دفعہ 35-Aان دنوں نہ صرف زبان زد عام ہے بلکہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے اکثر وبیش تر شاہ سرخیوں میں رہا ہے ۔ ماضی قریب تک عام خیال کے مطابق دفعہ 370کو ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کا ضامن مانا جاتا تھا اور دفعہ35 اے کے بارے میں جان کاری نہ ہونے کے برابر تھی جب کہ آئینی اعتبار سے جہاں دفعہ 370یونین آف انڈیا اورریاست جموں و کشمیر کے مابین خصوصی آئینی رشتہ قائم رکھنے کا وسیلہ ہے ،وہاں دفعہ 35 A ریاستی عوام کے خصوصی حقوق کو دستوری تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس اہم دفعہ کی رو سے ریاست جموں و کشمیر میں رہائش و غیر منقولہ جائداد کا حصول بلا شرکت غیرے صرف اور صرف ریاست کے مستقل وپشتینی باشندگان کے نا م مخصوص ہے۔اضافہ بریں حصول معاش اور ریاست سے وظائف کا حصول بھی صرف ریاست کے مستقل اور پشتینی باشندگان کے نا م مخصوص ہے۔دفعہ 35 A کا شاہ سرخیوں کا موضوع بننا اُس یلغار سے تعلق رکھتا ہے جو کہ بھارت میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں نے گئے چند سال پہلے سے جان بوجھ کر شروع کر رکھی ہے۔ اس یلغار کا مدعا و مقصد یہ ہے کہ دفعہ 35 A کے ضمن میں بھارت کی عدالت عظمیٰ(سپریم کورٹ) سے حسب منشائے سنگھ پریوار عدالتی حکم نامے کا اجرا ء کر وایا جائے جس کے نتیجے میں یہ دفعہ کالعدم قرار دپائے ۔ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کے دعوے کی بنیاد یہ ہے کہ دفعہ 35 A بھارتی باشندوں کے بنیادی حقوق کی نفی پر مبنی ہے ۔چونکہ اس دفعہ کی رُو سے بھارتی باشندگان کو نہ تو ریاست جموں و کشمیر میں مستقل رہائش کا ،نہ غیر منقولہ جائداد کی قانونی ملکیت کا اور نہ ریاست میں سرکاری ملازمت کے حصول کا حق حاصل ہے۔ زعفرانی پارٹی خاص کراس نظام کو اپنی حق تلفی مانتی ہے۔
دفعہ 35 Aجہاں مختلف حلقوں میں مو ضوع بحث بنا ہوا ہے اور ریاستی عوام جائز طور پہ اس دفعہ کے دفاع میں کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہیں ۔ البتہ یہ بھی ایک امر واقع ہے کہ اس صدارتی آرڈر کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں جو دفعہ 35 A کااحاطہ کرتا ہے۔ آج کے کالم میں ہماری توجہ اِسی صدارتی آرڈر پہ مرکوز رہے گی جو کہ 1954ء میں ماہ مئی کی 14تاریخ کو S.R.O. 1610 کے تحت بھارتی کے وزارت قانون نے شائع کیا۔ اِ س صدارتی آرڑر کے 22حصے ہیں جن کی رو سے بھارتی آئین کی مختلف دفعات و مختلف شقوں کو ترمیمات کے ساتھ نافذ کیا گیا ہے۔ اِس صدارتی آرڑر کے عمیق مطالعے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آرڑر در اصل بھارتی آئین کو ریاستی آئین پہ حاوی کرنے کی ایک ایسی روش رہی جس سے ریاستی آئین کا تقدس بہت حد تک پامال ہوا ہے جبکہ 1947ء کے الحاق میں یونین آف انڈیا کو کچھ ہی امور پہ دسترس حاصل تھی جن میں امور خارجہ،دفاع و رسل ورسائل شامل رہے۔ 1952ء کے دہلی ایگریمنٹ میں ریاست جموں و کشمیر میں یونین آف انڈیا کے دائرہ کار کو بڑھانے کی کوشش کی گئی جبکہ اقتصادی امور پہ بھارت سرکار کو نظر گذر رکھنے کی چھوٹ دی گئی اور جہاں تک عدالتی امور کا تعلق رہا وہاں بھارت کی عدالت عالیہ سپریم کورٹ کی بالا دستی کو تسلیم کیا گیا۔1954ء کا صدارتی آرڑر بھارتی آئین کو ریاست جموں و کشمیر پہ مسلط کرنے کے سلسلے کی ایک اور کڑی تھی ۔یہ صدارتی آرڑر کیوں اور کیسے نافذ کیا گیا اِ س کی کڑی بھی ریاستی حکام کی کوتاہ بینی اور مصلحت اندیشی سے ملتی ہے جنہوں نے بھارتی مفادات کو ریاستی حقوق کی نگہبانی پہ ترجیح دی۔
