کمار وی پرتاپ؍؍راجیش کمار سنگھ
کئی حالیہ اخباری مضامین میں یہ بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ موبائل فون کی برآمدات کو فروغ دینے کے لئے لائی گئی پروڈکشن لنکڈ انسینٹیو (پی ایل آئی) سکیم پر سوال کھڑے ہوتے ہیں، کیونکہ اس سے ہندوستان میں ویلیو ایڈیشن کا معیار کمتر ہورہا ہے۔
اس طرح کی تنقید کے اہم عناصر میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں: – صرف زیادہ ٹیرف کے نفاذ کی وجہ سے موبائل کی خالص درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔دوسری یہ کہ پی ایل ا ٓئی سکیم میں ترغیباتی ادائیگی بھارت میں ویلیو ایڈیشن میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ تیسری یہ کہ پی ایل آئی سکیم کے اعلان کے بعد بھارت درآمدات پر منحصر ہوگیا ہیاور یہ کہ اس بات کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیاپی ایل آئی اسکیموں کے تحت ملازمتیں پیدا کی گئی ہیں اور اس طرح کی ملازمتوں کے لئے متعلقہ لاگت کیا ہے۔ یہ نکات بڑی حد تک غلط ہیں۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
ٹیرف پالیسی میں تبدیلیاں مینوفیکچرنگ اور برآمدات میں ملکی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ 2015 کے مقابلے میں، اب ہندوستان میں استعمال ہونے والے 99.2 فیصد موبائل ہینڈ سیٹس میڈ ان انڈیا ہیں۔
پی ایل آئی مراعات 6 فیصد بھی نہیں ہیں (مرحلہ وار طریقے سے 2 فیصد سے نیچے لایا جائے گا) اور یہ صرف بڑھتی ہوئی پیداوار پر ہے۔ جبکہ پی ایل آئی سکیم کے استفادہ کنندگان مارکیٹ شیئر کے لحاظ سے صرف 20 فیصد ہیں، مالی سال 2022-23 میں موبائل فون کی برآمدات میں ان کا حصہ 82 فیصد تھا۔ تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ موبائلوں کا گھریلو ویلیو ایڈیشن 14 سے 25 فیصد کے درمیان ہے، اور یہ ماڈل اور پیچیدگی پر منحصر ہے۔ چارجرز، بیٹری پیک، ہیڈ سیٹس، میکینکس، کیمرہ ماڈیول، ڈسپلے اسمبلی کے لیے ذیلی اسمبلیوں اور سپلائی چینز میں مضبوط ترقی دیکھی جا رہی ہے۔ برآمدات کے لیے نئی منڈیاں شامل کی گئی ہیں، جن میں مغربی یورپ، امریکہ اور ترقی یافتہ ایشیا شامل ہیں، اس کے علاوہ عالمی سپلائی چین کو ہندوستان میں منتقل کیا گیا ہے۔ کل پرزوں کے ماحولیاتی نظام میں گرین شوٹس بھی دیکھی جارہی ہیں جہاں ٹاٹا جیسی بڑی ہندوستانی کمپنیوں نے قدم رکھا ہے اور اس طرح کی پالیسی مداخلت سے پیدا ہونے والی بیرونی چیزیں نمایاں ہیں۔
ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پی ایل آئی اسکیم کی غیر موجودگی میں موبائلس اور اس کے کل پرزوں کی درآمدات کا کیا ہوا ہوگا اور سپلائی چین کے قیام کے لیے وقت کی مدت دیگر ممالک کے تجربے سے واضح ہے۔ چین نے 25 سالوں میں 1.3 ٹریلین امریکی ڈالر کی الیکٹرانکس انڈسٹری بنائی ہے، لیکن پھر بھی اسمارٹ فون کے اہم اجزاء جیسے سیمی کنڈکٹرز، میموری اور او ایل ای ڈی ڈسپلے تیار کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے، جو اس کی قیمت کا 45 فیصد ہیں۔ چین کے الیکٹرانکس کی درآمد 2022 میں 650 بلین امریکی ڈالر تھی۔ ویتنام کی، 15 سال بعد، 18 فیصد ویلیو ایڈیشن کے ساتھ 140 بلین امریکی ڈالر کی الیکٹرانکس صنعت ہے۔ دونوں ممالک کے تجربات ملکی ویلیو ایڈیشن کے لیے بالخصوص برآمدات میں پیمانے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ بہت ساری تنقیدی رپورٹیں پالیسی مداخلت کی ایک جامد تصویر پیش کرتی ہیں، جبکہ نقطہ نظر متحرک ہونا چاہیے۔
ایک مضبوط الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ ماحولیاتی نظام کو فروغ دینے کے لیے، اس بات کی تعریف کی جانی چاہیے کہ پیداواری عمل کے مختلف عناصر لوکلائزیشن کے مختلف مراحل میں ہیں، جبکہ ابتدائی توجہ بڑے پیمانے پر موبائل فون کی اسمبلنگ کو ہندوستان کی طرف راغب کرنے پر مرکوز ہے۔اگلا مرحلہ کل پرزوں کی لوکلائزیشن کے ساتھ مینوفیکچرنگ ویلیو چین کو گہرا کرنے کا ہے۔ زیادہ تر تنقیدی رپورٹوں میں اس ترقی پسندانہ منتقلی کی باریک فہم غائب دکھائی دیتی ہے۔
