عظمیٰ نیوز سروس
ریاض //امریکا اور روس نے سعودی دارالحکومت میں ہونے والے مذاکرات کے دوران یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے کوششوں کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، تاہم اجلاس میں کیف کی نمائندگی نہیں تھی۔ریاض میں ساڑھے 4 گھنٹے کا اجلاس ایک موقع تھا، جب پہلی بار امریکی اور روسی حکام نے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں سب سے مہلک تنازع ختم کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک ساتھ بیٹھے، یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ اس کی رضامندی کے بغیر کسی بھی معاہدے کو قبول نہیں کرے گا۔بات چیت شروع ہونے سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ پر بعض یورپی سیاست دانوں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ گزشتہ ہفتے یوکرین کے لیے نیٹو کی رکنیت کو مسترد کرتے ہوئے ماسکو کو مفت رعایتیں دی گئیں۔امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے ریاض میں صحافیوں کو بتایا کہ جنگ کو مستقل طور پر ختم ہونا چاہیے، جس میں زمین کے حوالے سے مذاکرات شامل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ صرف ایک عملی حقیقت یہ ہے کہ زمین کے بارے میں کچھ بحث ہونے جا رہی ہے اور وہاں سیکیورٹی کی ضمانتوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔سعودی دارالحکومت میں جاری ملاقات میں روس نے اپنے مطالبات کو سخت کر دیا۔ترجمان وزارت خارجہ ماریا زاخارووا نے ماسکو میں صحافیوں کو بتایا کہ نیٹو کے لیے یوکرین کو اپنا رکن تسلیم نہ کرنا ’کافی نہیں ہوگا‘، اتحاد کو ا?گے بڑھ کر 2008 میں رومینیا کے دارالحکومت بخاریسٹ میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں کیے گئے وعدے کو واپس لینا ہوگا کہ کیف مستقبل میں، غیر متعینہ تاریخ کو اتحاد میں شامل ہو گا۔انہوں نے کہا کہ دوسری صورت میں یہ مسئلہ یورپ کے لیے بدستور خطرناک ہوگا۔یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی مسلسل نیٹو کی رکنیت کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ صرف اسی طرح کیف کی خودمختاری اور اس کے جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسی سے آزادی کی ضمانت ملے گی۔یوکرین نے روس، امریکا اور برطانیہ سے اپنی موجودہ سرحدوں کے اندر آزادی اور خودمختاری کی یقین دہانیوں کے بدلے 1994 میں اپنے سوویت دور کے جوہری ہتھیاروں کو چھوڑنے پر اتفاق کیا۔
یوکرین جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار:ٹرمپ
عظمیٰ نیوز سروس
نیویارک //امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کے ساتھ جنگ شروع کرنے کا الزام یوکرین پر عائد کر دیا۔ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے اس بیان کے بعد یوکرین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ حیران کن ہے کہ ان کے ملک کو روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے سعودی عرب میں مذاکرات کے لیے مدعو نہیں کیا گیا‘۔امریکی صدر نے یہ کہتے ہوئے کہ وہ یوکرین کے رد عمل سے مایوس ہیں ، انہوں نے جنگ شروع کرنے کے لیے یوکرین کو مورد الزام ٹھہرایا اور کہا کہ یوکرین جنگ بندی کا معاہدہ پہلے ہی کر سکتا تھا۔ریاض میں امریکی اور روسی وفود کی ملاقات کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ وہ ’زیادہ پراعتماد‘ ہیں، روسی بہت اچھے تھے، روس کچھ کرنا چاہتا ہے، وہ وحشیانہ بربریت کو روکنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں میرے پاس اس جنگ کو ختم کرنے کی طاقت ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا یوکرین میں انتخابات کے انعقاد کے روسی مطالبے کی حمایت کرے گا؟ تو انہوں نے یوکرین میں انتخابات کے انعقاد کے بعد کے عرصے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ٹرمپ نے کہا کہ کیا یوکرین کے لوگوں کا کوئی موقف نہیں ہوگا؟ جہاں انتخابات ہوئے ایک طویل عرصہ ہو چکا ہے۔
انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 2019 میں 5 سال کی مدت کے لیے منتخب ہونے والے زیلنسکی کی مقبولیت میں 4 فیصد کمی آئی ہے۔
ترکی کا موقف قابل تعریف :زیلنسکی
عظمیٰ نیوز سروس
انقرہ// ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ گزشتہ 3 سالوں میں ہم نے جس فعال سفارتکاری پر عمل کیا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا ملک آنے والے عرصے میں روس، یوکرین اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے لئے ایک مثالی میزبان ہوگا۔صدر ایردوان نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کی جو گزشتہ روز سرکاری دورے پر دارالحکومت انقرہ میں تھے ۔صدر ایردوان نے ایوان صدر میں زیلنسکی سے ملاقات کی۔بند کمرے کے اجلاس اور اموری عشائیے کے بعد معاہدوں پر دستخط کی تقریب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی گئی۔اپنی تقریر میں ایردوان نے زور دیا کہ وہ یوکرین کی علاقائی سالمیت کے حق میں ہیں ،ترکیہ کی حیثیت سے ہم نے ہر جگہ اس مسئلے پر اپنے احترام کا اظہار کیا ہے ۔ یوکرین کی علاقائی سالمیت ہماری اولین ترجیح ہے ۔ اس کی حاکمیت ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔ امن میں کوئی نقصان نہیں ہے . اس وقت پوری دنیا روس اور یوکرین کے درمیان اس جنگ میں امن کا انتظار کر رہی ہے ۔صدر ایردوان نے روس- یوکرین جنگ میں اپنی جانیں گنوانے والوں کے لئے یوکرین کے عوام سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زیلنسکی کا دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب یوکرین میں جنگ کی بنیادی حرکیات میں اہم تبدیلیوں کا امکان ہے ۔