صدارتی آرڑر کو آئینی پیرائے میں جانچنے کے علاوہ سیاسی پیرائے میں بھی جانچنا ہو گا۔ دہلی ایگریمنٹ کے دوراں بھارت سرکار کو پنڈت نہرو کی رہبری میں اِس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ ریاست کا یونین آف انڈیا کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کے کئے ہوئے الحاق کی حمایت کرنے کے باوجود شیخ محمد عبداللہ ریاست کی خصوصی حثیت کا دفاع اُس حد تک کرنے کیلئے آمادہ نظر آ رہے ہیں جہاں یہ بھارت کے مفادات کے ساتھ ٹکر اؤ کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔شیخ محمد عبداللہ کی بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ ریاستی عوام میں اپنی اُس سیاسی ساکھ سے محروم ہوتے جا رہے تھے جس نے اُنہیں ریاست کی قد آور ترین سیاسی شخصیت بنایا تھاچناچہ ریاست کی خصوصی آئینی حثیت کا دفاع کرنے میں ہی اُنہیں اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی صورت نظر آ رہی تھی۔جموں میں پرجا پریشد کی ایجی ٹیشن نے بھی سیاسی فضا کو مکدر کیا ہوا تھا۔ پچاس کی دہائی میں پرجا پریشد ایک ودھان ،ایک پردھان ، ایک نشان (واحد آئین،واحدسر براہ،واحد جھنڈا) کا نعرہ لے کر سامنے آئی تھی اور اسے بھارت میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کی حمایت واعانت حاصل تھی۔پنڈت نہرو کشمیر کے ضمن میں بین الاقوامی قول و قرار کا پاس رکھنے کی بات کر رہے تھے، تاہم اُنہیں یہ بھی خدشہ تھا کہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کا پروپگنڈا اُن کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔لہٰذا وہ اپنے دیرینہ دوست شیخ عبداللہ کو سیاسی منظرنامے سے ہٹانے کیلئے پَر تول رہے تھے۔ایسا کرنے سے پہلے یہ ضروری تھا کہ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی صف ِاول کی لیڈرشپ میں دراڑ ڈالی جائے اور اس کی انجام پذیری کے لئے خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی تھی۔اُنہیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی کیونکہ بکنے والے بکنے کیلئے تیار تھے۔
شیخ عبداللہ نے 1951ء میں آئین ساز اسمبلی کی تشکیل کااقدام کیا جہاں آئین سازی کا عمل چل رہا تھا باوجود اینکہ 1951ء میں ہی سیکورٹی کونسل کی ایک قرار داد میں یہ منظر عام پہ آیا کہ آئین سازی کا یہ اقدام مسلٔہ کشمیر کے ضمن میں منظور شدہ قرار دادوں پہ اثر انداز نہیں ہو گا۔یہ عمل چل ہی رہا تھا کہ 1952ء میں دہلی ایگریمنٹ منظر عام پہ آیا حالانکہ یہ آئین سازی کے اہداف کے خلاف تھا چونکہ کسی بھی قسم کی آئین تبدیلی کا منبع آئین ساز اسمبلی ہی ہونا چاہیے تھا، بجائے یہ کہ جموں و کشمیر کی لیڈرشپ اور بھارتی حکام کے درمیان سودے بازی پہ مبنی رہے۔بہر صورت بھارتی حکام دہلی ایگریمنٹ کے بعد آئین ہند کی اور دفعات کو ریاست میں لاگو کرنا چاہتے تھے تاکہ بھارت کی گرفت محکم تر ہو جائے۔ شیخ عبداللہ کی مزحمت اُن کی اقتدار سے محرومی اور قید کا سبب بن گئی۔9اگست 1953ء کو شیخ عبداللہ قید کر لئے گئے اور اِسی کے ساتھ ساتھ صدارتی آرڈر 1954ء کی تیاریاں شروع ہوئیں ۔