سندھ میں محمد بن قاسم رحمتہ اللہ علیہ نے ۷۱۳ء میں حملے سے 90 سال قبل ہی ہندوستان میں اسلام پھیل چکا تھا۔ محمد بن قاسم کے حملے کے بعد مسلمانوں نے رفتہ رفتہ ہندوستان میں کافی قوت حاصل کر لی ۔ مسلمانوں کی یکے بعد دیگر ے فتو حات نے ہندوستان کی تاریخ ، تہذیب ، ثقافت ، معیشت کو متاثر کر کے ایک نئے سماج کی تشکیل دی اور مسلمانوں نے اپنی تعلیم ا ور فکرو فن سے اس قوم کی رگ رگ میں ترقی کا خون دوڑا دیا۔ مسلم سلطنت کے تقریباََ سات سو سالہ دور میں مسلمانوں کے پاس اعلیٰ سرکاری مناصب تھے ،بڑی بڑی ریاستیں تھیں، عدلیہ اور انتظامیہ کے بڑے ادارے ان کی تحویل میں تھے، علماء فضلا ادبا اور شعراء اس دور کے فکری اثاثے تھے، تعلیم وتربیت کی زمام کار مسلمانوں کے ہی ہاتھوں میں تھی مگر ہندوؤں کو نہ صرف امن و سکون میسر تھا بلکہ ہر طرح کی آزادی اور اعلیٰ پایہ حکومتی مناصب ان کیو ملتے رہے، یوںمساوات اور بھائی چارے کا دور دروہ رہا ۔ مسلمانوں کے عروج کے بعد ہندوستان میں زوال آ ثار پیداہونے لگے تو انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو1600 میں تجارت کے نام سے سرزمین ہند پر پلانٹ کیاا ور پھر اپنی مکاری و عیاری سے انگریز ہندوستان پر قابض ہو گئے مگر مسلمانوں نے انگریزوں کے اس وشواس گھات کے خلاف زبردست جدو جہد شروع کی جو ۱۸۵۷ء جیسے اہم انقلاب پر منتج ہوئی۔1857کے اس ناکام انقلاب کے فوراً بعد انگریزی حکومت نے مسلمانوں کو سیاسی، سماجی ،تعلیمی اور معاشی میدانوں میں مفلوج کر کے رکھ دیا ا ور ان کا سب کچھ چھین لیا گیا ۔ مسلم آبا دیاں ، علماء ، کاریگراور کسان انگریزحکومت کے انتقام گیرانہ ہٹ لسٹ میں سر فہرست تھے ۔ برطانوی حکومت نے مسلمانوں کو ہر سطح ٹار گیٹ بنایا ، جب کہ ہندوؤں کومراعات وسہولیات سے نوازا۔ مسلمانوں کے ساتھ معاندانہ رویہ اپنانا انگریزوں کی ایک منصوبہ بند سازش ’’پھوٹ ڈالو حکومت کرو‘‘ کی ایک منظم کڑی تھی ۔اس وجہ سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان آپس میں بد اعتمادی اور عناد پیدا کیا گیا جو آگے چل کر تقسیم ہند کی بنیاد بن گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر 1857ئمیں مجاہدین حریت نے انقلاب کا علم بلند نہیں کیا ہوتا تو7 194 ء میں ملنے والی آزادی خواب وخیال ہوتی ۔یہ تا ریخی انقلاب تھا ۔
1947ئمیں ہندوستان آزاد ہونے کے بعد ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیسا نارواسلوک کیا جارہا ہے؟ اس پر پوری دنیا کان پکڑ کرتوبہ توبہ کر رہی ہے ۔ انگریزسامراج کی حکومت سے زیادہ ہندوستان کے نئے حکمرانوں نے پچھلے 70؍ سال سے مسلمانوں کے ساتھ زیادتیاں ، نا انصافیاں اورغارت گریاں روا رکھنے میں ایک دوسرے پر سبقت لی کہ آج بھی بڑھ چڑھ کر مسلمانوں کے دل ودماغ پر ذلت و بے توقیری کے داغ اور احساس بیگا نگی رقم ہورہے ہیں۔ حالانکہ تاریخ نے وہ دس صدیاں بھی دیکھیں جب ملک ہند پر مسلمان حکومت کرتے رہے اور مسلم حکمرانوں نے جو نیک اور انسانی سلوک غیر مسلموں کے ساتھ کیا ، وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس کے برعکس ہندو ستانی حکمرانوں نے آزادی کے بعد خاص کر آرایس ایس نواز حاکموں اور فوج نے دلی، پنجاب، بنگال ، بہار کے ساتھ ساتھ جموں میں پانچ لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ جموں کا نر سنگھہار سب مہاراجہ ہری سنگھ کی افواج کے تعاون سے کر ایا گیا اور اس نسلی تطہیر کے ہدایت کاروں میں سردار پٹیل اور مہر چند مہا جن پیش پیش تھے۔ اس کے بعد بابری مسجد پر 1949ء میں ناجائز قبضہ اور1992 ء کوا س کی شہیدکیا گیا۔ آج 26؍ سال گذر چکے ہیںمگر با بری مسجد کی شہادت کے ذمہ داروں اور مجرموںکو اس سنگین جرم کی کوئی سزا نہ ملی۔ اس سے قبل 1987ء میں اپنے وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے دروازے ہندوؤں کے عام پو جا پاٹ کے لئے کھلوائے تھے۔ یہ گویابھارت دیش کے مسلمانوں کو محکومیت کا احساس دلانے کے لئے سب سے بڑی سنگین کارروائی تھی جو ایودھیا میں واقع صدیوں پرانی بابری مسجد کے انہدام کی صورت میں پوری ہوئی ۔ یہ قصہ ملک کے 25؍ کروڑ مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر دہشت زدہ کر نے کا سب سے بڑا حربہ تھا۔ 1947سے لے کر آج تک مسلمانانِ ہند کو مسلم کش فسادات میں تہ تیغ کرنے کی جو سرگزشت بنی ہے اور تقسیم ہند کے وقت جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ ناقابل بیان ہے ۔ آزادی کے صرف تین سال بعد یعنی 1950ء میں مختلف ریاستوں میں مسلم کش فسادات میں دس ہزار سے زائد مسلمان مارے گئے۔ 1963ئمیں مغربی بنگال میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا۔ ان مسلم کش فسادات میں 70؍ ہزار مسلمانوں کو اپنے گھروں سے محروم ہو کر فوجی کیمپوں میں رہنا پڑ ا تھا۔ اس کے صرف تین ماہ بعد 1964ئمیں رانچی جمشید پورہ اور لالوڑ کیلا میں فسادات میں چار ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ 1969ئمیں گجرات 1970ئمیں بھاگلپور کے مسلم کش فسادات کی تفصیلات پڑھنے سے انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔ 1992ء میں ممبئی میں مسلمانوں کو تہ تیغ کرا نے میں شو سینا کے بال ٹھاکر ے کو جس پیمانے پر ہندؤوںمیں شہرت ملی بالکل اسی طرح 2002میں گجرات میں 2000 ؍ مسلمانوں کے قتل عام کے بعد مودی کے نام کا چرچا ہوا ۔
گجرات ، مظفر نگرا ور آسام میں مسلم کش فسادات اتنے مہیب اور ڈرائونے ہیں کہ انہیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ گجرات کے مقتول ایم پی احسان جعفری ، عشرت جہاں، شمع بی اور دادری یوپی کے اخلاق احمد اور حافظ جنیدکے قتل ناحق کی الم ناک داستانیں ہیں جن سے مسلم اقلیت کے خلاف سرکاری وغیر سرکاری پالیسی کی عکاسی ہوتی ہے اور ہر باضمیر کا خون کھول اٹھتاہے ۔ مسلمان خود کو بقول سابق نائب صدر حامد انصاری آج سب سے زیادہ غیر محفوظ دیکھ رہے ہیں۔ گذشتہ تین سال کے دوران بھارت دیش میں گائے کا ذبیحہ کے بہانے ہندوشدت پسندوں( جنہیں گاؤ رکھشک کہا جاتا ہے ) کے ہاتھوں کم از کم دس مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اُتار اجاچکا ہے اور تخویف وہراسانی کی فضا برابر قائم ہے۔ مختلف ریاستوں میں ہندو انتہا پسندوں نے غنڈوں پر مشتمل رضا کار گروپ یا قاتل ٹولے تشکیل دئے ہیں جن کاکام مال مویشی کی تجارت یا گائے پالن سے وابستہ مسلموں کو بہانے بناکر قتل کر نا ہے ۔ اپریل 2017ء کے اوائل میں راجستھان کے الوار نامی علاقہ میں شاہراہ پر مویشیوں سے لدے ایک ٹرک لے جانے والے مسلم کسان پہلو خان کی ہندو بلوائیوں نے بے دردی سے شدید مار پیٹ کر کے اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا ۔ پہلو خان کو قتل کرنے کے صرف چار دن بعد جھار کھنڈ میں ایک بیس سالہ مسلم نو جوان محمد سالک کو ایک ہندو لڑکی کے ساتھ دوستی رکھنے کا الزام دے کر ہلاک کر دیا گیا ۔ سالک نے جب سکوٹر پر اپنی ہندو دوست کو اس کے گھر کے قریب ڈراپ کیا تو پہلے سے تیار شدت پسند ہندؤوں کا ہجوم اُس پر ٹوٹ پڑا ۔ اُسے ایک کھمبے کے ساتھ باندھنے کے بعد اُس پر تب تک بانس کے دنڈے برسائے گئے جب تک نہ وہ دم توڑ بیٹھا ۔ 30؍ اپریل 2017ء کو بھارت کی شمالی مشرق ریاست آسام میں ہندو بلوائیوں نے دو مسلمان بھائیوں ابو حنیفہ اور ریاض الدین پر گائے چوری کا الزام لگا کر ان کی اس قدرت شدید مار پیٹ کی کہ وہ ہسپتال پہنچائے جانے سے پہلے ہی دم توڑ بیٹھے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مئی 2015ئسے اب تک گائے ذبح کرنے کے الزام میںا یک بار ہ سالہ لڑکے سمیت دس مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ۔ حالانکہ گائے کا گوشت صدیو ں سے دنیا بھر کے انسان خواہ وہ کسی بھی مذہب یا ملت ، ملک اور وطن، رنگ نسل سے ہوں ، کھاتے پکاتے رہے ہیں اور آج بھی دنیا کی بڑی آبادی کا یہی مرغوب خوراک مانا جاتا ہے۔ یہ بات ہند داہل دانش بھی مانتے ہیں کہ ویدک دھرم کی کسی بھی مقدس کتاب میں کہیں پر بھی نہیں لکھا ہوا ہے کہ گائے کو ذبح نہ کیا جائے یا اس کا گوشت نہ کھایا جائے۔ بھارت دیش کے راشٹر پتا گاندھی جی ہندوؤں کے اس متشدادانہ طرز فکر سے سخت دل بر داشتہ تھے اور وہ مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے سے روکنے کے سخت خلاف تھے۔ چنانچہ 1947ئمیں مظفر نگر کے کانگریس اجلاس میں گاندھی نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھاکہ قانوناََ مسلمانوں کو گائے کے ذبیحہ سے روکنا ایسا ہی ہے جیسے پاکستان میں ہندوؤں پر شرعی قانون نافذ کر دیا جائے۔ ہندوستان میں آج کل تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر گائے کے معاملہ میں ہندو انتہاء پسندوں کی طرف سے ہجومی تشدد کی قاتلانہ مہم میں اسی طرح روز بروز اضافہ ہوتا رہا تو پھر ہندوستان سے گائے کی نسل ہی ختم ہو جائے گی اور اگر گائو رکھشک سزا کے خوف سے بے نیاز ہو کر اگر اسی طرح لوگوں کو خوف زدہ اور قتل کرتے رہے تو یہ بات یقینی ہے کہ کوئی گائے کی پرورش نہیں کرے گا۔ گائے کے کھال کے جو مالی ومعاشی فوائد ریاستی حکومتوں کے علاوہ مرکزی حکومت کو ملتے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ جوتے چپلیں اور دوسری چرمی مصنوعات وغیرہ جو کا ر خانوں میں بنائے جا رہے ہیں، وہ بھارت دیش کے عوام رنگ و نسل اور مذہب و ملت کے بغیر استعمال کرتے ہیں،، حیران کن امر یہ ہے کہ بھارت ہی دنیا میں بیف برآمد کر نے والوں میں سر فہر ست ہے اور دل تھام کر سنئے اس ٹریڈ لائین میں ہندو کھتری ہی پیش پیش ہیں ،سوال یہ ہے کہ پھر مسلمانوں پر اتیا چار کیوں ؟
بھارت دیش کو انگریزوں سے آزادی دلانے میں تین لاکھ سے زائد مسلمانوں نے اپنی جانیں نچھاور کیں مگر انہیں اس کا کیا صلہ ملا؟ احسان فراموشی، دشمنی اور منا فرتیں اوحال یہ ہے کہ اس وقت بھارت دیش میں مسلمان اقلیت زندگی کے ہر شعبے میں پسماندہ اور پچھڑے ہوئے ہیں۔ جسٹس سچر کمیٹی نے اپنی چشم کشارپورٹ میں مسلمانوں کی اسی حالت زار کی بہت حد تک نشاندہی کی ہے ۔دستیاب اعداد وشمار کے مطابق یہاں دیہاتوں میں رہنے والے 93 فیصد ی مسلمانوں کے پاس زرعی اراضی نہیں۔ 95 فیصدی مسلمانوں کو رعایتی راشن سکیم (AAY) کے تحت راشن مہیا نہیں کیا جاتا ہے، اگرچہ بھارت میں خط ِافلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ،اس وقت یہاں تین کروڑ سے زائد مسلمان جن کی عمر 16 سال سے 40 سال تک ہے جوعام طور سے بے روز گار ہیں، مرکزی سرکار کے دفاتر اور اداروں میں مسلم ملازمین کی شرح تین فیصدی سے کم ہے جب کہ عیسائی و سکھ اقلیت کی شرح ملازمین مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ چنانچہ بھارت میں اقلیتوں کے اعداد شمار یہ بتاتے ہیں کہ 16.70 کروڑ دلت 20 کروڑ سے زیادہ مسلمان ،ایک کروڑ 90 لاکھ عیسائی، 2-40 کروڑ سکھ 80؍ لاکھ بودھ اور چالیس لاکھ جین پورے دیش پر ایک ہی فرقہ کا مذہبی لہجہ اور سیاسی بیانیہ غالب ہو، وہاں کی مینارٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟ بھارت کی تمام ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں کے سرکاری و نیم سرکاری دفاتر اور اداروں میں مسلم ملازمین کی شرح آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔ آسام۔ معربی بنگال۔ اتر پردیش بہار اور کیرا لا کی ریاستوں میں مسلمان کل آبادی کا 18 فیصد سے 30 فیصد کے شرح سے موجود ہیں مگر سرکاری و نیم سرکاری دفاتر میں مسلمانوں کا کا تناسب شرح ملازمین مشکل سے چھ فیصدی ہے، مغربی بنگال میں ایک بھی مسلمان کسی اعلیٰ عہدہ پر فائز نہیں ہے۔ مسلمانوں کو مالی اداروںو بنکوں سے قرضہ جات کی سہولت فراہم نہیں رہتی ہے۔ اس وقت مسلمان بھارت دیش میں عدم تحفظ کی شدید لہر اگر کسی کمیونٹی میں دوڑ رہی ہے تو وہ مسلمان ہیں کیونکہ جان، مال اور عصمت اگر کسی قوم کی دائو پر لگی ہے تو وہ کلمہ خوان ہیں، عدم رواداری اور لا قانونیت کا اندھے ماحول نے اگر کسی سماج کو اپنے گھیرے میں بُری طرح سے لے رکھا ہے تو وہ مسلم اقلیت کا سماج ہے ۔
