ہم نہیں تو تُسی کِتھے ؟دلی دربار ہمارا ، راج بھون ہمارا، ستیہ گرہ ہمارا ، راج پاٹھ ہمارا۔وہ بے چارے ماتھا پیٹتے ، سینہ کوبی کر تے چیختے چلاتے کر کہہ رہے تھے کہ ہمارے پاس قلم ہے دوات ، ہل ہے ،ہاتھ ہے، بھلا تمہارے پاس ہے کیا ؟کنول کا پھول فضا میں لہراتے ، کنول ککڑی کو بندوق کی طرح پکڑکے انہوں نے چھپن انچ چھاتی پھلا کر جواب دیا ہمارے پاس راج بھون کا فیکس ہے، فون ہے ، آشیر باد ہے،یہ سب ہوا تو تاج و تخت کسی کے ہاتھ نہیں آنے دیں گے۔ تم بے یارومددگار،ہماری جے جے کار، تم خلفشار، ہم اتحادی للکار، تم شمار نہ قطار ، ہم سنگھ پریوار، تم سے کرسی بیزار، ہم سنگھاسن کے طلب گار ؎
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
سب فیصلے ہوتے ہیں خود از دست ِسنگھ پریوار
رنگ میں بھنگ ڈلاتو رام نے شام کو جلی کٹی سنائی : کیوں بے !مملکت ِخداداد کے پشتینی یار! فرمان شاہی آیا از پار ،خود کو جتاتے ہو حکومت کا حق دار، او قومِ سنگھ کے غدار ، سن تیرا نہ ہوگابیڑہ پار، لو اسمبلی ہوگئی بے کار ۔ میں کہتا ہوں اس سنسار میں کیا کیا ممکن نہیں ، جب طاعون پھیلانے کے لئے چوہے پار سے در آمد ہوئے ، جب جاسوسی کے لئے وہاں سے کبوتر اُڑے اُڑے آئے، جب کشتیوں میں سوار ممبئی پہنچے بمبار،بم بارود کی بات ہی نہیں ، ان کے لئے کیا مشکل حکومت سازی کا سہ نکاتی فارمولہ نہ پہنچے۔بھاجپا والے کویندر گپتا ابھی اس زخم کو مندمل نہیں کرپائے ہیں کہ نائب تحصیلداری ملی تھی مگر مودی نے اس کا کوئی مزہ چکھنے ہی نہ دیا ،یعنی پار والی سازش کے تحت وہ کرسی نہ رہی، قلندری نہ رہی،وہ بندری بھی نہ رہی جو ادرک کا سواد کیا جانے۔پھر وہی ہوا کہ جو انگور کھٹے تھے، اُن تک پہنچنے کے لئے بانوئے کشمیر، ہل والی پلٹن اور اپنا ہاتھ جگن ناتھ والی لنگڑی فوج کمر بستہ ہوگئے کہ اب کی بار ہماری کھچڑی سرکار بننے دو ،رام بھلی کرے گا۔اتنا ہی نہیں ہندوارہ کا طوطا چشم بھی Achievable CM shipڈھونڈنے نکلا مگر ستیہ تو وہ ہے کہ اندر کا ستیہ راز کسی کو بتائے بغیر اپنے قانون کی لاٹھی مارکر اسمبلی کو ہوا میں اُڑا گیا۔ نہ رہی بانس نہ بجی بانسری ۔ اس بیچ ہم سوچتے رہے کہ اپنے اہل سیاست کس مٹی کے مادھو ہیں کہ کل تک جسے دور ہٹنے کی بولی بولتے تھے کیونکہ اس کے اندر سے گجرات مسلم اقلیت کے زندہ جلائے جانے والوں کی بو، گائے کے نام مارنے والوں کی خون کی بو آرہی تھی، انہی کے ساتھ تخت کو بٹوارہ کرنے نکل پڑے۔اللہ خیر کرے اس کا کہ سب کو بلا قیمت اپنے گھر میں تیارجُوس پلاتا تھا ۔ پچھلے کئی دن تک اسی ہوائی قلعے میں رہایش پذیر رہا جہاں سے مل گئی کرسی کا نعرہ لگنا ممکن تھااور اعلان بھی کرتا رہا کہ اپنا دم خم فقط ۳۵؍اے اور ۳۷۰ بچانے کے لئے محفوظ ہے۔واہ رے! بے چارہ ۳۵؍اے بھی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگیا مگرراج بھون نواسی جسے دن کاکھانا بھی نصیب نہ ہوا کہ عملہ گھر چھٹی منانے گیا تھا ۔اس ایک مذہبی چھٹی سے سب کی اُمید پر سردسردہواؤں نے گرم گرم پانی پھیر دیا کہ سب کچھ چوپٹ ہوا۔
