منظور احمد وانی۔بانہال
’’یتھ واو ہالے ژونگ کس زالے‘‘ ایک ضخیم اور نمایندہ شعری مجموعہ ہے جس کو اس سال ساہتیہ اکادمی کے انعام سے نوازا گیا ،یہ شعری مجموعہ صوبہ جموں سے تعلق رکھنے والے سخنور منشور بانہالی کے قلم سے نکلا ہوا ہے۔ منشورؔ بانہالی کی ادبی خدمات کو قومی سطح پر توثیق وپہچان ملنا ایک فرد واحد کو ہی نہیں بلکہ خطہ چناب میں کشمیری زبان بولنے والے یا پورے جموں صوبہ کی عوام کیلئے ایک بیش قیمت سند سے سرفراز ہونے سےکسی قدر کم نہ ہے ۔ انکی اس تصنیف کو ساہتہ اکادمی کے سال 2023 کے اعلیٰ اعزازکے لئے انتخاب واقعی منشور بانہالی کیلئے ایک تمغہ اعجاز ہے۔
ریاستی سطح کی متعدد ادبی فورموں انجمنوں قلمکاروں فنکاروں و شعرا حضرات کی انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے موصوف کی مبارک بادی کا جس فراخدلی سے مظاہرہ کیا جارہا ہے، یہ ایک قابل ستائش عمل ہے۔ جہاں آجکل اس مادی دور کی تحریص میں اکثر لوگ ایک دوسرے سے سبقت لینے کی تگ ودو میں مصروف ہیں وہیں تہذیب و ثقافت کی ایک اہم اکائی ادب کی بقا کیلئے حکومتی سطح پر منشورؔبانہالی جیسی ہمہ جہت ادبا ،ماہرین تعلیم ،دانشور ومحققین کی حوصلہ افزائی اس بات کی غماز ہے کہ جدیدیت کے حالیہ انقلاب میں ادب کی قدر منزلت بھی کچھ کم نہیں ہے۔چنانچہ یہ خبر عام ہوتے ہی ذرائع ابلاغ کے متعدد انواع کی وساطت سے موصوف کی اب تک کے ادبی خدمات حالات زندگی، سماجی ودینی کام ،دانشورانہ صلاحیت ، شاعری ،تحقیقی خدمات ،مختلف زبانوں پر انکی دسترس تجریہ نگاری ،تنقید نگاری ،تعلیمی مہارت ،تاریخ دانی اور انکی قلمکاری کے بہترین اسلوب اور جواہر کا آشکارہ سماجی ویب سائٹوں اخبارات ٹیلویژن انٹرنیٹ ادبی سٹیجوں اور مختلف سماجی انجمنوں کی طرف سے اپنی اپنی بساط وسعت اور معلومات کے اعتبار سے انکے خراج تحسین میں پیش کیا گیا ہےاور یہ سلسلہ جاری ہے ،جسکے لئے موصوف مستحق ہیں۔ان ہی جذبات اور احساسات کے مد نظر اور دل میں یہ کسک لئےکہ کاش راقم الحروف بھی اس قابل ہوتا کہ انکے خراج تحسین میں اپنا نذرانہ عقیدت پیش کرتا ،مگر اپنی کم ظرفی اور کم مائیگی اسلئے حائل رہی کہ میں ادب کے معاملے میں نو آموز ہوں اور ادیبوں کی صحبت سے کوسوں کے فاصلہ پر ہو ں۔ میں نے پوسٹ گریجویشن انسانی حقوق کے مضمون میں کی اور پھر روزگار محکمہ عدلیہ میں نصیب ہوا، جہاں انسان چاہتے ہوئے بھی فرصت سے خالی رہتا ہے مختلف جگہوں پر تبادلے اور روز مرہ کےمشغول نظام الاوقات نے ادب اور صحبت اُدبا سے دور رکھا ہے ۔ جیسا کہ موصوف کی شان اور اعزاز میں خراج تحسین اور اپنے جذبات کا اظہار کرنے کیلئے ان سے بے حد شناسائی مطلوب ہے اور ان سے حددرجہ متعارف اور انکے حالات زندگی وخدمات سے آشنا ہونابہت ضروری ہےتاہم مجھے اس بات کی اسقدر معلومات ہے کہ موصوف ایک بلند پایہ شاعر و ادیب ماہر تعلیم مورخ محقق ، دانشور اور مختلف زبانوں کے ماہر ہیں اور موصوف کے ساتھ میرا تعلق اور قرابت صرف اس واسطےسے ہے کہ انکے سب سے بڑے فرزند ارجمند جو ریاستی سرکار میں آجکل سکریٹری بورڈ آف پروفیشنل ایگزامنیشن کے اعلیٰ عہدہ پر فائز ڈاکٹر فردوس احمد کا ہم جماعتی اور دوست ہوں، اسی تعلق سے گاہ بگاہ موصوف سے رسمی ملاقات ہوتی رہتی ہے ۔ منشور بانہالی کی تصنیف شده کتب ہائے کے نام و مطالعہ اور انکی ادبی قرابت سے محروم رہنے میں اپنی بدنصیبی سمجھتا ہوں اور دنیوی معاملات کو اسکے مانع رہنے میں ایک بہت بڑی وجہ سمجھتا ہوں جبکہ ادب سے وابستہ شخصیتوں کے ساتھ مجھے بہت عقیدت اور احترام ہے۔ منشور بانہالی سے
