رئیس یاسین
تعلیم، جو کبھی ذہنوں کو منور کرنے اور روحوں کو سنوارنے کا ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا، آج اپنی اصل روح کھو چکی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام زندگی کے آخری لمحات میں ہے — ایک ایسا نظام جو کبھی اخلاق، علم، اور انسانیت کی بنیاد پر قائم تھا، آج تجارت، اخلاقی زوال، اور مفاد پرستی کی نذر ہو چکا ہے۔ تعلیم جو کبھی کردار سازی اور فکری بالیدگی کا ذریعہ تھی، اب محض نمبروں، اسناد، اور ظاہری کامیابیوں کی دوڑ بن کر رہ گئی ہے۔
اساتذہ، جو کبھی معاشرے کی رہنمائی کرتے تھے اور جنہیں “قوم کے معمار” کہا جاتا تھا، آج عزت و وقار کے بحران سے دوچار ہیں۔ ان کا معاشرتی مقام گر چکا ہے، ان کی محنت کی قدر نہیں رہی۔ خاص طور پر نجی اداروں میں اساتذہ قلیل تنخواہوں، غیر یقینی روزگار، اور شدید ذہنی دباؤ کے شکار ہیں۔ ایک ایسا استاد جو خود محرومی، ناقدری اور عدمِ تحفظ کا سامنا کر رہا ہو، وہ کیسے ایک مطمئن اور باکردار نسل تیار کر سکتا ہے؟ جب معلم اپنی عزت اور سکون کھو دے، تو پورا نظام خاموشی سے بربادی کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔
طلباء کی حالت بھی قابلِ تشویش ہے۔ بچپن ہی سے وہ مادی لذتوں، سوشل میڈیا کی لت، اور فکری انحراف میں الجھ چکے ہیں۔ اخلاقیات اور ضبطِ نفس جیسے تصورات اب پرانی باتیں لگتی ہیں۔ معلومات کی فراوانی ہے، مگر بصیرت کا فقدان ہے۔ پڑھنے والے بہت ہیں مگر سمجھنے والے کم۔ علم حاصل کیا جا رہا ہے مگر مقصد کھو چکا ہے۔ تعلیم کا اصل مدعا — ایسے انسان پیدا کرنا جو اخلاق، خدمت، اور ذمہ داری کے ساتھ زندگی بسر کریں — کہیں پسِ منظر میں گم ہو گیا ہے۔
والدین بھی اس بگڑے ہوئے نظام کے شریک بن گئے ہیں۔ وہ بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں اور بدلے میں صرف اچھے نمبرات اور اسناد کے متمنی ہیں۔ ان کے نزدیک تعلیم کا معیار اب نمبروں سے ناپا جاتا ہے، نہ کہ کردار سے۔ مگر یہ ایک خطرناک مغالطہ ہے۔ نمبر اخلاقیات کا متبادل نہیں، اور رپورٹ کارڈ انسانیت کی گہرائیوں کو نہیں ناپ سکتے۔ حقیقی تعلیم وہ ہے جو انسان کو انسان بنائے، نہ کہ محض ایک مشین جو امتحان پاس کرے۔
نجی تعلیمی ادارے اب کاروباری مراکز میں بدل چکے ہیں۔ یہاں تعلیم نہیں بلکہ “ڈگری” فروخت کی جاتی ہے۔ یہاں سیکھنے کی نہیں بلکہ دکھاوے کی دوڑ ہے۔ اعلیٰ فیصد اور درجنوں ایوارڈز کی چمک میں سچائی، ہمدردی اور کردار سازی کے چراغ بجھ چکے ہیں۔ تعلیم کی روح — اس کا اخلاقی اور انسانی جوہر — دم توڑ رہا ہے۔
اگر یہ زوال اسی طرح جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب والدین اپنے بچوں کو ان اداروں سے دور رکھنا بہتر سمجھیں گے اور گھریلو تعلیم کو ترجیح دیں گے۔ ہمیں اس گرتے ہوئے نظام کو سنبھالنے کے لیے اجتماعی بیداری کی ضرورت ہے۔ اساتذہ، والدین، پالیسی ساز، اور معاشرہ — سب کو مل کر تعلیم کے مقدس مقصد کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کردار کے بغیر تعلیم محض ایک جسم ہے جس میں روح نہیں۔ آج ہمیں ڈگری یافتہ افراد نہیں بلکہ بااخلاق، باایمان، اور باکردار انسانوں کی ضرورت ہے۔ جب تعلیم انسانیت، اخلاق، اور روحانیت سے جڑ جائے گی، تب ہی ہم کہہ سکیں گے کہ تعلیم واقعی زندہ ہے۔