ہندوستان کی حکومت نے الیکٹرانکس سسٹم ڈیزائن اور مینوفیکچرنگ (ای ایس ڈی ایم) کے لیے ہندوستان کو ایک عالمی مرکز کے طور پر پوزیشن دلانے کی خاطر ایک ماحولیاتی نظام اپنایا ہے۔ 2014-15 میں الیکٹرانکس کی پیداوار 37 بلین امریکی ڈالر تھی، جس میں ویلیو ایڈیشن کم سے کم اور درآمدی انحصار زیادہ تھا۔ پچھلے 9 سال میں ہندوستان نے الیکٹرانکس کی پیداوار میں نمایاں پیش رفت کی ہے جو کہ 2022-23 میں تقریباً تین گنا بڑھ کر 101 بلین امریکی ڈالر (صنعت کے تخمینے کے مطابق) تک پہنچ گئی ہے، برآمدات چار گنا بڑھ کر 23 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور ویلیو ایڈیشن تقریباً 23 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔ عالمی الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ میں ہندوستان کا حصہ 2012 میں 1.3 فیصد سے بڑھ کر مالی سال 2021-22 میں 3.75 فیصد ہو گیا ہے۔
الیکٹرانکس کے لیے پی ایل آئی اسکیم کے آغاز کے نتیجے میں، ہندوستان دنیا میں حجم کے اعتبار سے دوسرے سب سے بڑے موبائل فون مینوفیکچرر کے طور پر ابھرا ہے۔ مالی سال 2014-15 میں جہاں 60 ملین موبائل فون کی مینوفیکچرنگ ہوئی تھی وہیں مالی سال 2021-22 میں موبائل فون کی مینوفیکچرنگ بڑھ کر تقریباً 320 ملین ہوگئی ہے۔ اسی طرح سے 2014 میں ہندوستان میں جہاں دنیا بھر کے موبائل سیٹ کا 3 فیصد مینوفیکچر ہوتا تھا، وہیں اس سال اس کے 19 فیصد تک ہوجانے کا امکان ہے۔ مالیت کے لحاظ سے موبائل فون کی پیداوار مالی سال 2014-15 میں 190 بلین روپے سے بڑھ کر مالی سال 2022-23 میں 3.5 ٹریلین روپے تک پہنچ گئی ہے۔ 101 بلین امریکی ڈالر کی الیکٹرانکس کی کل پیداوار میں سے، اسمارٹ فون کا حصہ 44 بلین امریکی ڈالر ہے، جس میں 11.1 بلین امریکی ڈالر کے برابر کی برآمدات بھی شامل ہیں۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں کہ ہندوستان میں موبائل مینوفیکچرنگ کا کام بڑھنے کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، جس سے گھریلو ویلیو ایڈیشن، روزگار اور آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایل ایس ای ایم کے لیے پی ایل آئی اسکیم نے مالی سال 2022-23 کے آخر تک 65.62 بلین روپے کی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے، جس کی وجہ سے 2.84 ٹریلین روپے کی کل پیداوار ہوئی ہے، جس میں 1.29 ٹریلین روپے کی برآمدات بھی شامل ہیں اور 100,000 سے زائد براہ راست اور تقریباً 2,50,000بالواسطہ روزگار پیدا ہوا ہے۔ جتنی بھی نئی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں ان میں خواتین کا حصہ 70 فیصد ہے، جس سے ہندوستان میں رسمی شعبے کے روزگار میں صنفی توازن کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ 2014 سے اب تک اس شعبے میں 10 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں بڑھی ہیں۔
ایپل کی طرف سے بھارت میں جدید ترین ماڈلز کی تیاری سمیت آئی فون کی پیداوار کو نمایاں طور پر بڑھانے کے فیصلے سے زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ تخمینہ یہ ہے کہ 2025 تک تمام ایپل آئی فونز کا ایک چوتھائی ہندوستان میں بنایا جائے گا۔
خلاصہ یہ کہ پی ایل آئی سکیموں کی کامیابی، روزگار پیدا کرنے، مینوفیکچرنگ میں ایف ڈی آئی میں اضافہ، برآمدات میں اضافہ اور ایکسپورٹس باسکیٹ میں تنوع کے ساتھ ساتھ اہم ویلیو ایڈیشن اور خاص طور پر موبائل سمیت متعدد پی ایل آئی مصنوعات کے بڑھتے ہوئے مقامی ویلیو چین کی تخلیق کے حوالے سے دیکھا جاسکتا ہے۔
(مضمون نگار بالترتیب سکریٹری، محکمہ برائے فروغ صنعت و اندرونی تجارت، حکومت ہند اور اسی محکمہ میں سینئر اقتصادی مشیر ہیں)