عظمیٰ نیوز سروس
جموں// پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی پیر کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہوئیں، جہاںانہوں نے اپنی مفاد عامہ کی عرضی (PIL) دائر کی تھی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان قیدیوں کو جموں و کشمیر میںواپس لایا جائے، جنہیں یوٹی سے باہر کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔انہوں نے عدالے سے کہا کہ وہ انسانی ہمدردی کا رویہ اپنائے اور مرکز کے زیر انتظام تمام زیر سماعت قیدیوں کو منتقل کرے جو اس وقت جے کے سے باہر جیلوں میں بند ہیں۔ تاوقتیکہ حکام ان کی مرکز کے زیر انتظام علاقے سے باہر مسلسل نظربندی کا جواز پیش کرنے کے لیے مخصوص تحریری وجوہات فراہم نہ کریں۔ سابق وزیر اعلیٰ نے سوال کیا کہ 2019 سے پہلے اور بعد میں “شک کی بنیاد پر” پکڑے گئے ایسے نظربند کیوں جیلوں میں پڑے رہتے ہیں جب آسارام اور گرمیت رام رحیم جیسے مجرموں کو گھنانے جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود ضمانت یا پیرول پر رہا کیا گیا ہے۔جموں میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہونے کے بعد نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے، پی ڈی پی سربراہ نے زور دے کر کہا کہ ان کی درخواست “ان سینکڑوں غریب خاندانوں کے لیے مجبوری اور انسانیت کے تحت دائر کی گئی ہے جو برسوں سے انصاف کے بغیر مصائب کا شکار ہیں”۔انہوں نے کہا ” آسارام، اور گرمیت رام رحیم ،اگر وہ ریپسٹ ہے اور ایک قاتل بھی جس پر آپ مقدمہ چلا سکتے ہیں اور رہا بھی کر سکتے ہیں، تو پھر جموں و کشمیر کے قیدیوں کو، جن کے مقدمات ابھی تک ثابت نہیں ہوئے، انہیں کیوں رہا نہیں کیا جا رہا ہے جیسے کہ عدالتی عمل ہی ان کی سزا ہے؟” ۔”یہ ان غریبوں کے لیے ہے جنہیں 2019 سے پہلے اور خاص طور پر 2019 کے بعد شک کی بنیاد پر اٹھایا گیا ، وہ پچھلے چھ سات سالوں سے ملک بھر کی مختلف جیلوں میں بند ہیں، ہم نہیں جانتے کہ ان کی حالت کیا ہے، ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔”محبوبہ مفتی نے ہائی کورٹ پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کو تکنیکی پہلوں تک محدود رکھنے کے بجائے اس کے بارے میں “انسان دوستانہ نظریہ” اپنائے۔سماعت کے بعد عدالت نے معاملہ اگلی تاریخ پر ملتوی کر دیا۔