تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ ٔمزدور کے اوقات
یکم مئی کو ہر سال بین الاقوامی سطح پر مزدورں و محنت کشوں کے حقوق کے عالمی دن کے طور پر بڑے طمطراق کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔اس سلسلے میں دنیا بھر کے محنت کشاں اپنے تسلیم شدہ حقوق کی باز یابی کے لئے مختلف طریقوں سے اپنی آواز بلند کر کے انصاف کی دہائی دیتے ہیں۔اس دن پوری دنیا میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کانفرنسوں،مباحثوں ،سیمناروں اور جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں سرکردہ شخصیات ،سیاست دان،اور لیڈ ران مظلوم و محکوم مزدوروں کے حقوْق کولے کر لمبی لمبی تقریریں جھاڑتے ہیں ۔اس دن کو منانے کا سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری ہے ۔
3مئی1866ء کو امریکہ کے شہر شکا گو میں اپنے حقوق کی باز یا بی کے لئے احتجاج کر رہے مزدوروں گولیاں برسائی گئی جس کے نتیجے میں ایک مزدور کی جان چلی گئی۔اگلے دن یعنی4مئی کو محنت کشوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیاجس دوران ہجوم میں موجود کسی شخص نے پولیس پر بم سے حملہ کیا جس میں سات پولیس اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ۔انتقامی کاروائی کے تحت پولیس نے ہجوم پر اندھا دھند گولیاں برسائیں اور درجنوں مزدوروں کو ہلاک اور زخمی کردیا۔تب سے آج تک ہر سال یکم مئی کو عالمی یوم مزدور(World Labor Day)کے طور منایا جاتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ ریاست جموں کشمیر میں بھی یہ دن سرکاری اور غیر سرکاری طور منایا جاتا ہے اور محنت کشوں کے حقوق کو لے کر جلسے جلوس اور دیگر پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں ،لیکن یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ریاست خاص طور سے وادی کا محنت کش طبقہ شخصی راج کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے با وجود بُری طرح سے ظلم اور استحصال کا شکار ہو رہا ہے ۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا موزون رہے گا کہ کشمیری محنت کش طبقے کی داستان غم و الم کافی طویل ہے ۔1846 ء میں جب بینامہ امرتسر کے تحت ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ نے 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض ریاست کو انگریز سامراج سے خریدا تو اپنا تخت شاہی سنبھا لنے کے ساتھ ہی اس نے وادی کے عوام پر ظلم و تشدد ڈھاناشروع کردیا ۔انگریزوں کی بقایا رقم چکانے کے لئے اس نے محنت کش طبقے کا خون چوسنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے کرتے ہوئے ہنر مندوں اور محنت کشوں پر مختلف قسم کے کمر توڑ ٹیکسوں کا نا قابل برداشت بوجھ ڈالا گیا ۔ مہاراجہ کے اس ظلم جبر اور تانا شاہی کے خلاف کشمیری عوام نے آواز بلند کی تو مختلف حربے استمال کر کے ان کا دو بھر کر دیا گیا ۔گلاب سنگھ کی موت کے بعد بھی یہ سلسلہ جا ری رہا ۔مہاراجہ رنبیر سنگھ کے دور میں ظلم و ستم کی چکی میں پسے جا رہے محنت کشوں(شال بافوں) نے تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق 29 اپریل1865 کو سرینگر شہر میں ایک بڑا جلوس نکا لا جس میں شہر میں بودو باش رکھنے والے دوسرے لوگوں نے بھی بڑے تعد اد میں شرکت کی ۔جلوس کو تتر بتر کرنے اور مظلوموں کی بر حق آواز کو دبانے کے لئے ڈوگرہ فوج نے نہتے محنت کشوں پر دھا وا بول دیا جس سے وہاں زبر دست بھگدڑ مچ گئی اور نتیجے کے طور پر ایک پُل ٹوٹ جانے سے 28 افراد پانی میں ڈوب کر جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے ،کچھ تاریخی حوالوں کے مطابق اس موقعے پر ڈوگرہ فوج نے گولیاں بھی چلائی تھی ۔اس طرح اگر چہ شکاگو امریکہ کے واقعے سے دو دہائیاں قبل کشمیر کے محنت کشوں نے ظلم کے خلاف سینہ سپر ہو کر اور گرم گرم لہو بہا کر انقلاب بھر پا کر دیا تھا لیکن بد قسمتی سے کشمیری محنت کش جیالوں کی اس قربا نی کو ٖفراموش کیا گیا ۔
