برصغیر کے نامور اسلامی سکالر ڈاکٹر اسرار کا ایک ویڈ یو وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے کشمیر میں جاری عسکری ٰتحریک کی شرعی حیثیت پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے جہاد فی سبیل اللہ کے بجائے آزادی کا جہاد قرار دیا ہے ۔انہوں نے اس موضوع پر تفصیل سے بحث کرتے ہوئے اور بھی کئی ایسی باتیں کہی ہیں جنہیں یہاں دہرانا مناسب نہیں البتہ یہ سوال ضرور ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ یہ باتیں بہت عرصہ پہلے انہوں نے ایک خطاب میں کہی ہیںاُس وقت سوشل میڈیا اتنا مقبول نہیں تھاجتناکہ آج ہے اس لئے عام لوگوں تک یہ باتیں نہیں پہونچیں لیکن آج اس وقت جب کشمیرمیں عسکری تحریک شدید فوجی دباو کا سامنا کررہی ہے یہ ویڈیو کہاں سے ، کیوں اورکیسے وائرل ہوا ۔اس بار اس ویڈیو کو لاکھوں لوگوں نے دیکھا اورسنا اور ایسے لوگوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے جن کی عسکری تحریک سے متعلق وہ سوچ ہچکولے کھانے لگی جس پر ان کا اعتقاد تھا ۔اس ویڈیو کو دیکھ کر یہ بات بھی ذہن میںآتی ہے کہ جس وقت انہوں نے یہ باتیں کہیں اس پر ان کے ہم عصر علماء جن میں سے زیادہ تر خود کشمیر کی عسکری تحریک سے کسی نہ کسی طرح وابستہ تھے نے کوئی جواب کیوں نہیں دیا ۔اگر وہ اپنے نقطہ نظر کے دفاع میں کچھ کہتے تو ڈاکٹر اسرار اس کا بھی جواب دیتے اوراس طرح ایک بحث چھڑ جاتی اور یہ بحث کسی متفقہ رائے تک بھی پہونچ پاتی لیکن کوئی بحث نہیں ہوئی اور اختلاف کو اپنے جگہ رکھ کر اپنے اپنے نظرئیے کی تبلیغ کی جاتی رہی ۔جو کشمیر کی تحریک کی سرپرستی یا حمایت کرتے ہیں وہ بھی بہت بڑے علماء ہیں اور ان کے پاس بھی بڑے مضبوط دلائل ہیں ۔بہرحال شریعت علماء کا موضوع ہے اور اس پر بات کرنے کی ہماری اوقات نہیں ۔ہم جس بات کو موضوع بناسکتے ہیں وہ اس ویڈیو کا وہ حصہ ہے جس کے چند جملے اس طرح ہیں ۔’’ کشمیر میں مسلح تحریک کا طریقہ کار یہ ہے کہ فوج کے جوان اگرگاڑی میں کہیں جارہے ہوتے ہیں تو ان پر گرنیڈ پھینکا جاتا ہے جس سے کچھ ہلاک اور کچھ زخمی ہوتے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد فوج علاقے کا محاصرہ کرتی ہے اور گھر گھر تلاشی کے لئے مکانوں کے اندر گھس جاتی ہے جہاں با پردہ مائیں اور بہنیں ہوتی ہیں ۔ فوج کو جواز ملتا ہے گھروں کے اندر جانے کا اور اس طرح سے بے آبروئی کی وہ صورتحال پیدا ہورہی ہے جس پر ہم واویلا کرتے ہیں ۔اس سے کیا حاصل ہوتا ہے ۔ دنیا کے سامنے اسے دہشت گردی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور دنیا اسے قبول بھی کرلیتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر کشمیر میں ایک عوامی تحریک ہوتی تو پوری دنیا اس کا ساتھ دیتی اور اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آچکے ہوتے ۔میں دل سے یہ بات کہہ رہا ہوں۔ لوگ مجھ سے بار بار استدعا کرتے ہیں کہ میں ایسی باتیں نہ کہوں کیونکہ ان سے جذبات کو ٹھیس پہونچتی ہے لیکن جو سچ ہے میں اسے کسی مصلحت کیلئے چھپا نہیںسکتا ‘‘ ڈاکٹر اسرار کا یہ نظریہ کشمیر کے موجودہ حالات اورتیس سال پر محیط عسکری تحریک پر ایک نظر ڈالنے کی تحریک دیتا ہے ۔ موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو جو منظر سامنے آئے گا وہ بہت ہی دلخراش ہے ۔ایک طرف فورسز کے جنگجو مخالف آپریشنوں میں بہت تیزی آئی ہے اور آئے روز کئی کئی جنگجو فورسز کے ساتھ معرکوں کے دوران جاں بحق ہورہے ہیں ۔جنگجو اسے مخبری کا شاخسانہ قرار دیکر مشتبہ افراد کو اغوا کرکے ان سے پوچھ تاچھ کررہے ہیں اور اب تک کئی نوجوانوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارچکے ہیں ۔ چھٹیوں پر گھر جانے والے پولیس اہلکاروں کو گھر کے اندر گھس کر یا تو اغوا کرنے کے بعد قتل کیا جارہا ہے یا موقعے پر ہی گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے ۔جنگجو بھی پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کو ہراساں کررہے ہیں اور پولیس بھی جنگجووں کے گھروں کے اندر توڑ پھوڑ کرتی ہے اب ایک اور خطرناک صورتحال بھی سامنے آچکی ہے ۔ نامعلوم بندوق بردار اہم مزاحمتی ارکان کو موت کے گھاٹ اتار کر غائب ہوجاتے ہیں ۔اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ سرکاری بندوق برداروں کی کارستانی ہے ۔ سرکاری بندوق برداروں نے ہی نوے کی دہائی میں عسکریت کی بالادستی کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ بعد میں حالات کے قابو میں آنے پر سرکاری بندوق کو منظر سے ہٹادیا گیا تھا اور اس کے اہم ارکان کو سیاست میں لایا گیا تھا ۔ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ سرکاری بندوق ایک منظم قوت کی صورت میں کا م کررہا ہے یا نہیں تاہم اتنا ضرور ہے کہ خون خرابے کا کینواس پھیلتا چلا جارہا ہے اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ خود کشمیری ہی دونوں طرف سے اس کا شکار ہورہا ہے ۔یہ حالت اگر جاری رہتی ہے تو خانہ جنگی کی بدترین صورتحال پیدا ہونا یقینی نظر آتا ہے ۔ صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مزاحمتی قیادت کی اپیل پر ہمہ گیر ہڑتالیں آج بھی ہورہی ہیں لیکن الیکشن بائیکاٹ کی اپیل پر عمل درآمد اس کے باوجود بھی نہیں ہوا کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے امیدواروں اور ووٹروں دونوں کو متنبہ کیا گیا تھا کہ وہ باز رہیں ورنہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔پنچایتی انتخاب کے اب تک کے دو مرحلوں میں وادی میں ساٹھ فیصد سے زیادہ کی شرح سے ووٹ ڈالے گئے جبکہ ریاست میں یہ شرح ستر فیصد سے زیادہ تھی ۔تیسر اپہلو یہ ہے کہ جو ہندوستان نوے کی دہائی میں آسماں کو حد مقرر کرکے بہت کچھ دینے کو تیار تھا وہ آج دفعہ 35اے کو بھی برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ۔اقوام عالم کشمیر کے معاملے میں کوئی مداخلت کرنے کیلئے تیار نہیں ۔اس طرح اگر یہ کہا جائے کہ تیس سال کے طویل عرصے میں لامثال مالی اور جانی قربانیاں پیش کرنے اور عزتوں اور عصمتوںکے آبگینے لٹائے جانے کے باوجود مقصد کے حصول کی کوئی رمق بھی کہیں نظر نہیں آرہی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔آج ہمارے پاس چند موہوم سی امیدوں اور خوابوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔اگر لامثال قربانیوں کا یہی صلہ ہے کہ ہم خون خرابے کے لامتناہی سلسلے کی نذر ہوکر ہمیشہ کے لئے برباد ہوجائیں تو کھلے دل کے ساتھ یہ تسلیم کرلینا غلط نہیں کہ ہم کامیاب نہیں ۔ اگر ہم کامیاب نہیں تو یہ لازم ہے کہ ہم گزشتہ تیس سال کی جدوجہد اور طریقہ کار کا تجزیہ کرکے مناسب تبدیلیوں کے لئے راضی ہوجائیں ممکن ہے کہ اس طرح ہم نوجوانوں کے قربانی کے جذبوں کا خاطر خواہ صلہ حاصل کرسکیں ۔