یہ تو نئی تازہ بات ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے کی بات اور تھی۔ جب ہل والے قائد ثانی گرجے کہ جب تک ۳۵؍اے کے بارے میں دلی دربار واضح تحفظات کا اعلان نہیں کرتا ہم الیکشن کے دروازے پر حاضری نہیں دیں گے یا یوں کہئے کہ ہم پر الیکشن حرام حرام حرام ، یعنی الیکشن کی روٹی ناپاک ، کرسی شجر ممنوعہ، عیش اور کیش مسترد کیونکہ اپنے لئے دفعہ۳۷۰ اور ۳۵؍ اے حلال و متبرک ہیں ، یہی اَن داتا ہیں۔ یہ اہل کشمیر کو بے قوف بنانے کے حتمی ہتھیار ہیں بلکہ کرسی کی سندر پری کو ہتھیانے کی اُڑن طشتری بھی یہی ہیں۔قائد ثانی کے گرجتے ہی نیشنل کے ٹویٹر ٹائیگر اور اَلہ وانگن فرنٹ کے سارے چھوٹے بڑے سالار میدان عمل میں کودے ،ہاتھوں میں پشتنی سارنگی کا تُرم تُرم، ڈفلی اور تمبک ناری کی دَم دَم ، آشپازوں کا چونچہ لگی مرچی، سری کاٹنے والی چھری اور کاندھوں پرہل والا جھنڈا لہرا کر گپکار کی طرف کوچ کیا کہ گورنر ہاوس کی چوکی پر قبضہ کرنا تھا،تاکہ وہیں سے اعلان جاری کردیں بلکہ نعرہ مستانہ لگادیں کہ بھارت سرکار تا عمر یاد رکھے ؎
راج بھون ہمارا ہے
تخت ہمیں بہت پیارا ہے
باقی سب بہانہ ہے
دلی دربار اگلا نشانہ ہے
ہل والوں کی قسمت کچھ اچھی نہیں تھی کہ ابھی وہ ملک صاحب آف مائسمہ سے دو دو ہاتھ کرتے تھے اور اُسے آئے دن کال کوٹھری میں ڈال کر جیت کا اعلان کرتے تھے کہ لو جی ہم نے ملک کشمیر کو جیت کر دلی دربار کی جھولی میں ڈال دیا۔ نیا ستیہ پال ملک صاحب تو دلی دربار کی مہر سمیت وارد کشمیر ہوا تھا، اس لئے اس کے ساتھ دھکم پیل ممکن نہیں کہ یہ بھی اَلہ وانگن کے جواب میں پیلٹ بُلیٹ چلاتا ہے ۔ وہ جو کہتے ہیں گھوڑوں کے نال لگائے جاتے تھے تو گدھے بھی اپنی ٹانگیں آگے کر گئے ،ہل والوں کی دیکھا دیکھی قلم والوں کی دوات ،جو کرسی چھوٹتے ہی سوکھ گئی تھی، میں بھی تھوڑا تھوڑا آب ِبا بہ ڈیمبی بھر آیا اور بلدیہ الیکشن کے بدلے ۳۵ ؍اے کی ولدیت کا دعویٰ کردیا۔ سیلف رول کی سیلفی چھوٹ گئی اور ہو نہ ہو وہ سمجھے کہ ہل والوں نے بائیکاٹ کا اعلان کر ساری سیاسی ضیافت پر ہاتھ صاف کردیا کہ فوراً دسترخوان پر ٹوٹ پڑے اور ۳۷۰ ؍آگے بڑھو ہم تمہارے ساتھ ہیں کا نعرہ مرد مومنانہ لگایا ۔کشمیر کا نیتا کیسا ہوگا ۳۵؍اے جیسا ہوگا ،چیخ کر مودی شاہ پرائیویٹ لمیٹڈ کو للکارا کہ ہم سے تو کرسی بھی چھنی ،اب کیا ملک کشمیر میں دو گز زمین بھی چھین لوگے؟