شخصی راج کے خاتمے کے بعد اگر چہ ریاست میں مزدوروں کے حقوق کی باز یابی کے لئے نئے نئے قوانین وضع کئے گئے لیکن ان پر صدق دلی سے عمل در آمد نہیں ہوتا ۔ مختلف ریاستی حکو متوں نے مزدور طبقے کا دل بہلانے کے لئے مختلف نعرے ایجاد کئے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات اورمحنت کشو ں و ہنر مندوں پر ہر سطح پر استحصال جا ری رہا ۔ سرمایہ دار طبقے نے مختلف بہانوں سے محنت کشوں کا خون چوس چوس کر اپنے لئے عالی شان محلات تعمیر کئے ،عیش کوشی کا سامان پیدا کیا مگرمحنت کشوں کی مفلسی، غریبی و لاچاری پر انہیں کبھی ترس نہیں آیا ۔دور حاضر میں مجبور ر و بے کس کم سن بچوں سے قلیل محنتانے پر سخت مشقت کا کام لیا جاتا ہے لیکن اس جرم کے خلاف قوانین موجود ہونے کے با وجودکسی کے کانوں پر جو تک نہیں رینگتی۔ کہنے کومحنت کشوں کے حقوق کی باز یابی کے لئے وادی میں بھی کئی تنظیمیں کام کر رہی ہیں لیکن زمینی صورت حال کا مشاہدہ کرنے سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ان کے حقوق آج بھی کچلے جا رہے ہیں ۔انصاف کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ان کو دوسرے درجے کا مخلوق تصور کیا جاتا ہے اور آج کے اس کمر توڑ مہنگائی کے دور میں میں محنت کش مزدور طبقہ دانے دانے کا محتاج ہو کر در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے مجبور ہے ۔ یہ سب آخر کیوں ؟ریاست میں ہزاروں کی تعداد میں اس وقت کیجول لیبر،نیڈبیسڈڈیلی ویجر وغیرہ زمروںکے تحت مختلف سرکاری محکموں میں انتہائی قلیل روزانہ اجرتوں پر سالہا سال سے تعینات ہیں، مستقل ملازمین کی قلت کے چلتے یہ لوگ انتہائی محنت اور ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دیتے چلے آرہے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ کہ نان ِ شیبہ کے محتاج ان غریبوں کو اپنی حقیر اُجرتوں کے لئے مہینوں ترسایاجاتا ہے ، انہیں کبھی وقت پر روح اور بدن کو جوڑے رکھنے کے لئے محنتانہ ادا نہیں کیاجاتا، حتیٰ کہ ایسے کم نصیبوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں جو بہ حیثیت یومیہ مزدور محکمہ بجلی میں سرکاری کام انجام دیتے دیتے اپنی جان تک کھو بیٹھتے ہیں مگر افسوس صدافسوس کہ گنج ہائے قارون کے رکھوالوں نے آج تک کوئی ایساقانون ان بد نصیبوںکے لئے وضع نہیں کیا ہے جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پس ازمرگ ان کے اہل وعیال کی کفالت کا بندوبست کروا تا ۔اس کے برعکس انہیں بے تکلفی کے ساتھ حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ اجاتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ کوئی ٹریڈ یونین لیڈر اس اہم موضوع پر کبھی لب کشائی کر نے کی توفیق نہیں پاتا ۔ ایسے حالات میں یومیہ مزدور انتہائی کسمپرسی میں زندگی کے دن نہ کاٹ لیں اور کیا کریں ۔ان کے بچوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے ،علاج و معالجہ اور دیگر ضروریات زندگی میسر نہ ہونے کے سبب ان کی زندگیاں اجیرن بن کے رہ گئی ہیں ۔اپنی اُجرتوں اور دیگر جائز مانگیں منوانے یہ لوگ سڑکوں پر آکر احتجاج کر کے انصاف مانگتے ہیں لیکن حکام نے جیسے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے اور ان کی جائز مانگوں کو پورا نہ کرنے کی جیسے قسم کھائی ہو ،ان پر ڈنڈے برساکر انکی سنی اَن سنی کی جاتی ہے ۔جب ان کا حال یہ ہوتا ہے ؎
سرما کی ہوائوں میں ہے عریاں بدن اس کا
دیتا ہے ہنر جس کا امیروں کو دو شالہ
رسول مقبول ﷺ نے مزدور کو خدا کا دوست قرار دیا ہے اور فرمایا کہ مزدور کی کمائی بہترین کمائی ہے، نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مزدور کی مزدوری اس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ادا کرو ۔اس طرح آج سے چودہ سو سالزے زائد عرصہ پہلے آپؐ نے مزدوروں کے حق میں اور نا انصافیوں کے خلاف موثر آواز اٹھائی۔ اللہ کے فضل احسان کے بعد یہ مزدور ہی ہیں جن کے دم سے کھیتوں کھلیان میں شادابی اور ہریالی قائم ہے ،جن کے خون پسینے سے اونچی اونچی عمارتیں اور کارخانے تعمیر ہو تے ہیں،بڑی بڑی کارگاہوں اور بازاروں کی رونق باقی ہے۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس مزدور کی محنت کا ہی ثمر ہ ہے کہ سرمایہ داروں کو نرم و ملائم ریشم کا لباس نصیب ہوتا ہے ۔ان حقائق کی روشنی میں محنت کش اورمزدور واقعی ہر انسانی سماج میں عزت و وقار کا حق دار ہے ۔ یوم مئی کی مناسبت سے مزدوروں کے مسائل اُجاگر کر نے والی تقریبات جلسے جلوسوں اور سیمیناروں کا انعقاد اسی صورت میں بار آور ثابت ہو سکتا ہے جب حقیقی معنوں میں محنت کشوں کے درد و کرب کو سمجھ کر ان کے سلب شدہ حقوق کی بازیابی جیسے منصفانہ اور ٹھوس اقدامات کئے جائیں، ورنہ صرف رسمی طور یوم مئی منا نا بے معنی ہے ۔ ضر ورت اس بات کی ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تمام محنت کش طبقوں کی بھلائی اور پراپر جائی کے لئے موثر اور کارگراقدامات کئے جائیں تاکہ موجودہ کمر توڑ مہنگائی کے دور میں یہ طبقہ احساس محرومی سے نجات پا کر سماجی تحفظ اورعزت و وقار والی زندگی گزار سکے ؎
زر ہزنان چمن انتقام لالہ کیشم
نہ بزم غنچہ وگل طرح دیگر اندازیم
بطوف شمع چو پروانہ زیستن تاکے
زخویش ہمہ بیگانہ زیستن تاکے
علامہ اقبالؒ
ای میل۔۔۔۔۔[email protected]