2019ء کے پارلیمانی انتخابات قریب آتے جارہے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس بار ہندوستانی مسلمانوں کی کیا تیاری ہے؟ صاف گوئی اور دیانت داری کا تقاضہ ہے کہ سچ بات کہہ دی جائے کہ حال یہ ہے کہ تیاری تو دور کی بات ہے شاید اس تعلق سے ابھی کچھ سوچا بھی نہیں گیا ہے۔ اس صورت حال کی ذمہ داری ہماری قیادت پر جزوی طور پر ضرورہے ،مذہبی قائدین اور سیکولر جماعتوں سے وابستہ قائدین پر ہنوز نام نہاد سیکولرازم کا بھوت طاری ہے۔ بیشتر سینئر صحافیوں کا بھی یہی حال ہے کہ وہ اب تک متحدہ قومیت کے سحر میں گرفتار ہیں، وہ مسلمانوں کے لئے الگ سے کچھ سوچنے ہی کے قائل نہیں ہیں۔ علاحدہ مسلم سیاسی جماعت تو ان کے یعنی بیشتر مسلم قائدین (سیاسی و مذہبی) اور صحافیوں کیلئے علاحدہ مسلم سیاسی جماعت تو شاید گالی سے کم نہیں ہے۔ دوسری طرف ذرائع ابلاغ (میڈیا) خاص طور پر بیشتر ٹی وی چینلز آر ایس ایس کے مسلم دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ان ٹی وی چینلز میں اردو کے خاص طور پر ای ٹی وی اردو اور زی ٹی وی کا کسی حدتک اردو چینل زی سلام کا اصل مقصد مسلمانوں کو بھاجپا کی طرف راغب کرنا اور مخالف مسلم جماعتوں کے قائدین کا پروپیگنڈہ کرنا ہے اور یہ پروپیگنڈہ نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں بلکہ مسلم ممالک کے خلاف بھی ہوتا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کو جس بیدار مغزی کی ضرورت ہے وہ مسلمانوں میں مفقود ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں میں نفاق اور انتشار بڑھ رہا ہے۔ آج ملک کی فرقہ وارانہ صورت حال بگاڑنے میں ٹی وی چینلز کا خاصا اہم رول ہے۔ جس زمانے میں ٹی وی چینل تھے ہی نہیں یا تھے بھی تو اتنے عام نہیں تھے اور میڈیا کا مطلب صرف اخبارات تھے تو عوام میں مخالف مسلم پروپیگنڈہ اتنا متاثر کن، موثر اور زیادہ خواندگی کی وجہ سے نہیں ہوسکتا تھا۔ دیہاتوں اور قصبات اخبارات یاتو تھے ہی نہیں یا تھے بھی تو بہت کم اب تو دیہاتوں میں بھی زیادہ تر گھروں میں ٹی وی ہیں اور ٹی وی کے ذریعہ ہی نفرت پھیلانے اور مذہبی مسلکی اختلافات کو بڑھانے کا کام زوروں سے کیا جارہا ہے۔ ایک ایسا مکتب فکر بھی ہے جس کا یہ خیال ہے کہ اگر ٹی وی چینلز کو سنگھ پریوار نے اپنایا اپنا ہم خیال نہیں بنایا ہوتا تو 2014ء میں بی جے پی کی کامیابی ممکن نہ ہوتی!
اگر موجودہ حالات کو مسلم نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مسلمان کسی بھی مذاہب کو ماننے والوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کو ملک میں بہ لحاظ آبادی دوسری بڑی اکثریت کہنا ہی مناسب ہے۔ اس کے باوجود ان کے حالات دیگر چھوٹی اقلیتوں کے مقابلے میں زیادہ خراب ہیں۔ اس کی وجہ سے تعلیم میں کمی یا قیادت کی غیر موجودگی کہہ کر بات ختم نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد کسی حکومت نے بھی مسلمانوں کی ترقی اور بہتری کیلئے کوئی خاص کام تو کیا نہیں۔ ہاں کانگریسی اور غیر کانگریسی حکومتوں نے مختلف ادوار میں مسلمانوں کے لئے نت نئی مشکلات کھڑی کرتی رہی ہیں اور مسلمانوں کے قائدین جن میں زیادہ تر کانگریسی رہے ہیں یا تو مسلمانوں کو صبر و تحمل کا درس دیتے رہے یا اُبھرتے ہوئے مسلم قائدین کو آگے بڑھنے سے روکتے رہے۔ ان پر جھوٹے الزامات لگاتے ہیں۔ ان کی کردارکشی کرتے رہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے نہ جانے کتنے اُبھرتے ہوئے نوجوان مسلم قائدین کو اُبھرنے نہیں دیا گیا۔ تاہم مختلف ریاستوں میں مختلف ادوار مسلم نوجوان ابھرتے رہے ہیںمثلاً یو پی کے ڈاکٹر جلیل فریدی، بہار میں تسلیم الدین، آندھراپردیش سے سلطان صلاح الدین اویسی اور بمبئی میں جی ایم بنات والا وغیرہ۔ مندرجہ بالا قائدین اور ان کے جیسے یا ان کے نقش قدم پر چلنے والے کئی اور نوجوانوں کو روکنے والے، ان کے حوصلے پست کرنے والے اور دیگر طریقوں سے ان کو ناکام بنانے والے کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی تھے۔ ان ’’اپنوں‘‘ کو یہ خوف تھا کہ اگر یہ نوجوان قیادت آگے بڑھی تو ان کی قیادت کی دکانیں بند ہوجائیں گی کیونکہ نئی مسلم قیادت مسلمانوں کی آواز بن کر ابھری تھی اور روایتی قوم پرست کانگریسیوں یا دیگر جماعتوں کے مسلم قائدین کے آگے صرف اپنا مفاد ہوتا تھا۔ یہ ایک ناقبل تردید حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے قائدین میں سے بیشتر مسلمانوں کے قائدین کہلانے کے مستحق ہی نہیں رہے ہیں۔ وہ صرف اپنے ہی قائد ہوتے ہیں۔ ایسے ہی مفاد پرست قائدین ابھرتے ہوئے مخلص اور بے لوث قائدین کی نہ صرف مسلم حلقوں میں مخالف کرتے ہیں بلکہ حکومت کو بھی کارروائی کیلئے نہ صرف ورغلاتے رہے ہیں بلکہ اپنے حریف مسلم قائدین کے خلاف حکومت کو بے بنیاد اور بے جواز رپورٹس فراہم کرتے ہیں۔ اس قسم کے دوہرے کردار والے قائدین کی وجہ سے ہی مسلم قیادت اُبھر نہ سکی اور ہندوستانی مسلمان مفاد پرستوں کے ہاتھ میں رہی اور مسلمان گوناں گوں مسائل کا مسلسل شکار رہے ہیں۔ آج بھی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ قومی سطح پر اپنی شناخت بنانے والے ملک بھر میں مرتبہ و مقام رکھنے والے اسد الدین اویسی کے ساتھ آج وہی کچھ ہورہا ہے جس کا ہم اوپر کی سطور میں ذکر کرچکے ہیں۔
آج مسلمانوں کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ تمام جمہوری ایوانوں میں مسلم نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی جارہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ایوان میں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے مسلم نمائندگی کی دستور میں گنجائش نہیں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی اور ملک کی مرکزی حکومت اور بیشتر ریاستوں میں جو پارٹی حکمران ہے وہ پارٹی یعنی بی جے پی سیاسی منظر نامہ سے مسلمانوں کو ہٹانا چاہتی ہے، وہ خود مسلمانوں کو نہ ٹکٹ دیتی ہے اور کابینہ میں کم شریک کرتی ہے۔ اگر کوئی مسلمان وزیر بنایا بھی گیا تو برائے نام۔ یوپی جیسی ریاست میں صرف ایک مسلمان وزیر ہے وہ بھی وزیر مملکت! بی جے پی سے تو خیر مسلمانوں کے لئے کوئی اچھی توقع ہی رکھنا عبث ہے لیکن کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتوں کو بھی مسلمانوں کو ان کا حق دینے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ کانگریس نے محض اپنے ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کیلئے گجرات میں مسلمانوں کو بری طرح نظر انداز کیا ہے ۔ مسلم ووٹ ہمیشہ سیکولر جماعتوں میں تقسیم ہوتا رہتا ہے۔ یوپی میں اگر مسلم ووٹ سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹیوں میں منقسم نہ ہوں تو بی جے پی کے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی ہے۔ اسی طرح بہار میں مسلمانوں کے ووٹ لالو پر ساد یادو اور نتیش کمار میں تقسیم ہوتے رہے ہیں اور جب لالو اور نتیش کا گٹھ بندھن بنا تو وہاں بی جے پی بے وقعت ہوگئی۔ سیکولر جماعتوں کے ساتھ مسلمان اگر چلے بھی جائیں تو خود سیکولر جماعتوں اور قائدین کا کیا حال ہے؟ رام ولاس پاسوان، جارج فرنانڈیز، چندرابابو نائیڈو، جیا للیتا، نتیش کماروغیرہ وغیرہ بھی سیکولر ہونے کے دعوے زور شور سے کرتے تھے لیکن اقتدر کی خاطر اچانک سیکولر ازم بھول کر کٹر ہندتوادی بھاجپا کے ساتھ ہوگئے۔ نتیش کمار نے تو دوبارہ خیمہ بدلا ہے۔ یہی حال رام ولاس پاسوان کا ہے اگر مسلمان کسی سیکولر کو ووٹ دیں بھی دیں تو کیا عجب ہے کہ خود سیکولر کو کہہ کر مسلم ووٹ لے کر منتخب ہونے والا کل اچانک بھاجپا کا حلیف بن جائے۔ ایسا تماشہ ہم نے بارہا دیکھا ہے۔ کانگریس بھی تو سیکولر رہی ہے بلکہ آج بھی ہے لیکن سیکولر راہل گاندھی نے گجرات میں سیکولرازم کو بھلادیا۔ ہندوووٹ کی خاطر مسلمانوں ے دور دور رہے تو پھر ان کا سیکولرزم کہاں گیا؟ آزادی کے بعد مدراس، ٹراونکور کو چین، بمبئی، بنگال کہلانے والی ریاستوں میں مسلم لیگ تھی مسلم لیگ کے نمائندے ریاستی اسمبلیوں میں بھی تھے لیکن نام نہاد مسلم قوم پرستوں کی مدد سے ہر ریاست میں ماسوائے ٹراونکور کو چین (جو اب کیرالا کا حصہ ہے )کسی اور اسمبلی میں شاید ہی کوئی مسلم لیگی ہو۔ متحدہ آندھراپردیش اور اب تلنگانہ میں مجلس اتحاد المسلمین خاصی اہم طاقت بن گئی ہے۔ اس طرح ملک بھر میں مسلم ووٹرس منقسم ہیں۔ کبھی اس کا ساتھ دیتے ہیں تو کبھی سیکولر جماعتوں کا ان کی مجموعی حالت ہر جگہ بد سے بدتر ہے۔ کانگریسی ہوں یا سیکولر یا ہندتو وادیوں سب ہی کو مسلمانوں نے آزمالیا ہے۔ مسلمان متحد بھی رہے منقسم بھی رہے۔ سب ہی راستوں سے گذرے لیکن سب ہی نے مسلمانوں کو اس حالت زار تک پہنچادیا جو سچر کمیٹی اور رگھوناتھ کمیشن کی رپورٹوں میں بیان کی گئی ہے یعنی دلتوں سے بدتر!
ہمارا سوال یہ ہے کہ اب تک ہم نے مانگنے والوں کو ووٹ دیاخوشی سے دیا یا مجبوری سے دیا انتہائی محدود پیمانے پر اپنا ووٹ اپنے لوگوں کو دیا لیکن 2019ء کے پارلیمانی انتخابات کی تیاری کرنا ہے بلکہ کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہے۔ ہم کو اپنی ووٹ کی طاقت سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم واقعی دوسری بڑی اکثریت ہیں نہ کہ اکثریت کے رحم پر رہنے والی اقلیت ! اس کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان متحدہوں۔ اتنے بڑے ملک کی اتنی بڑی آبادی مکمل طور پر ہرگز متحد نہ ہوسکتی ہے۔ اسی لئے ہم کو ممکنہ حدتک متحد ہوجانا چاہئے۔ ہمارا ایک ایسا گروپ ہونا چاہئے جو سیاسی اور غیر سیاسی اکابرین پر مشتمل ہو جو ایسی ریاستوں میں جہاں کوئی مسلم جماعت قائم نہیں کی جاسکتی وہاں کسی سیکولر جماعت سے معاملات سنجیدگی سے طے کرنا چاہئے ۔یہ نہ ہو کہ اپنے سارے ووٹ بلاکسی شرط، مطالبے اور تحفظات حاصل کئے ایک ہی پارٹی کی جھولی میں ڈال دئے جائیں۔ مسلمانوں کے ووٹ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں تقسیم ہوتے ہیں جیسی کہ یوپی اور بہار میں بہ کثرت ہیں۔ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے قائدین کو متحد ہوکر کسی ایک جماعت میں شریک ہوجانا چاہئے۔ محلہ واری، شہروں اور کسی ایک ریاست یا اس کے چند اضلاع تک محدود رہنے والی مسلم جماعتوں کی جگہ ایک اور صرف ایک ملک گیر یا قومی مسلم جماعت ضروری ہے جو کہ فی الحال صرف ایم آئی ایم ہی ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ تو کیرالہ تک محدود ہے۔ مسلم دشمن عناصر ہم سے زیادہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں اس وقت ایک لیڈر ایسا ہے جو کہ سنگھ پریوار کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرسکتا ہے اور وہ ہے اسد الدین اویسی اسی لئے ان کی اتنی مخالفت کی جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے 2019ء کے پارلیمانی انتخابات سے قبل مسلمانوں کی قیادت اسد الدین اویسی ہی کریں کوئی اور قائد آگے بڑھ کر اسد الدین اویسی کی جگہ لے سکتا ہے تو آگے آئے۔ 2019ء سے قبل مسلمان متحد اور منظم ہوکر ملکی سیاست میں کلیدی رول ادا کرسکتے ہیں۔
Cell: 0091 9949466582
Email: [email protected]