اپنے ہل بردارا ور قلم دوات والوں کو کیا علم تھا کہ دلی دربار وہی نسخہ آزمائے گا جو خود اس نے سکھایا پڑھایا تھا۔بلدیہ کی چھوٹی کرسی جہاں ہاتھ سے گئی کہ دلی دربار نے ایسا پانسہ پلٹا ہل والے قائد ثانی اور اس کے چیلے چانٹوں کو بڑی کرسی بھی دور بھاگتی دکھائی دی،یعنی اب گئی تو کبھی ہاتھ نہ آئے محسوس ہوتے ہی اعلان کردیا کہ لڑ مریں گے، پر کرسی نہ چھوڑیں گے ۔بقول کسے ہم تو عاشق ہیں تیرے برسوں پرانے چاہے تُو مانے یا نہ مانے ؎
یہ سوال و جواب کیا کہنا
ملک عالی جناب کیا کہنا
کیا سکھایا ہے کیا پڑھایاہے
مرد ِمومن جناب کیا کہنا
کسے نہیں معلوم وہ بے چارہ کم زورو نحیف سا ۳۷۰ ؍الیکشن ٹائم میں ہی کروٹ لیتا تھا کہ اسے ہل والے اُلٹ پلٹ دیتے تھے، ٹانگوں بازوں پر تیل مالش کرتے ، کمپلان پلاتے، وٹامن کی گولیاں زبردستی منہ میں ٹھونستے کہ بھائی جان! حج کرو ہماری مٹی پلید ہونے جا رہی ہے، ہماری لولی لنگڑی پارٹی کو انتخابی بیساکھی مہیا کردو ،مگر اب تو ۳۵؍ الف کے سامنے گڑگڑانے لگے کہ ہم میں جو دَم خم تھا وہ لشکر برہان اُڑا کر لے گیا،کچھ بچا تو مودی شاہ پرائیویٹ لمیٹڈ ہتھیانے کے درپے ہے ۔رہی سہی اُمید اب تم سے ہی ہے ،تمہارے دروازے پردستک دینے آئے ہیں ،بس ہماری سیاسی اُمیدیں تم سے وابستہ ہیں کہ بچ گئے تو غازی مر گئے تو مٹی پلید۔
اپنا ملک ِکشمیر بھی عجب سر زمین ہے ۔تاریخی طور رنگین ہے، علمی طور بھلے ہی ذہین ہے مگر سیاسی طور بہت ہی بے دین ہے۔اسی لئے جو کل تک یار دوست ہوتے ہیں ،وہ اچانک دشمن ِجان و رقیب ِدوران نظر آتے ہیں۔کل تک جن کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھے ایک ہی تھالی میں کھاتے پیتے تھے، اچانک ایک دوسرے کی تھالی میں چھید کرنے لگتے ہیں اور یادِ ماضی عذاب بن کر انہیں کچوکے لگاتی ہے۔جبھی تو کل تک قلم دوات کی قسمیں کھانے والے دماغِ بیگ کو لون خاندان کا چشم و چراغ دربارِ کنولستان میں روشن دِکھنے لگا ۔ اب تاریخ کا موالی رویت ِ ہلال کی طرح آسمان سیاست پر نئے سیاسی سیاروںاور ستاروں کی گنتی کر رہاہے ، تاکہ اعلاناً یہ پیش گوئی کرسکے: بھائی لوگو! اگر ہندوارہ کا چراغ اور بارہمولہ کا ایاغ دونوں مل گئے تو اہل ِکنول کو سر زمین ِ کشمیر پر اپنا نیا سیاسی اصطبل کھولنے کا زریںموقع نصیب ہوگا ، نئے سیاسی گٹھ بندھن کی بازی گری چلانے کا وہی ٹینڈر حاصل ہوگا ۔ یہ ہوا شیخ سے چلتے چلتے اب لون خاندان کے چاچا بھتیجے کی جوڑی کو لگے گی اور قلمدانِ سیاست وحکومت انہیںسونپ کر کشمیر کے لئے ایک اوربکھراؤ اور دلی کے لئے وشواس گھات پر منتج ہونی ہی ہونی ہے ۔ رہے اللہ کانام!
رابط ([email protected]/9419009169)