اسی لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت دیش میں رنگ نسل مذہب و ملت کے بغیر اقلیتوں کے حقوق بحال کئے جائیںاور بین الاقوامی قوانین کے مطابق اقلیتوں کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ یورپین ممالک میں یہودی اور مسلم اقلیتوں کے ساتھ عمدہ سلوک نہیں ہوتا تھا لیکن بیسویں صدی کے اوائل میں روسی شہنشاہیت اور سلطنت عثمانیہ کے بکھرائوے کے بعد لیگ آف نیشنز پھر اقوام متحدہ کے تحت بین الاقوامی قوانین بنے اور متعدد بین الاقوامی معاہدے ہوئے جن کے تحت یہیودی اور مسلم اقلیتوں کو واضح طور پر حقوق دئے گئے اور ان کو ہر ملک وقوم میں برابر کا شہری تسلیم کیا گیا اور جدید دنیا میں اب بالعموم تمام ملکوں میں دینی ، ثقافتی اور لسانی اقلیتوں کے حقوق مسلمہ حقیقتیں ہیں ۔ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے حقوق یکے بعد دیگرے مودی دور حکومت میں خاص طور سلب کئے گئے ہیں۔یہاں کے دلتوں آدیواسیوں ، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ سو تیلی ماں کا برتائو ہورہاہے اور یہ سب ہند و توا کی علمبردار آر ایس ایس کا کیا دھرا ہے جو وشال دیش کے شہریوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق وانتشار سے اپنا ووٹ بنک بنانے کی پالیسیوں پر کئی دہائیوں سے عمل درآمدکرتا چلا آرہا ہے۔ حد یہ ہے کہ آر ایس ایس کے بڑے ذمہ دار تک علی الاعلان کتے پھر ر ہے ہیں کہ اگر مسلمان پرسنل لا پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ووٹ دینے کے حقوق سے محروم ہونا ہوگا ، سہ طلاق کے شرعی احکام میں بھاجپا کی مداخلت بے جا بھی مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر کاری ضرب ہے۔ دراصل آر ایس ایس بھارت ایک ہندو راشٹر بنانے کے خواب کی تکمیل میں مسلمانوں کو اسی طرح قربان کر نے کا روا دار ہے جیسے برما کے بودھ روہنگیا مسلموں کو صفحہ ٔ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا کر اپنی جنونی جنگ کی جیت کا پرچم بلند کر نا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے بچنے کی ایک ہی راہ ہے کہ وہ انسان دوستی اور حب الوطنی کی مشعل تھام کر جمہوری انداز میں جدوجہد کر کے اور امن وآشتی اور اتحاد واتفاق سے لیس ہوکر بھارت کے ہندو اُگر واد کا کچا چھٹا دنیا پر ظاہر کر یں اور اپنی مظلومیت کی اصل داستان ہندو دھرم کے امن پسند ، وسیع الخیال اور سیکولر پیروکاروں کے سامنے لانے کی ہر ممکن کوشش کریں تاکہ رائے عامہ عدم رواداری اور دھارمک ہنسا کے خلاف منظم ہو اور مسلمان اور دلت اقلیتیں جیو اور جینے دو کے اصول کے زیر سایہ زندہ رہیں ۔
�����