1954 ء میں آئین سازاسمبلی کی ڈرافٹ کمیٹی نے جس میں گردھاری لال ڈوگرہ، ڈی پی در، سید میر قاسم ،غلام رسول رینزو اور سردار ہربنس سنگھ آزاد شامل تھے،11؍فروری کے روز اسمبلی کے سامنے اپنی سفارشات رکھیں جو 15؍فروری کو منظور کی گئیں اور ریاستی سرکار نے یہ سفارشات صدر جمہوریہ ہند کے سامنے رکھیں ۔ 14مئی 1954ء کو کئی دوسری آئینی ترمیمات کے ساتھ دفعہ 35Aبھی صدارتی حکم نامے میں شامل ہو کے آئین ہند کا حصہ بن گئیں۔ آئین ہند کی دفعہ 370 شق (1)(d)کے تحت صدر جمہوریہ ہند کو یہ حق حاصل ہے کی ریاست جموں و کشمیر کی حکومت کی سفارش پر آئینی ترمیمات کے ضمن میں صدارتی آرڑر صادر کر سکتے ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کی ایک فرنٹ لائن تنظیم ’ہم شہری:We the Citizens‘ نے سپریم کورٹ میں اپنے دعوے کی بنیاد اِس پہ رکھی ہے کہ صدارتی حکم پارلیمانی منظوری کے بغیر صادر کر لیا گیا ہے۔
صدارتی آرڑ1954ء من و عن ریاستی سرکار کی سفارشات پہ مبنی ہے اور اِس آرڑر کے تجزیے میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پارلیمان ہند کے رول کی نفی بار بار کی گئی ہے چونکہ 370 (1)(d)کی رو سے ریاست جموں و کشمیر میں آئینی ترمیمات کی اساس جموں و کشمیر ریاست کی حکومت کی سفارشات اور صدر جمہوریہ ہند کا حکمنامہ ہے۔ وسیع تر نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ریاست جموں و کشمیر میں پارلیمان ہند کا رول الحاق کی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ہی امور تک محدود رکھا گیا تھا جن میں امور خارجہ،دفاع اور رسل و رسائل کے امور شامل تھے جبکہ آئینی اطلاق کے دوسرے مراحل کی اساس 370 (1)(d) پہ رکھی گئی تھی جیسا کہ صدارتی آرڑ1954ء میں انجام پذیر ہوا۔1954ء میں جب یہ صدارتی آرڑر کا اجرا ہوا تو کہا جاتا ہے کہ بھارت کے انتہا پسند حلقوں میں اُس کی خوب پذیرائی ہوئی چونکہ ریاست جموں و کشمیر پہ آئین ہند کی کئی دفعات و شقوں کا اطلاق اِس سے رو بعمل لایا گیا چناچہ اِس اقدام سے پنڈت نہرو نے انتہا پسندوں کی سیاسی تمناؤں کو ایڈرس کیا تاکہ داخلی فرنٹ پہ اُنہیں سیاسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ شیخ محمد عبداللہ کی بر طرفی و قید اور صدارتی آرڑ1954ء کو ایک پہ پیمانے میں رکھنے سے حالات و واقعات کے سیاسی رنگ کو پرکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
دفعہ 35 Aصدارتی آرڑر1954ء کے تیسرے حصے {Part III (j)}میں شامل ہے۔ اِس سے پہلے آئین ہند کی دفعہ 35 کا ذکر ہے جو تیسرے حصے {Part III (i)}میں شامل ہے۔ دفعہ 35کئی دفعات کا مرکب ہے ۔اِس میںدو دفعات کا خصوصی ذکر ہے دفعہ 16شق سوم اور دفعہ 32شق سوم جو کہ بھارتی شہریوں کے حقوق سے متعلق ہیں۔ دفعہ 16کا تعلق بھارتی شہریوں کے حصول معاش سے ہے جبکہ دفعہ 32کا تعلق عدالتی امور سے ہے۔دفعہ 16کی شق سوم میں پارلیمانی اختیا رات کا ذکر ہے از اینکہ بھارتی شہریوں کے حصول معاش کے بارے میں پارلیمان ہند کو قانون سازی کا اختیار ہے جبکہ صوبائی قانون سازیہ اِن اختیا رات سے محروم ہے۔دفعہ 32 کی شق سوم میں یہ آیا ہے کہ پارلیمان ہند سپریم کورٹ کے عدالتی اختیارات سے تجاوزکئے بغیر کسی اور عدالت کو اپنے دائرہ اختیار میں سپریم کورٹ کے اختیارات تعویض کر سکتی ہے البتہ ریاست جموں و کشمیر کے ضمن میں دفعہ 35کی شق (a) (i)میں یہ ذکر آیا ہے کہ دفعات 16و 32 کی شق سوم کو حذف کیا گیا ہے بہ معنی دیگر پارلیمان ہند کے اختیارات کو جو کہ ہند کے دیگر صوبوں میں قابل اجرا ء ہیں جموں و کشمیر میں قابل اجراء نہیں ہوں گے۔ ان دو دفعات 16و 32 کی شق سوم کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صدارتی آرڈر 1954ء میں جہاں بھی مختلف دفعات سے متعلق پارلیمانی اختیارات کاذکر ہوا ہے، وہاں یہ اختیارات جموں و کشمیر کے ضمن میں محدود کر دئے گئے ہیں جب کہ عدالتی چلینج میں جو دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں نے کیا ہے یہ ذکر بار بار آتا ہے کہ صدارتی آرڈر 1954 ء میں پارلیمان ہند کے اختیارات کو نا دیدہ لیا گیا ہے۔
آئین ہند میں آئینی ترمیمات کے ضمن میں دفعہ 368کا ذکر آتا ہے۔ اِس دفعہ کے بموجب آئینی ترمیمات کیلئے پارلیمان ہند کی منظوری الزامی ہے۔ صدارتی آرڑر 1954 ء میں اِس دفعہ کا ذکر بیسویں حصے (Part XX) میں اِس اضافے کے ساتھ ہوا ہے: ’’کسی بھی آئینی ترمیم کا اجرا ریاست جموں و کشمیر میں نہیں ہوگا مگر اینکہ اِس کا اطلاق دفعہ 370کی شق (1) کے مطابق صدارتی حکم سے ہو‘‘ چناچہ یہ دفعہ 368 کی سریحاََ نفی ہے جس کے بموجب بھارت میں آئینی ترمیمات کا اجرا ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے سامنے جو عدالتی پیٹشن پیش ہوئی ہے اُس میں دفعہ 368 کا خصوصی ذکر ہے ازین کہ صدارتی آرڈر1954 ء میں اِسے نادیدہ لیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں عدالتی چلینج پیش کرنے والی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی فرنٹ لائن تنظیمیں یہ حقیقت سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر اور یونین آف انڈیا کے مابین آئینی رشتہ دفعہ 370سے منصوب ہے اور اِسی دفعہ کی شق (1)کے تحت ریاستی سرکار کی سفارش سے صدارتی حکم کا اجرا ہو تا ہے جبکہ ریاستی سرکار ایسی سفارش قانون سازیہ کی رضایت سے ہی پیش کر سکتی ہے۔
دفعہ 35 A کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کے خصوصی حقوق جن کی ضمانت مذکورہ دفعہ میں دی گئی ہے صدارتی آرڑر 1954ء سے بہت پہلے موجود تھے جبکہ آزاد ہندوستان معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہ حقوق 20صدی کی ابتدائی دَہائیوں میں ہی ریاست کے مستقل باشندوں کو حاصل تھے جب 1927ء و 1932ء میں مستقل باشندوں کی درجہ بندی کی گئی اور اُنہیں بلا شرکت غیرے ریاست میں مستقل رہائش و غیر منقلہ جائیداد کے حصول کا حق حاصل رہا۔کہا جا سکتا ہے کہ دفعہ 35 A کی رو سے آئین ہند میں ریاستی باشندوں کے خصوصی حقوق کی تصدیق کی گئی۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صرف و صرف ریاست جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کو ہی ایسے حقوق حاصل نہیں جن سے اُن کی انفرادیت بحال رہتی ہے بلکہ دفعہ 371کے تحت بھارت کی کئی شمال مشرقی ریاستوں کی انفرادیت بر قرار رکھنے کیلئے اُنہیں ایسی ہی خصوصی آئینی مراعات دی گئی ہیں جو ریاست جموں و کشمیر کے مستقل باشندوں کو حاصل ہیںلیکن اُنکے بارے میں بھارت کی انتہا پسند جماعتیں واویلا نہیں مچا رہی ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انتہا پسندوں کا اصلی حدف ریاست جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بدلنا ہے جو کہ ایک ایسی مذموم کو شش ہے کہ جتنی بھی اُس کی مذمت کی جائے کم ہے۔
Feedback on: <[email protected]