نیوز ڈیسک
دہلی///عدالت عظمیٰ نے بینچ کے ایک جج کی رائے کے برعکس مرکزی سرکارکی جانب سے نوٹ بندی کے فیصلے کو درست قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل قانونی دائرے میں رہ کر کیاگیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کی 5ججوں کی بینچ میں سے ایک نے اس عمل کے خلاف رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کام باضابطہ قانونی طور پر انجام نہیں دیا گیا بلکہ صرف ایک نوٹفکیشن کے اجرا کے بعد یہ عمل شروع ہوا۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے 2016 کے نوٹ بندی کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے نوٹ بندی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اب اس فیصلہ کو واپس نہیں لیا جاسکتا اور نہ ہی اس کے مقاصد کی حصولیابی پر بحث کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ علیحدہ موضوع ہے۔سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ نوٹ بندی کے فیصلے کو صرف اس لئے غلط نہیں قرار دیا جاسکتا کہ یہ مرکز کی جانب سے لیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ مرکز کو ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے مشورے سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس نے آر بی آئی سے مشاورت کے بعد ہی یہ قدم اٹھایا تھا۔ مرکز اور آر بی آئی میں چھ ماہ تک اس سلسلہ میں گفت و شنید ہوتی رہی تھی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ یہ بات اس معاملہ سے تعلق نہیں رکھتی کہ نوٹ بندی کا مقصد حاصل ہوا یا نہیں۔ پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے حکم کو پڑھتے ہوئے جسٹس بی آر گوائی نے کہا کہ معاشی پالیسی کے معاملات میں بہت تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔مرکز نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ نوٹ بندی سے جعلی نوٹوں میں کمی، ڈیجیٹل لین دین میں اضافہ، بے حساب آمدنی کا پتہ لگانے جیسے کئی فائدے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے نوٹ بندی کو جواز بناتے ہوئے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں حکومت کی پالیسی اور نیت درست ہے۔ اس کے ساتھ مرکزی حکومت نے اس کے لیے آر بی آئی سے بھی مشورہ کیا تھا۔ اس لیے نوٹ بندی پر سوال اٹھانے والی تمام عرضیوں کو خارج کر دیا جاتا ہے۔ تاہم، عدالت نے واضح کیا تھا کہ وہ نوٹ بندی کے فوائد اور نقصانات کی بنیاد پر اپنا فیصلہ نہیں دے رہی ہے۔نوٹ بندی کے وقت، حکومت کو توقع تھی کہ نوٹ بندی سے کم از کم 3 سے 4 لاکھ کروڑ روپے کا کالا دھن باہر آئے گا۔ تاہم، پوری مشق میں صرف 1.3 لاکھ کروڑ روپے کا کالا دھن ہی سامنے آیا۔خیال رہے کہ مرکزی حکومت کے 2016 کے نوٹ بندی کے فیصلہ کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیاگیاتھا۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ برس 7 دسمبر2022 کو مرکز اور ریزروبینک آف انڈیا(آربی آئی) کو ہدایت دی تھی کہ وہ حکومت کے 2016کے فیصلہ کا متعلقہ ریکارڈ پیش کریںاور سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھاتھا۔