شبیر احمدمصباحی، دراس
۔14فروری کو ہمارے معاشرےکے کچھ نافہم نوجوان بھائی و بہنیں یوم محبت کے طور سے مناتے ہیں ۔ اس یوم محبت کی شروعات کب اور کیسے ہوئی ،اس کے بارے میں کوئی معتبر تاریخی حوالہ ہماری رہنمائی نہیں کرتا ہے۔کوئی اسے یونان کی رومانی دیوی کا دن کہتا ہے، کہیں لوگ اِسے کیوپڈ (محبت کے دیوتا ) اور وینس (حسن کی دیوی ) سے منسوب کرتے ہیں۔کہیں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دن رومیوں کاایک خاص دن ’’لپرکالیا فیسٹیول‘‘ سے منسلک ہے ۔رومی اس دن نوجوان عورتوں کو کوڑے مارتے تا کہ وہ زرخیز ہوجائیں اور اِسی روز روم کی کنواری لڑکیوں کے ناموں کی پرچیاں ایک بڑے مرتبان میں ڈالی جاتیں ،جنہیں رومی سوما نکالتے ،جس لڑکی کے نام کی پرچی جس سوما کے ہاتھ آتی، وہ اس کے ہوس کی شکار ہو جاتی۔عیسائی مذہب میں 498ء میں پوپ گیلاسیس نے ہر سال 14فروری کو سینٹ ویلنٹائن کی عید منانے کا اعلان کیا ۔لیکن کلیسا نے اسے قبول نہیں کیا، اس لئے اسے فروغ حاصل نہیں ہوا۔موجودہ وقت کے ویلنٹائن ڈے کاآغاز پندرویں صدی سے ہوا ۔لادینی لوگوں نے کلیسا کو نو وقتی تقاضوں سے نابلد قرار دیا اور خاندانی نظامِ ِشادی کے تصورات کو مٹانے کے لئے آزاد ہوس پرستی کا ایک تہوار ’’ویلٹائن ڈے ‘‘کے نام سے شروع کیا ۔ 1400ء میں فرانس کی ایک شہزادی پرنسس آف ایزابیل نے اس کے لئے کھل کر تحریک چلائی،1797ء میں محبت کے عنوان سے کارڈ کی شکل میں محبوب کو خطوط لکھنے کی رسم شروع ہوئی ۔ ان کاوشوں سے یہ قبیح رسم یورپ میں بہت مقبول ہوئی ۔پھر یورپ میںاس کے نتائج بھی دیکھنے کو ملے اوردیکھتے ہی دیکھتے کئی گھر برباد ہوگئے اور سماج میں نت نئی برائیاں پھیل گئیں۔پھر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس کو مشرقی ممالک باالخصوص اسلامی ممالک میں متعارف کرانے کی کوشش ہوئی ۔ کیوں کی اسلام دشمن طاقتیں لوگوں کی اسلام کی جانب رغبت سے سخت تشویش زدہ تھے اور اسلام کی پاکدامنی سے خوف کھارہے تھے۔ مذکورہ تمام واقعات سے میرا مقصد یہ ہے کہ ہمارے کچھ بھائی، بہن اسے جو ’’یوم محبت‘‘ کا نام دیتے ہیں، اس کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ اسلام دشمنی کی آڑمیں ہمارے مخالفین اس تباہ کن رسم کو ایک مضبوط ہتھیار کے طور ہمارے ہی خلاف آزما رہے ہیں، جس نے یورپ و امریکہ کوسماجی و اخلاقی طور پرتباہ و برباد کر دیا تھا ۔مجھے یقین ہے کہ ان تمام حقائق سے ہماری نوجوان نسل نا واقف ہے۔اب یہ جاننے کے بعد میرے معاشرے کے بھائی ،بہن اس قبیح رسم سے گریز کریں گے۔ اگر کوئی پھر بھی ایسا کرتا ہے تو یہ اُس کی اسلام دشمنی کے ساتھ ساتھ اپنے دین ِ مُبین سے اعانت ہوگی۔ دوستو! ہمارے پیارے نبی ہمارے لئے ربی حبلی اُمتی کہتے کہتے اس دارِ فانی سےرخصت ہونے سے پہلےدختران ِ اُمّت کو زندہ در گور ہونے سے بچانے کے لئے جنگ لڑی اور حقوق نسواں کی تعلیم عام کردی۔ اور ہم ہیں کہ آجا اُنہی کی تعلیمات سے ہم منہ موڑے ہوئے ہیں۔جہاں ہم نبی مکرّم ؐ کی ایک سنت بھی ادانہیں کرتے وہیں اغیار کی پیروی کر کے آپ ؐ روح کو بھی تکلیف پہنچاتے ہیں ۔مجھے دوسروںسےکوئی غرض تو نہیں،البتہ اگر اپنے گھر کی بات کروں تو ہمارے کشمیر کو اولیاء اللہ کی سر زمین اور جانے کس کس القاب جاناجاتا ہے، لیکن یہاں کے نوجوان نسل کی جنس گمراہی اور بے راہ روی دیکھ کر لگتا ہے کہ ان القاب کا بھی شاید ہمارے نوجوان کو کوئی علم نہیں۔ اس عرض کے ساتھ کہ میرے پیارے بھائیو اور بہنو! خدا را ایسی قبیح رسموں سے دور رہو۔ یہ رسمیں ہماری تباہی کے لئے پھیلائی جارہی ہیں۔ہم مسلمان ہیںاور پیارے نبیؐ کے اُمّتی ہیں ،اس لئے یوں سر عام اپنے مذہب اور والدین کی عزت کا جنازہ نہیں نکالو، وہ بھی کشمیر جیسے اولیا ء اللہ کی سر زمین میں ۔
[email protected]> (رابطہ۔8082713692 )