مسعود محبوب خان (ممبئی)
پہاڑ، ندی، جنگلات اور ہوائیں— تمام فطرت کے وہ مظاہر ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط نظم میں رواں دواں ہیں۔ لیکن جب انسان اس نظام کو اپنے مفاد، غرورِ تعمیر، یا سیاحتی حرص کی خاطر روندتا ہے تو یہ خاموش قوتیں شوریدہ ہو جاتی ہیں۔ سیلاب، زلزلے اور طوفان صرف قدرتی آفات نہیں، بلکہ ہمارے اعمال پر قدرت کا عکسی ردّعمل بھی ہوسکتے ہیں۔ کھیرگنگا (اتر کاشی) کا حالیہ المیہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جہاں فطرت نے ظلم سہتے سہتے بالآخر اپنی زبان کھول دی، اور پہاڑوں کی آغوش میں بہتی ندیاں ماتم کناں ہوگئیں۔
گزشتہ دنوں اترکاشی کے مقدّس اور سرسبز پہاڑی سلسلے میں، گنگوتری ندی کے قریب واقع کھیرگنگا پر ایک دل دہلا دینے والا فطری سانحہ وقوع پذیر ہوا۔ آسمان نے یکایک اپنا سینہ چاک کیا، اور بادلوں نے اپنی تمام تر شدّت و سنگینی کے ساتھ زمین پر ایسا قہر برسایا کہ پوری وادی لرز اُٹھی۔ کھیرگنگا میں ہونے والے اس کلاؤڈ برسٹ نے نہ صرف مقامی قدرتی توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا، بلکہ اس کے نتیجے میں دھرالی، ہرشیل اور سوککی جیسے پُرسکون وادی نما علاقوں کو شدید لینڈ سلائیڈنگ اور ہولناک سیلاب کی لپیٹ میں لے لیا۔
پہاڑوں سے اترتی مٹی، پتھروں اور پانی کی شوریدہ موجوں نے انسانی بستیوں کو بہا کر رکھ دیا۔ درخت جڑ سے اکھڑ گئے، سڑکیں مٹ گئیں، مکانات ملبے میں تبدیل ہوگئے، اور زندگی کے نشانات آنکھوں سے اوجھل ہوتے چلے گئے۔ نہ صرف عام شہری اس آفت کا شکار بنے بلکہ ہرشیل میں واقع فوج کا بیس کیمپ بھی اس تباہ کن سیلاب کے سامنے بے بس ہو کر مٹی میں دفن ہوگیا۔ اہلِ علاقہ کی آنکھوں میں خوف، دلوں میں بے یقینی اور لبوں پر فریاد ہے۔ وہ زمین جسے انہوں نے نسلوں سے سینچا، آج خود ان کے لیے اجنبی بن گئی ہے۔ ریاستی ادارے، راحت و بچاؤ کے کاموں میں مصروف ہیں، لیکن پہاڑوں کی گونجتی وادیوں میں اب بھی صدائیں سنائی دیتی ہیں کسی لاپتہ بچّے کی، کسی ماں کی سسکی، کسی بزرگ کی دعا۔
ظلم کی آندھی چلی، سیلاب سا منظر ہوا
بستیاں ڈوبیں، فقط خاموش سا دفتر ہوا
اترکاشی کے مقدّس اور سرسبز پہاڑی سلسلے میں، گنگوتری ندی کے قریب واقع کھیرگنگا پر بادل پھٹنے کے سانحے نے ایک بار پھر یہ تلخ حقیقت یاد دلا دی کہ فطرت کے ساتھ غیر ذمّے دارانہ چھیڑ چھاڑ کس قدر بھیانک انجام کا سبب بن سکتی ہے۔ اس ہولناک کلاؤڈ برسٹ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب نے دھرالی، ہرشیل اور سوککی جیسے علاقوں کو بری طرح متاثر کیا، جہاں نہ صرف بستیوں کو نقصان پہنچا بلکہ ہرشیل میں قائم فوج کا بیس کیمپ بھی پانی کی نذر ہو گیا۔
یہ محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک اجتماعی غفلت کا نتیجہ ہے، جو سالوں سے پہاڑی علاقوں میں جاری غلط منصوبہ بندی اور بے لگام ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔ شارٹ کٹ اپروچ اپناتے ہوئے ندی کنارے سڑکیں تعمیر کی گئیں، جن کا نہ جغرافیائی مطالعہ کیا گیا، نہ ماحولیاتی اثرات کو مدنظر رکھا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہی سڑکیں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں۔ جہاں پہلے ندی کنارے پرانے بستیوں کا سکون تھا، وہاں اب سڑکوں کے ساتھ جنکشن بن گئے، اور آہستہ آہستہ وہ علاقے تجارتی مراکز میں بدل گئے۔ حکومتوں نے ان مقامات پر اسکول، اسپتال، دفاتر اور پنچایت گھر قائم کر دیے، اور یوں ندیوں کے تلچھٹ پر انسانی آبادیاں بسانا ایک معمول بن گیا۔
