے درجنوں افرد جاں بحق ہوئے تھے۔2نومبر کو انسانی حقوق کے کمیشن میں اس کیس کی شنوائی ہوئی،جس کے دوران کمیشن کے سربراہ جسٹس بلال نازکی نے کیس سے متعلق مکمل تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔اس سے قبل پولیس نے اس سلسلے میں اپنی ایک رپورٹ پیش کی تھی،جس میں کہا گیا’’ سانحہ کے روز بی ایس ایف کے ٹاون ہال کے انچارج افسر انسپکٹر رتن روین کی سربراہی میں اہلکاروں ،نے پولیس تھانے کا گھیرائو کیا،جبکہ پولیس پارٹی پر بھی گولیاں چلائی،جس کے نتیجے میں ہیڈ کانسٹبل علی محمد جاںبحق ہوا،جبکہ پولیس تھانے کے گیٹ پر تعینات سنتری عبدالعزیز پر بھی گولیاں چلائی گئیں،جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوا‘‘۔رپورٹ میں کہا گیا’’سرحدی حفاظتی فورس کے اہلکار بعد میں پولیس تھانے میں داخل ہوئے،جبکہ انچارج انسپکٹر نے گولیاں چلائیںاور پولیس کو دھمکی دی کہ وہ انہیں ماریں گے،اور پولیس تھانے کو نذر آتش کریں گے‘‘۔پولیس رپورٹ میں کہا گیا اس سلسلے میں کیس درج کیا گیااور تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ بی ایس ایف کی فائرنگ سے پولیس اہلکار سمیت14 شہری جاں بحق جبکہ مزید3زخمی ہوئے،جن میں ایک کانسٹبل بھی شامل ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران شناختی پریڈ بھی کرائی گئی،تاہم کسی بھی بی ایس ایف اہلکار کی نشاندہی نہیں ہوئی،اور آخر کار کیس کی تحقیقات’’پتہ نہیں چلا‘‘ کی بنیاد پر بند کی گئی۔