جموں و کشمیر کے سیکورٹی کے ذمہ دارجوابدہ:وزیر اعلیٰ
سرینگر// وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بدھ کوکہا کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرنے سے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں خونریزی ختم نہیں ہوئی ہے، اور سیکورٹی کے ذمہ داروں کو جوابدہ ہونا چاہئے۔عبداللہ نے جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع میں نامہ نگاروں کو بتایا، ہم چاہتے ہیں کہ یہ (تشدد کا)سلسلہ بند ہو۔ انہوں نے کہاکہ جموں و کشمیر، خاص طور پر کشمیر نے گزشتہ 30-35برسوںمیں بہت زیادہ خونریزی دیکھی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا’’ہمیں بتایا گیا تھا کہ اب ایسا نہیں ہوگا اور یہ سلسلہ 2019 کے بعد ختم ہو جائے گا، لیکن، ایسا نہیں ہوا‘‘۔مرکز نے 5 اگست 2019 کو آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا جس نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا، سابقہ ریاست کو بھی تقسیم کیا گیا تھا اور اسے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کیا گیا ۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں سیکورٹی کے ذمہ داروں کو جوابدہ بنایا جانا چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ “آپ کو ہماری سیکورٹی کے ذمہ داروں سے پوچھنا پڑے گا کہ یہ (تشدد)کیوں ختم نہیں ہوا؟ یہ ذمہ داری ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے،” ۔سیکورٹی خدشات کو اجاگر کرتے ہوئے عبداللہ نے کہا کہ کہیں نہ کہیں تشدد کا کوئی واقعہ ہو رہا ہے۔انہوں نے دہلی میں لال قلعہ کے قریب حالیہ کار دھماکے اور یہاں نوگام پولیس سٹیشن میں جمعہ کے اتفاقی دھماکے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، اگر دہلی میں بم نہیں پھٹ رہا ہے، تو یہ یہاں پھٹ جاتا ہے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایسے واقعات میں بے گناہ لوگ جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ منگل کو تعزیت کے لیے پانچ مقامات پر گئے تھے، اور بدھ کو دو مزید دورے کرنے والے تھے۔عبداللہ نے ایچ ایم ٹی زینہ کوٹ میں اعزاز افضل میر، بمنہ میں محمد امین میر، اور قمر واری میں شوکت احمد بھٹ، فرانزک سائنس لیبارٹری ٹیم کے تمام ارکان، نٹی پورہ میں سہیل احمد راتھر(ریونیو ڈیپارٹمنٹ چوکیدار) اور وانہ بل(درزی) میں محمد شفیع پرے کے اہل خانہ سے ملاقات کی، جو جمعہ کو دھماکے میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