میری انس ،عقیدت اور احترام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انکی زندگی کا ایک قابل رشک پہلو یہ ہے کہ شعبہ تعلیم میں اپنے فرائض منصبی میں تعلیمی اور تدریسی مصروفیات کے باوجود اور ابتدائی دور میں عیالداری کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ بھی آپ نے جس طرح سے تصنیف اور تالیف کا کام جاری رکھا، یہ آپکا ہی خاصہ ہے۔ آپکے ان ہمہ جہت مشاغل کے باوجود طبیعت میں ہمیشہ بشاشت رہتی ہے ۔آپ نے بحیثیت استاد متعدد طالبان علم کی تعلیم و تربیتی نشود نما کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر میں بھی ایک مثالی ماحول میں سبھی اولاد کو اعلیٰ تعلیمی زیور سے آراستہ کیا ہے، جسکی زندہ مثال آپکے فرزندان کے اے ایس کر کے ڈاکٹر فردوس سکریٹری بورڈ آف پروفیشنل ایگزامنیشن وقار احمد ایڈیشنل ڈی سی کلگام فاورق احمد اسسٹنٹ ایگزیکٹیو انجینئرڈاکٹر پروفیسر قیصر جایدکمپیوٹر سائنس شعبہ، اسلامیہ یونیورسٹی کشمیر میں اور دختراں نیک زادیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے سرکاری محکمہ تعلیم میں اپنا فریضہ ایمانداری اور جانفشانی سے انجام دے رہی ہیں۔ موصوف کی کتاب’’ یتھ واؤہالے ژونگ کُس زالے ‘‘کا سرورق سوشل میڈیہ کی بدولت میری نظر سے گزرا اور نام نے ہی اتنا متاثر کیا ہے کہ کتاب کے مضامین و موضوعات کی دھن میں مخمور ہونے سے قبل ہی اپنے جذبات کو صفحہ قرطاس پرلانے کا تجسس پیدا ہوا۔اس امر سے قطع نظر کہ خراج تحسین پیش کرنے کیلئے کتاب و صاحب کتاب کا تعارف خاص ہے یا نہیں ،موضوع پر تنقید تجزیہ یا تبصرہ کر سکوں یا نہیں ،کیا اتنی صلاحیت باریک بینی اور ذہانت بھی ہے یا نہیں، یا منشور بانہالی جیسے جیتے جاگتے خزانہ علم و ادب کی قربت بھی کبھی حاصل رہی یا نہیں تاکہ کتاب کی تقطیع ضخامت طباعت یا خصوصیات موضوع سے بار آور ہو سکتا یا صاحب کتاب ، شاعر کے خیالات کو کہ وہ جدید یا قدیم ہیں، کا اندازہ لگا سکتا اور کلام کی فصاحت و بلاغت کا تبصرہ اور منصف کے خیالات جذبات اور احساسات کو سمجھ سکتا یا انکے نزاکت زبان یا طرز تحریر کے خم و پیچ بھانپ سکتا،ایسے حالات میں خراج تحسین پیش کر نا ایک جنون ہی تو ہے جو آر دیکھتا نہ پار، جونہ معیار دیکھتا ہے نہ انداز، بس کود جاتا ہے میدان میں بے سروسامان ،کیونکہ جذبات کے مظاہرے کیلئے نہ کوئی خاص میدان، نہ محل وقوع اور نہ ہی رہنما اصول کی ضرورت پڑتی ہے ۔
بس ایک بات ذہن میں گردش کرنے لگی کہ کون سی ایسی بات ہے کہ شیخ العام ؒ کے بصیرت سے لبریز کلام کے ایک بند اور منشورؔ نام کے حسین جمیل رشتہ، مناسبت اور روحانی تعلق میں اسقدر گہرائی موجود ہے کہ انوارات شیخ ؒمنشورؔ بانہالی پر ظاہر ہوئے جس سے مجھے اپنا نقط نظر سامنے آیا، انکے خراج تحسین میں پیش کرنےکی سعی کی ہے۔ امید ہے کہ اہل نظر اور اہل ذوق اپنی آرا سے رہنمائی فرمایں گے کیونکہ صرف کتاب کا سرورق دیکھ کر اور فقط نام سے متاثر ہو کر اپنا نقط نظر بیان کرنا مشکل ہی نہیں نازک بھی ہے ۔صاحب موصوف سے ادباً استدعا ہے ،بنا نوک پلک کی اس تحریر کا لحاظ رکھتے ہوئے بھلے ہی وزن اور معیار میں میرے الفاظ ہلکے پڑیں گے مگر جذبات اور احساسات کی زبان دے کر بہت ہی محبت اور عقیدت سے تحفتاً آپکی خدمت میں پیش کئے ہیں ،امید ہےکہ قلمکاری کے پیمانہ میں تو لے بغیر ہی قبول فرمائیں گے۔ موصوف کے مجموعہ شعری کلام کے با برکت نام اور منشورؔ بانہالی نام ؒکے مابین کن مخصوص صفات اور کن پُر کشش وجوہات کے باہمی ہم آہنگ ربط نے انوار علمدار ؒ کی ایک شعاع کے گذرنے کی بدولت پورے مجموعہ کلام کو منوّر کردیا اور یہ کتاب کمال درجہ عروج پر ابھر کر آئی ہے۔اپنے نقطہ نظر کا منطق بیان کرنے کی کوشش کروں گا میں کتاب کے نام کے خدو خال جسامت یا وسعت کے موضوع کو بھی نہ چھیڑوں گا کیونکہ اس میدان میں ادب کے اصول قوانین جاننے والے حضرات ہی مداخلت کر سکتے ہیں۔ جیساکہ ہم سب شیخ العالم ؒ کے کشمیری مجموعہ کلام کے پیغامات سے آگاہ ہیں کہ اسکا ماخذ اللہ تعالیٰ کے واضع احکامات رسول اکرمؐ کے واسطہ سے ہماری رہنمائی کے لئے کشمیری زبان میں مدلل انداز میں بیان ہوئے ہیں اور انہیںپیغامات میں سے یہ چار بندیاں :
یتھ واو ہالے ژونگ کُس زالے تیِلہ کنہِ زالس علم تَے دین
پرَ کتھہ تراوتھ سَہ کتھ پالے سُہ علم چھے ما لہ الف لام میم
بھی ایک اہم پیغام کی صورت میں ہمارے لئے بے پناہ فیض عام حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جس بند کے ساتھ منشورؔ بانہالی نے اپنی مجموعہ شعری کلام کو منسوب کیا ہے، اس کے بعد کی دیگر تین بندیوں میں جواب کی صورت میں صاف طور پر انہوں نے پیغام پہنچایا ہے کہ اس طوفانی ماحول میں وہی شخص امن و امان کے چراغ روشن کر سکتا ہے جو راسخ علم و دین حق کو اس چراغ میں ایندھن کے طور استعمال کرےگا اور ایسا تبھی ممکن ہے جب خرافات کو چھوڑ کر اس نسخہ کیمیا کے تابع ہو جائیگا، جسکا خلاصہ الم میں ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ منشورؔ تخلص کی وضاحت سے قبل کتاب کے نام کے ساتھ اس بند کے تعلق کو ظاہر کرنا ممکن نہیں ہے جیسا کہ لغت میں منشور کو ایک آئین سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی ایک ایسا دستاویز جو معاہدے پر مشتمل ہو اور ایسی بنیادی تحریر جس میں لائحہ عمل کے اصول و ضابطے یا مقاصد درج ہوں یا ایک ایسا مشترکہ اعلامیہ جن کے اندر تمام متعلقین کیلئے متوازن اور ہمہ گیر حقوق مساوی طور پر خاص و عام کو فراہم ہوں مگر طبیعتاً یعنی شکل و صورت کے اعتبار سے ’’منشور‘‘ ایک ایسا تکونی آلہ کہلایا جاتا ہے جو غالباً شیشہ یا شیشے جیسی خصوصیت والی شٔے سے تیار کیا گیا ہو، جس کے وجود سے کوئی بھی شۓ آرپار سے دیکھی جا سکے اور اسکی بناوٹ اسقدر ہو کہ اسکی بناوٹ میں استعمال ہوئےشۓ کی صفات اور خصوصیات اس سے ہر طرف سے آرپار روشنی گزارنے میں کسی بھی طرح سے حائل نہ ہوں جسکی تصدیق علم طبیعیات میں واضع ہوئی ہے کہ منشور ایک ایسا سائنسی آلہ ہے جسکو انگریزی زبان میں Prism کہتے ہیں اور تحقیق میں آیا ہے کہ ’’منشور یعنیPrism کے ذریعہ سے قدرتی روشنی کی ’’شعاع‘‘ کو ایک مخصوص زاویہ سے گزارا جائے تو یہ روشنی سات بنیادی رنگوں میں اُبھر آتی ہےاور میرا ماننا ہے کہ شیخ العالم ؒ کے بصیرت افروز کلام کی غالباً کوئی نورانی شعاع وجود منشورؔ سے گزر کر’’یتھ واوہالے ژونگ کُس زالے ‘‘کی تجلی بن کر اس کتاب کی شکل میں مختلف انوارت شیخ العالم ؒ لیکر ابھر آئی ہے۔ اغلب ہے سال 2023 کے اعلیٰ اعزاز کے انتخاب میں منشور بانہالی کی محنت اور ہنر میں انہی با برکت انوارات نے نکھار لایا ہو، بظاہر یہ میرا ذاتی نقطہ نظر ہے، اس سے قارئین کو اتفاق اور اختلاف بھی ہو سکتا ہے ۔ قارئین اپنی قیمتی آراء تحریری طور راقم کو ارسال کرسکتے ہیں ۔
واٹس اَپ نمبر (7298472282)