پلوامہ میں14فروری کے خودکش حملے سے 28فروری کو پاکستانی حدود میں انڈین ائیرفورس کی فضائی سٹرائیک اور بعد میں ابھی نندن کی رہائی تک جو کچھ ہوا اس سے ایک ہی بات واضح ہوجاتی ہے: وہ یہ کہ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان اپنے پہلے اور نریندر مودی اپنے آخری امتحان میں کم از کم پاس مارکس لینے میں کامیاب ہوگئے۔ میڈیا پر خوب تماشا ہوا، مسالے دار سرخیوں کا تانڈو بھی ہوا اور سوشل میڈیا پر جنوب ایشیا کے مسابقتی نیشنلزم کا زور دار مظاہرہ بھی ہوا۔ یہ سارا قضیہ کچھ اس طرح سے اختتام کو پہنچا کہ کرگل جنگ کی طرح کوئی یہ طے نہیں کرسکا کہ اس میں کس کی جیت یا کس کی ہار ہوئی۔ اُدھر عمران خان کے لئے نوبل انعام برائے امن کی وکالت ہورہی ہے، اور اِدھر مودی ہزار ہا سیاسی رُکاوٹوں کے باوجود پھر ایک بار انتخابی جیت کے قریب تر سمجھے جارہے ہیں۔ایسی باتیں بھی عالمی میڈیا میں ہوئیں کہ امریکہ نے بھارت کو عمل پر اُکسایا اور چین نے پاکستان کو ردعمل پر، اور بالآخر دونوں نے نیوکلیائی پڑوسیوں کو ضبط و تحمل کے لئے بھی مجبور کیا۔
لیکن اس ساری صورتحال کا بنیادی محرک کشمیر تھا، اور کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے، اس پر سے گویا توجہ ہی ہٹ گئی۔ ایسی خوش اُمیدیوں کی بازگشت بھی تھی کہ بھارت نے جارحانہ رویے سے کشمیر کو انٹرنیشنلائز کیا، لیکن حق یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں بڑی طاقتوں کی دفاعی اور اقتصادی انوسٹمنٹ ہے، اور ظاہر ہے جب بڑی طاقتیں ثالثی کی پیشکش کرتی ہیں اُن کا مطمع نظر کشمیر کا تصفیہ نہیں بلکہ جنگ کو روکنا ہوتا ہے۔ پاکستانی حکومت پہلے بھی کہتی رہی ہے کہ انتخابات سے قبل مذاکرات ممکن نہیں کیونکہ بھارت کا نیا انتخابی بیانیہ پاکستان اور کشمیر کی مخالفت پر ہی کھڑا ہے، لیکن پلوامہ حملے کے بعد جس برق رفتاری کے ساتھ دونوں ملک جنگ کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد واپس اپنے اپنے گھر لوٹے ، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی بدلتی جیو پولیٹکس کے پس منظر میں دونوں ملکوں کے درمیان قدرے طاقت کا توازن ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے کو بعض رعایات دینے پر آمادہ ہیں۔
حالانکہ فی الوقت یہ رعایات صرف پاکستان کی طرف سے دی جارہی ہیں اور بھارت کی طرف سے یہ واضح نہیں کہ وہ پاکستان کو کشمیر میں رعایت دے گا یا افغانستان اور بلوچستان میں۔عمران خان کی حکومت نے پاکستان میں جیش محمد ،لشکر طیبہ اور جماۃ الدعوہ سمیت35مسلح تنظیموں پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ مزیدچار کو واچ لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ یہ سب پاکستان کے ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ یا نیپ کے تحت ہورہا ہے، جس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ پاکستان کو ’’دہشت گردی‘‘ سے پاک کرنا ہے، اور پڑوسی مملکتوں میں مسلح کاروائیوں کے لئے ملک کی سرزمین کواستعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ظاہر ہے جیش محمد یا لشکر طیبہ افغانستان،عراق یا شام میں نہیں بلکہ کشمیر میں سرگرم رہی ہیں، اور دونوں جماعتوں کا موقف ہے کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حصول کی خاطر برسرپیکار ہیں۔دیگر تنظیموں کا کردار تو مسلکی تشدد یا پاکستانی سٹیٹ کے خلاف کاروائیوں میںنمایاں ہے، لیکن جیش اور لشکر کو ’’دہشت گرد‘‘ فہرست میں شامل کرکے پاکستان نے دبے الفاظ میں کشمیر کی عسکریت سے پنڈ چھڑانے کا آغاز کرلیا ہے۔ بھلے ہی متنازعہ سرجکل سٹرائیک سے نریندر مودی کو کوئی فائدہ نہ پہنچا ہو، لیکن مسلح گروپوں کے خلاف پاکستان کی عملی کاروائی نے مودی کی جھولی میں سفارتی جیت ڈال دی ہے۔
