فکرو فہم
ہلا ل بخاری
امریکی فلسفی جان ڈیوی نے کہا تھا، ’’ایک منصفانہ معاشرہ وہ ہے جہاں کلاس روم میں سوالوں کا خیر مقدم کیا جائے۔‘‘اور صدیوں پہلے سقراط نے فرمایا تھا، ’’دانائی حیرت سے جنم لیتی ہے۔‘‘یہ دونوں مفکر اس بات پر متفق ہیں کہ سوال کرنا ہی علم کی بنیاد ہے۔مگر افسوس! آج ہمارا تعلیمی نظام خاموشی سے ’’سوال‘‘ کو دفن کر رہا ہے۔
رٹّا، فہم نہیں: آج کے اسکول اور کالج نوجوانوں کو کیوں پوچھنے کے بجائے کیا یاد کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔بچے جوابات یاد کرتے ہیں مگر مفہوم نہیں سمجھتے۔امتحان میں نمبر لینے والے تو پیدا ہو رہے ہیں، مگر سوچنے والے دم توڑ رہے ہیں۔یہ نظام کارآمد مزدور تو بنا رہا ہے، مگر تخلیقی انسان نہیں۔
کلاس روم یا کارخانہ؟جب کلاس روم فکری تجربہ گاہ کے بجائے مشین بن جائے،تو معاشرہ انسانیت کیوں کر برقرار رکھے؟ہمارے طلبہ روبوٹ کی طرح مخصوص جوابات دہراتے ہیں،نئے سوالات یا نظریات پیش کرنے کی جرأت نہیں رکھتے۔سب سے بڑا المیہ وسائل کی کمی نہیں،بلکہ سوال کرنے کے رویّے کی موت ہے۔اساتذہ کی بات حرفِ آخر بن گئی ہے۔کتاب پر تنقید یا سوال گستاخی سمجھا جاتا ہے۔یوں تجسس کی جڑ ہی کاٹ دی گئی ہے۔
استاد کا اصل امتحان :کامیاب استاد وہ نہیں جو نصاب مکمل کرائےبلکہ وہ ہے جو شاگرد کے ذہن میں ’’کیوں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ جگائے۔کاش ہمارے اسکولوں میں بچے پوچھ سکیں:
آسمان نیلا کیوں ہے؟پتے سبز کیوں ہوتے ہیں؟اور سورج مشرق سے ہی کیوں طلوع ہوتا ہے؟یہی سوالات تحقیق کی بنیاد بنتے ہیں،مگر ہمارا نظام انہیں دبا دیتا ہے۔
آئن سٹائن کا پیغام :آئن سٹائن نے کہا تھا، ’’اہم بات یہ ہے کہ سوال کرنا بند نہ کرو۔‘‘افسوس، ہم نے یہی نصیحت بھلا دی ہے۔آج ذہانت کا معیار مارک شیٹ بن چکی ہے،
تخیل اور تجسس کا نہیں۔جو طالب علم سوال پوچھتا ہے وہ کمزور سمجھا جاتا ہے،حالانکہ ترقی اسی جرات سے جنم لیتی ہے۔ترقی سوال سے شروع ہوتی ہےجب سوال رک جاتے ہیں،ترقی بھی رک جاتی ہے۔یورپ کا نشاۃِ ثانیہ اسی وقت ممکن ہوا جب مفکرین نے مذہبی اور سائنسی عقائد پر سوال اٹھایا۔ہمارے اپنے مفکرین راجہ رام موہن رائے اور ڈاکٹر امبیڈکر اسی جرأتِ سوال سے تاریخ بدل گئے۔جو معاشرے سوالوں کو دباتے ہیں،وہ جمود اور پسماندگی میں دفن ہو جاتے ہیں۔
ذمہ داری کس کی؟نظام پر الزام دینا آسان ہے،مگر تبدیلی گھر اور اسکول سے شروع ہوتی ہے۔استاد نصاب ختم کرنے کے بجائے تجسس جگانے پر توجہ دے۔والدین بچوں کے سوالات سے جھنجھلانے کے بجائے ان کا احترام کریں۔ایک استاد کا حوصلہ افزا جواب اور والدین کا صبر بھرا ردِعمل زندگی بھر کا اعتماد پیدا کر سکتا ہے۔
امتحان پرستی کا جنون :امتحان، نمبر، اور دباؤ نے تعلیم کو مشینی بنا دیا ہے۔طلبہ رٹ کر پاس ہوتے ہیں اور اگلے دن سب بھول جاتے ہیں۔تعلیم اب دل و دماغ کی بیداری نہیں بلکہ مقابلے کی دوڑ بن چکی ہے۔وقت آ گیا ہے کہ ہم یاد رکھیں:تعلیم معلومات حاصل کرنے کا نام نہیں، بلکہ سوچنے، سمجھنے اور سوال کرنے کا فن ہے۔
سوال دوست معاشرہ :ہمیں ایسا کلچر بنانا ہوگا جہاں سوال کرنا گستاخی نہیں بلکہ جرأت سمجھی جائے۔اسکولوں میں مباحثے، تحقیقی منصوبے اور فکری گفتگو کو فروغ دینا چاہیے۔جامعات کو رٹّے کے بجائے تحقیق کو ترجیح دینی چاہیے۔اور معاشرے کو ایسے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو سوال کرتے ہیں،کیونکہ جمہوریت خود ایک اجتماعی سوال کا نام ہے۔کلاس روم میں سوال کی کمی معمولی بات نہیں یہ خطرناک علامت ہے۔یہ ایسی نسل پیدا کر سکتی ہے جو ذہین تو ہو مگر غیر تخلیقی،جانکار ہو مگر غیر دانا۔اگر ہم نے رخ نہ بدلا توہم ایسے شہری پالیں گے جو اطاعت تو کریں گے مگر سوچ نہیں سکیں گے۔سقراط نے کہا تھا:’’بغیر سوال کے زندگی، زندگی نہیں۔‘‘ڈیوی نے کہا:’’منصفانہ معاشرہ وہ ہے جو سوالوں کا خیر مقدم کرے۔‘‘اور آئن سٹائن نے یاد دلایا:’’سوال کرنا بند نہ کرو۔‘‘اگر ہم اپنی قوم کو ترقی کی راہ پر دیکھنا چاہتے ہیںتو ہمیں سوال کی روایت کو زندہ کرنا ہوگا،
کیونکہ ہر بڑی سوچ، ہر ایجاد،کسی جواب سے نہیں بلکہ ایک سوال سے شروع ہوتی ہے۔
(مضمون نگار، معلمِ محکمہ تعلیم جموں و کشمیرہیں)
[email protected]