دوسری طرف، سیاحت کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ان فطری مناظر کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔ “ریور ٹچ” کے نام پر ندی کنارے ہوٹلوں اور دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر شروع ہوئی، اور زمینوں پر بے دریغ قبضہ کیا گیا۔ ان سیاحتی مراکز کو مزید پرکشش بنانے کے لیے عبادت گاہوں کا جال بچھایا گیا، جس نے نہ صرف ماحولیاتی توازن کو بگاڑا بلکہ زمین کی قدرتی ساخت کو بھی مسخ کر دیا۔ اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو اس طرزِ ترقی کی ابتدا کلو، منالی اور اس کے اطراف کے علاقوں سے ہوئی، اور اب یہ خطرناک رجحان دیگر پہاڑی خطوں تک بھی پھیل چکا ہے۔
لہٰذا، کھیرگنگا کا حالیہ المیہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ترقی اور سیاحت کے نام پر فطرت کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کا سنجیدہ نوٹس لیں، اور پائیدار، فطرت دوست منصوبہ بندی کو ترجیح دیں—قبل اس کے کہ پہاڑوں کی یہ خاموش چیخیں ہمارے شہروں تک گونجنے لگیں۔ اللّٰہ ربّ العزّت نے انسان کو زمین پر خلافت عطا فرمائی، اور اس خلافت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان عدل، دیانت اور فطرت کے احترام کے ساتھ جیتا رہے۔ لیکن جب انسان اپنی حد سے تجاوز کرتا ہے، زمین پر تکبر، لالچ، اور استحصال کی راہیں اختیار کرتا ہے تو وہ نہ صرف خود اپنے لیے تباہی لاتا ہے بلکہ پورے ماحول کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔
کھیرگنگا (اترکاشی) کے سانحات ہمیں خبردار کرتے ہیں کہ یہ زمین، یہ پانی، یہ پہاڑ تمام اللّٰہ کی نشانیاں ہیں، اور ہم سے ان کے بارے میں سوال ہوگا ۔پہاڑ، جنہیں ہم زمین کا ستون سمجھتے ہیں، صدیوں سے اپنی سنگلاخ چھاتیوں میں فطرت کے راز چھپائے ہوئے ہیں۔ یہ اپنی چوٹیاں آسمانوں سے ہم کلام رکھتے ہیں، اور ان کے دامن میں بہتی ندیاں، جھرنے اور جھیلیں ایک سحر انگیز توازن کی گواہی دیتی ہیں۔ لیکن جب یہی فطرت اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے، تو ایک ہولناک چیخ کی مانند “بادل پھٹنا” انسانی بستیوں پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے۔ بادل پھٹنے (Cloudburst) کا واقعہ ایک شدید ماحولیاتی مظہر ہے، جس میں قلیل وقت میں انتہائی زیادہ بارش ایک چھوٹے علاقے میں برس پڑتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں یہ زیادہ اس لیے ہوتا ہے کہ یہاں زمینی ساخت اونچی نیچی ہوتی ہے، ہوا میں نمی کا دباؤ بڑھ جاتا ہے، اور جب مرطوب ہوائیں کسی پہاڑی سے ٹکرا کر رکتی ہیں تو بادل میں موجود نمی ایک دم زمین پر برستی ہے، جیسے فطرت رو پڑی ہو!
لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ سب کچھ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا؟ کیا یہ محض قدرت کا معمولی سا “کیمیکل ری ایکشن” ہے؟ یا اس کے پیچھے انسان کی خود غرض مداخلت بھی کارفرما ہے؟
پہاڑوں کے سینے چیر کر سڑکیں، بجلی گھر، ہوٹل، ریزورٹس اور ڈیم بنانا شاید ترقی کی علامت سمجھی جاتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی، پہاڑیوں پر بے ہنگم تعمیرات، اور آبی بہاؤ کی قدرتی راہوں کو موڑ دینا ایک ایسا جرم ہے، جس کا مقدمہ بادل اور ندی نہیں، بلکہ انسان کی نسلیں بھگت رہی ہیں۔ جدید انسانی نظام، جو صرف اقتصادی منافع اور سیاحتی ترقی کو کامیابی سمجھتا ہے، فطرت کے توازن کو درہم برہم کر چکا ہے۔ نہ مؤثر اربن پلاننگ، نہ ایمرجنسی مینجمنٹ کا نظام، نہ ماحولیاتی تحفظ کی فکر — نتیجہ یہ کہ بارش جب قدرت کی حد پار کرتی ہے تو انسان کے “سسٹم” کی ساری فائلیں بھیگ جاتی ہیں۔
تدارک فطرت سے صلح کا راستہ
پہاڑی علاقوں میں بادل پھٹنے، سیلاب، زمینی کٹاؤ اور دیگر ماحولیاتی تباہیوں کے پس منظر میں جو سب سے اہم اور پہلا قدم ہونا چاہیے، وہ فطرت سے معافی ہے۔ انسان نے جس بے دردی سے قدرتی نظام کو توڑا ہے، اب اسے نہ صرف اس کا اعتراف کرنا ہوگا بلکہ اپنی روش میں بنیادی تبدیلی بھی لانی ہوگی۔ ہمیں پہاڑوں، ندیوں، درختوں، بارشوں اور فطرت کے ہر عنصر سے اپنے تعلق کو دوبارہ سے دوستانہ، ہم آہنگ اور محافظانہ بنانا ہوگا۔ اس تعلق کی بحالی کے لیے درج ذیل اقدامات نہایت اہم ہیں:
1ماحولیاتی منصوبہ بندی (Eco-sensitive Planning): تعمیر و ترقی کے نام پر پہاڑی علاقوں میں جو اندھی دوڑ لگی ہے، اس نے قدرتی توازن کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ بلند و بالا عمارات، ہوٹل، سڑکیں اور پل بغیر کسی ماحولیاتی اثرات کے جائزے کے تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا ہر چھوٹے بڑے تعمیراتی منصوبے سے پہلے ماحولیاتی اثرات کا سائنسی، مقامی، اور اخلاقی پہلوؤں سے مکمل جائزہ لینا ناگزیر ہے تاکہ انسانی مداخلت فطرت کے نظام کو بگاڑنے کے بجائے اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
2جنگلات کا تحفّظ:درخت صرف زمین کو سبز نہیں کرتے، بلکہ پہاڑوں کی جڑوں کو مضبوط رکھتے، مٹی کے کٹاؤ کو روکتے، اور بارش کے پانی کو جذب کر کے سیلاب کو کم کرتے ہیں۔ درختوں کا کٹاؤ دراصل ایک اجتماعی خودکشی کے مترادف ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ درختوں کی حفاظت، درحقیقت انسانیت کی حفاظت ہے۔ جنگلات کو محفوظ رکھنے کے لیے سخت قوانین اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔
3. قدرتی آبی گزرگاہوں کی بحالی:ندی، نالے اور دریا اپنے قدرتی راستوں میں صدیوں سے بہتے آ رہے ہیں۔ جب انسان ان کے راستوں کو مصنوعی بندشوں، غیر ضروری پلوں اور زمین دوز تعمیرات سے روک دیتا ہے تو وہ پانی تباہ کن راستے تلاش کرتا ہے، جو انسانی بستیوں کو بہا لے جاتا ہے۔ ہمیں قدرتی آبی گزرگاہوں کو بحال اور محفوظ کرنا ہوگا اور ہر قسم کی بندش سے گریز کرنا ہوگا۔
4مقامی سطح پر موسمیاتی نگرانی کے نظام: پہاڑی علاقوں میں موسمی حالات اچانک بدل سکتے ہیں۔ ایسے میں جدید سائنسی ٹیکنالوجی کو مقامی علم و تجربے کے ساتھ ملا کر ایک مؤثر ابتدائی وارننگ سسٹم قائم کیا جانا چاہیے۔ مقامی افراد کو تربیت دی جائے تاکہ وہ بروقت خطرات کو پہچان سکیں اور دوسروں کو بھی آگاہ کر سکیں۔
5ماحولیاتی تعلیم و شعور:یہ سب اقدامات اسی وقت مؤثر ہوں گے جب عام لوگوں، سیاحوں، مقامی باشندوں اور تعمیراتی کمپنیوں میں ماحولیاتی شعور بیدار کیا جائے۔ ماحولیاتی تحفظ صرف حکومت یا ماہرین کا کام نہیں بلکہ ہر فرد کی اخلاقی، سماجی اور انسانی ذمّہ داری ہے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ فطرت کے ساتھ جنگ نہیں، امن کا معاہدہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہم جتنا جلد اس حقیقت کو تسلیم کریں گے، اتنا ہی کم نقصان اٹھانا پڑے گا۔ فطرت سے معافی مانگ کر، اس کے ساتھ دوبارہ رشتہ جوڑ کر ہی ہم آئندہ نسلوں کو محفوظ پہاڑ، شفاف ندیاں، گھنے جنگلات اور معتدل موسم دے سکتے ہیں۔ یہی ہماری اجتماعی توبہ اور عملی اصلاح کی راہ ہے۔
بادلوں کا پھٹنا محض ایک موسمی حادثہ نہیں، بلکہ یہ فطرت کی دہائی ہے کہ ہم نے اس کے حسن کو بے دردی سے روند ڈالا۔ پہاڑوں میں ماتم کرتی ندیاں دراصل انسان کی بے حسی پر نوحہ خواں ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی نہ سنا، تو اگلی بار وہ صرف پانی نہیں لائیں گی — اپنے ساتھ تہذیب، تمدن اور تعمیر کے سارے خواب بہا لے جائیں گی۔ وقت ہے کہ ہم فطرت کے ساتھ اپنی “پانی کی من مانی” بند کریں، اور سنبھل کر، سنوار کر، فطرت کی آغوش میں ایک ہم آہنگ، پائیدار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھیں۔
اس لیے ہمیں اپنے رویّوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اللّٰہ کی عبادت کے دعویدار ہوں، مگر اس کے بندوں کو حقیر سمجھتے ہوں؟ کہیں ہم زبان سے نیکی کی بات کرتے ہوں، لیکن دوسروں پر ظلم، استہزاء، تذلیل یا تمسخر روا رکھتے ہوں؟ یہ وہ رویے ہیں جو نہ صرف انسانوں کو دکھی کرتے ہیں، بلکہ اللّٰہ کی ناراضی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم انسانوں کے ساتھ محبت، عزّت، ہمدردی، اور عدل کے ساتھ پیش آئیں۔ اختلاف ہو تو بھی تہذیب نہ چھوٹے، تنقید ہو تو بھی تمسخر کا رنگ نہ ہو، اور کسی کمزور پر کبھی بھی ظلم نہ ہو۔
ہم سب اس زمین کے نگہبان ہیں، خواہ پالیسی ساز ہوں یا عام شہری، سیاح ہوں یا مقامی باشندے۔ لازم ہے کہ ہم اجتماعی توبہ کریں، فطرت سے مصالحت کریں، اور ترقی کے نام پر بربادی کے راستے بند کریں۔ آئیے، ہم سب یہ عہد کریں کہ ہماری ترقی، فطرت کی تباہی کا دوسرا نام نہ بنے؛ ہماری تعمیر، تخریب کی بنیاد نہ رکھے؛ اور ہماری خاموشی، آئندہ نسلوں کے نوحے میں نہ ڈھل جائے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں فطرت کے ساتھ عدل، توازن اور رحم کے ساتھ پیش آنے کی توفیق عطاء فرمائے، اور ہمیں ان اعمال سے بچائے جو ہمیں زمین اور آسمان دونوں کے غضب کا شکار بنا دیں۔ (آمین یا ربّ العالمین)
کہیں انسان کا قہر، کہیں فطرت کا غضب
سیلاب اور ظلم میں کچھ فرق باقی نہ رہا
رابطہ۔ 09422724040
[email protected]