ابھیندن کی رہائی سے پاکستان کی عالمی امیج بہتر ہوئی ہے تاہم اب سوال یہ ہے کہ کشمیر کو کیا ملے گا؟ پلوامہ حملے کے بعد والے دو ہفتوں کے دوران کشمیر میں نصف درجن تصادم ہوئے جن میں 16عساکر مارے گئے جبکہ فورسز کے بھی چودہ اہلکار ہلاک ہوگئے۔ 23سال بعد ایک بار پھر جماعت اسلامی جبر وقہر کی گرفت میں ہے، حریت قیادت کے گرد قدغنوں کا دائرہ مزید تنگ کیا گیا، جیلوںمیں قید نامور اور گمنام کشمیری رہنماوں اور کارکنوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا، اور کشمیریوں کی علاقائی شناخت پر سپریم کورٹ کی تلوار لٹک رہی ہے۔
بعض لوگ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان گزشتہ سات دہائیوں کے دوران صلح و جنگ کے ادوار کا تجزیہ کرکے یہ کہتے ہیں کہ جنگ یا صلح کے ہر دور نے کشمیریوں کو مزید پسپا کردیا اور بھارت کی گہری ریاست کشمیریوں کی غالب سیاسی خواہشات کو کچلنے کے لئے نئے نئے حربے آزماتی رہی۔1990میں مسلح مزاحمت کا آغاز گویا حکومت ہند کے لئے خداداد لائسینس تھا، کہ اسے کشمیر میںمزید فوج کشی اور ظلم و تشدد کی کھلی چھوٹ مل گئی۔ اور پھر پارلیمنٹ اورممبئی کے تاج ہوٹل پر ہوئے حملوں نے بھارت کے دہشت گردی ڈسکورس کو عالمی سطح پر قابل قبول بنادیا۔
پاکستان کے بعض سابق فوجی افسروں کی تحریروں سے لگتا ہے کہ پارلیمنٹ، ممبئی ، اُوڑی یا پلوامہ کے حملے ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھے، یعنی بقول اُن کے بھارت نے خود کروائے تھے، تاکہ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جاسکے۔ لیکن اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا نصف آخر کشمیر پر مرکوز ہے(اس کا نصف اول افغانستان پر مرکوز ہے)تو کشمیریوں کو عبوری راحت یا ان کی تحریک یا قربانیوں کو تحفظ دینے کی باپت پاکستان نے اب تک کیا کیا۔
عمران خان نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے مخاطب ہوکر کہا کہ ’’اب تک جو ہوا سو ہوا، ہم مختلف راستہ اختیار کریں گے‘‘۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی جب پاکستان کی طرف سے ایسی آوازیں آئیں تو کشمیری فضائیں مخدوش ہوگئیں۔ اگر واقعی پاکستان دنیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ وہ کشمیر میں مسلح مزاحمت کی حمایت نہیں کرتا اور نہ اس بات کا قائل ہے کہ کشمیری پرُتشدد ذرایعہ سے تحریک کو آگے بڑھائیں، تو پھر ’’فالس فلیگ آپریشنوں‘‘ کے لئے میدان کھلا کیوں چھوڑا جارہا ہے۔ تشدد ویسے بھی کسی مسلے کا حل نہیں ، لیکن کشمیر میں چونکہ مسلح مزاحمت کو سماجی اعتباریت(Social Sanctity)حاصل ہے، یہاں کے سیکورٹی سٹرکچر کو کونٹر انسرجنسی کے نام پر کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ خودکش بمبار عادل احمد کے والد غلام حسن نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ عادل نانی ہال سے واپس آرہا تھا کہ اسے فورسز نے پکڑلیا ، اسے زمین پر ناک رگڑنے پر مجبور کیاگیا اور زدکوب کرکے چھوڑ دیا گیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس واقعہ نے عادل کو خودکش بمبار بنا دیا۔ اب جبکہ بھارت اور پاکستان کشمیر پر ہونے والی آدھی جنگ میں ایک ایک پوائنٹ سکور کرچکے ہیں، عام کشمیری کا یہ سوال حق بجانب ہے کہ کشمیر کو کیا ملے گا؟ کیا پاکستان کشمیری تحریک کی ماہیت کے حوالے سے پالیسی شفٹ کرکے بھارت سے یہ جواز چھین لے گا کہ وہ سیکورٹی کے نام پر نوجوانوں کو زمین پر ناک رگڑوا کر انہیں خود کش بمبار بنا دے؟ کیا بھارت اپنی کشمیر کش پالیسیوں کو معطل کردے گا؟
جنگ پوری ہو یا آدھی، یا پھر دونوں ملک ایک دوسرے کے دفاعی تحفظات کی خاطر مذاکرات کریں، یہ سب کشمیر پر ہی ہورہا ہے نا؟ مگر ستم یہ ہے کہ کشمیر میں پرنالہ پرنالے کی جگہ رہتا ہے۔ پنجابی میں ایک کہاوت ہے: جس گل واسطے سُتھن سیتی او گل رہ گئی ننگی!
ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر