کسی فرد یا قوم کی عقلی یا ذہنی حیثیت اور ہئیت بدل جانے سے اِس کی زندگی کا رُخ بھی بدل جاتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ اُس قوم سے وابستہ دیگر افراد کے رویوں اور طرزعمل میں بھی نمایاں اور عجیب فرق واقع ہوتا ہے۔پھر ایک ایسا وقت آتا ہے جب ذہنی غلامی کے تاریک اورمنحوس تھپیڑوں سے متاثر ہوکر ذہناً مغلوب و مفلوج افراد و اقوام کے ہنر بھی کسی عیب سے کم نہیں ہوتے۔یہ ایک فطری اور ضروری تبدیلی ہے۔چونکہ فطرت اس بات کی متقاضی ہے کہ جب اقوام یا افراد ذہنی،عقلی اور شعوری لحاظ سے تحت الثریٰ میں اتر جائیںتو فطرت ایک نئی نسل کی پیداوار اور پروش کا ذمہ لیتی ہے جو عقلی، ذہنی اور شعوری لحاظ سے پہلی والی متروک شدہ نسل سے کئی درجہ بہتر اور پائیدار ہو۔ غلام قوموں کی ذہنی اور شعوری ساخت بھی عجیب ہوتی ہے اور مغلوب العقل فرد یا اجتماع کا اپنا ایک الگ رنگ مِزاج ہوتا ہے۔ اسی ناقابل فہم مزاجی ساخت کے زیر اثر غلام قومیں اپنی روز مرہ حیات کا ایک ایسا تانا بانا بنتی ہیں،جس کا ایک الگ مغلوبانہ اور مجبورانہ رنگ ڈھنگ ہوتا ہے۔غلام قومیں جب سوچتی ہیں تو وہ ایک خاص مزاج اور آہنگ کے زیر اثر سوچتی ہیں۔مغلوب عقل ایک دبے ہوئے اور پٹے ہوئے محور یا نیوکلیس کے گرد اپنا کام کرتی ہے۔مجبور و مقہور اذہان کی کوئی بھی عقلی چھلانگ یاشعوری جست ، ایک حقیر اختراع یا ناقص دلیل کے سواکچھ بھی نہ کہلاسکتی ۔چونکہ مغلوب اقوام و افراد ایک خاص جبری اور استبدادی قوت کے زیرقبضہ و تسلط رہتے ہیں،اس لئے اُن کی سوچ اور اُن کے شعوری تحرک میں بھی ایک مخفی جبری اور غلامانہ رنگ ہوتا ہے۔غلام قومیں ایک مخصوص اور بے محل جذباتیت کے بحر بے کراں میں ڈوب کر اپنی تاریخ اور اپنے عقائد کو مٹادیتے ہیں۔ یہ جذباتیت محض تشّدد یا غضب نہیں ہوسکتا،بلکہ ایک عجیب بے سمتی Dierctionless))اور بغیر سوچے سمجھے کئے جانے والے غیر دانشمندانہ مہلک ترین اقدامات بھی ہوسکتے ہیں۔ایسی جذباتیت جو ایک منفرد او ر منفی غلامانہ سوچ کا کچا چھٹا ہوتا ہے، اکثر و بیشتر حکمت و بصیرت کا دامن ہاتھ سے چھوڈڑدیتی ہے اور دو صورتوں میں معرض وجود میں آتی ہے: یا تو ایک غیر ضروری،غیر شعوری،Directionless اور بغیر کسی ممکنہ حدف کے شدت پسندی کی صورت میں، یا ایک بیماری کی صورت میں۔۔۔جسے مایوسی کفر،باطل پرستی، قنوطیت اور عجیب و غریب عبادات و رسوم اورعقیدے کا مالیخولیا وغیرہ وغیرہ کا نام دیا جا سکتا ہے۔اسی غلامانہ جذباتیت کی شدت کے زیر اثر ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کی خرابیوں اور نا پسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو دیکھنے سے کتراتے ہیںاور اسی ذہنی درندگی کی وجہ سے ہم اصل و فراخ، سیاہ و سفید، حق و باطل کی تمیز کھودیتے ہیںاور پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غلامانہ سوچ اور مزاج ایسے جذبات کی ترجمانی فراہم کرتی ہے کہ ہر ایک معاملے میںہم ایک فوری ردّ عمل،غیر ضروری مداخلت،غیظ و غضب، اشتعال انگیزی،غیر سنجیدگی،ناقابل قبول اور نا شائستہ دشنام طرازی اورشرکیہ اور کفریہ عِبادات و رسوم سے کام لیتے ہیںاور کسی بھی سنجیدہ اور Long termکوشش سے دستبردار ہوتے ہیں
غلامی جہاں ہمیں زندگی کی مستعار قدریں فراہم کرتی ہے، وہاں وہ ہمارے مِزاج کو بدلنے کے سامان بھی کرتی ہے۔صدیوں کے دورغلامی میں ہمیں رفتہ رفتہ یہ بھلا دیا گیا کہ ہماری حیثیت ایک قوم کے ہے اور ایک اُمت کے ہے جس کی اپنی دینی روایات ، تمدن اور ایک اپنا شعوری مزاج ہے ۔نتیجتاً ہم اپنی اعلیٰ دینی اور قلبی روایات سے بے گانہ ہوکر چند مستعار تصورات کو اپنانے لگے۔اس سے ہماری زندگی میں جو شعوری انحطاط پیدا ہوگیا، وہ ایک غلط عقیدے کی صورت اختیار کرگیا۔ہمارے اذ ہان سے دُرستگی ٔ عقیدہ کی اہمیت حرف غلط کی طرح مٹ گئی۔کیونکہ اگر ایک خاص تجزیاتی نقطہ ٔ نگاہ اور نظریہ سے دیکھا جائے،تو غلامی اجسام کی قید سے زیادہ شعور و عقل کا سجن ہوتی ہے اور ہمیشہ اذہان کوگرفت میں لیتی ہے۔کشمیری بحیثیت ایک قوم کے اور مسلمانان کشمیری بحیثیت ایک ملی اکائی کے ایک ایسی ہی ذہنی پستی اور شعوری انحطاط کے غلبے کے ملبے تلے دبی ہوئی ہے اور اس ملبے کو کسی بھی ’’ریفائنڈ تجدیدی بلڈوزر‘‘سے اُکھاڑنے کی کوئی بھی کوشش ناکام ظالما نہ ہوگی اور یہ بات سو فیصدی طے شدہ ہے۔بنیادی سطح پہ سماجی ذمّہ داری اور مذہبی محاذ پر ایک قابل فخر اور غیرت مند مسلمان ہونے کے تمغہ ٔ وصف و شرف ہمارے گلے سے چھین لئے گئے ہیںاور عقل اور شعور کی نا پختگی اور کج ادائی کا طوق ہماری گردنوں میںلٹکایا گیا ہے۔ہمارے سارے صا حبانِ ہوش اور دانش مندانِ قوم ایک شاندار،پر تکلف اورجاہ و حشمت والی دنیوی زندگی بسر کر رہے ہیںجب کہ نا تجر بہ کار ، قوم کا مستقبل کہلانے و الے، کم سن وکم فہم ،حالات کے ستائے ہوئے ، میدان عقل میں شکست خوردہ اور ذہنی طور پر نابالغ نوجوانوں کو ’’خیالی راکٹ سائینس ‘‘ کی ترغیب دیتے ہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ ہماری دا نش گاہیں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بے روز گار پیدا کرنے کی فیکٹریاں ہیںاور ہماری اجتماعی زندگی کے تمام شعبہ جات رشوت، بد عنو انی،کورپشن،اقربا ء پروری اور لوٹ کھسوٹ کے اڈے بن گئے ہیں، ہماری عبادت گاہیں مسلک پرستی اور ’’میں ٹھیک باقی غلط ‘‘ کی منفی سوچ کے اکھاڑے بن چکے ہیں۔الا ما شاء اللہ ۔ غرض ہم من حیث القوم ہم کسی بھی ذہن سازی اور عقل پروری کے عمل سے دستبردار ہوچکے ہیں۔اس قوم کی ذہنی اور عقلی ساخت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر چند ہزار ر وپیہ کا کوئی بجلی ٹرانسفارمر محلے گلی میں خراب ہوجائے یا چند لمحوں کیلئے پانی نل سے آنا آنا بند ہوجائے یا کسی مذہبی ’’ توہین‘‘ کی بھنک کانوں میں پڑجائے تو ساری کی ساری قوم، سارے کاسارا محلہ یا گاؤ ں والے بغیر کسی تحقیق حال کے دیوانہ وار نکل کر دنگل مچاتی ہے ، سر پر آسمان اٹھاکر اپنا ہی نہیں بلکہ اوروں کے وقت کا زیاں کر تے ہیں ، کسی انتہائی اہمیت کی حا مل سڑک یا شاہراہ کو بند کرتے ہیں، امتحانی طالب علموں، کسی زچہ یا موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا کسی بیمار تک کو یرغمال بناتے ہیں۔ اس فری فار آل دنگل میں مشتعل لوگ انسانی قدروں اور اسلامی رویات کو بھی روندھ سکتے ہیں اورعقل اور شعور سطح کے ایسے نیچ پن اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کر سکتے ہیں کہ شیطانیت بھی شرمسار ہو۔ جذبہ ٔ انسانی اور خصلت مسلمانی کو کلیتاً فراموش کرکے چنگیزیت کی روح تازہ کر نا کون سی مردانگی کہلا تی ہے۔ بعض لوگ صبر ، سنجیدگی ،توکل علیٰ اﷲ او رقناعت کو طاقِ نسیاں میں ڈال کر فقیروں اور بناوٹی مسکینوں کا چولہ اوڑھے معمولی خوردنی اشیاء کے حصول کے لئے اپنے عزتِ نفس تک کو سر ر اہ نیلام کر دیں تو کیا کہاجائے ؟ راقم کا مشاہدہ ہے کہ لوگ ایسے مواقع پر اپنے گھر کی بہو بیٹیوں کو پانچ روپیہ کے دوائی پیکٹ کے لئے ا غیار کے سامنے لائن میں کھڑا کر نے مٰں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ ا س طرح کے ہزارہا قسم کے واقعات ہمار ے عقل اور شعورمیں بدترین نقص ، کریکٹر کی کمی اور سطحی ذہن کا ثبوت پیش کر تے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اذہان غلامانہ ، استبدادانہ اور جبری بے گاری کے سانچے میں پک پک کر ایک ایسے انتہائی خطرناک انحطاط وزوال پر کھڑے ہیںجہاںسے ہماری خود ی اور خود انہدامی کے خلاف عجیب و غریب اور دل برداشتہ کر نے والے واقعات پیش آتے ہیں۔اس بات کو اس طور بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جو ظلم ہمارے ساتھ ہوتا چلا آرہا ہے مگر ہم ظالم وجابرکو بدلے میں سبق سکھانے کی استطاعت رکھنے کے باوجود ڈھیٹ پن اور نا مردانہ عذر کی نحوست اپنی نفسیات میںبسا چکے ہیں جب کہ ہم ہی وہ ہیں جواپنے ہی لوگوں کو عذاب و عتاب کا شکار بناتے میں شیر ہوتے ہیں۔ ہم نے اتنے برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اپنے لوگوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑ کر ،اپنے ہی دفا تر، تجارتی مراکز، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں،قومی املاک وغیرہ کی توڑ پھوڑ کرکے،اپنے ہی لوگوں کو گالیاں دے کر،اپنی ہی قوم کے کمزور طبقہ جات مثلاً ناتوان، بیمار، خواتین،بچوں اور طالب علموں کو اذیت ناک مراحل سے گز ار کر ہم اپنی شعور کی کجی اور ذہنی اپاہج پن کی ترجمانی کرتے ہیں اور ظاہراً ایسا غلط سلط کرتے ہوئے خوشی محسوس کر تے ہیں کہ ہم تیس مارخان کی فخریہ نسل ہیں۔ ا س وقت تازہ ترین گھمبیر صورت حال خواتین کی جبری گیسو تراشی کے واقعات ہیں ۔ ان کے ضمن میں ہم نے متعدد بار بے گناہ اور فاطر العقل انسانوں، ہیجڑوں اورغریب و مجبور محنت کش مزدوروں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ اور جانوروں سے بد تر سلوک کی مثالیں قائم کی ہیں۔ یوں ہم نے اجتماعی طور حقائق اور اخلاقیات سے کوسوں دور ر ہ کر مینڈکوں جیسے دماغ کا ثبوت دیا اور افسوس ایساکر کے ہم اپنے دینی تعلیمات تک کی دھجیا ں اُڑاتے پھرتے رہے اپنے ظالمانہ پن اور بے وقوفانہ طرزعمل سے اپنے حال او ر مستقبل کے بارے میںجو ناقابل یقین حد تک مایوس کن تصویر پیش کی ۔
صورتِ حال کا ایک توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ایک جانب ہمارے بڑے بڑے علماء ، قائدین اور دانشو ر کہلانے والے اپنی اپنی بھٹکی ہوئی سوچ کی سرحد میں چھپ کر مضطرب نوجوان نسل کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور دوسری جانب پردے کے پیچھے تاک میں بیٹھی ایک’’ شا طر و مکار قو ت ‘‘ زر خرید غلاموں کے تارہلاکر خودہمارے ہی ہاتھوں اپنی قوم کی نیا ڈبورہی ہے ۔اس کا ایک نتیجہ اورباتوں کے علاوہ یہ ہے کہ آج ہم ہرایک شعبے میں ایک ناکام اور کورپٹ قوم کے طور گردانے جاتے ہیں۔سب سے بڑی حیران کن اور عجیب صو رت حال ہماری دینی اور مذہبی سطح پر دیکھی جا ہے ۔ہم کہنے کو خدائے بزرگ و برتر اور دنیا کے واحد انسان کامل ؐسے منسوب ہے مگر ہمارا ان سے شعور اور قلب کا تعلق کب کا کٹ چکا ہے۔اس لئے یا توہمارا دین اور دینی اقدار و اسالیب سے متعلق صحیح عقیدہ یا تو سرے سے ہی ہم میں ختم ہو چکا ہے یا یہ متاع گراں مایہ افراط و تفریط میں جھوج ہے جب کہ ہم بغیر کسی ِعلت یا عقلی استنباط کے اپنے کسی من چاہے انسان نما پتھریا پتھر نما بت کے گرویدہ ہو چکی ہیںاورہمارے ’’ علم و عرفان اور خدا پرستی‘‘ کا حال یہ ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زنی کر کے ہم اپنے ہی جیسے دوسرے مسلمانوںپراپنی مسلکی عصبیت کے میزائل داغ دیتے رہتے ہیں،چاہے اس عمل کے جواز پیش کر نے میں چیخ چیخ کر ہمارے گلے کی رگیںہی کیوں نہ پھٹ جائیں۔کہیں کوئی ’’سیاست زدہ مذہبی جنونی‘‘ فکری تعصب اور مسلکی عفریت کے اگلے شاندار بمپر کراپ کی بوائی سنیچائی کر رہا ہے۔سیاسی پارٹیوںمیں ہماری دینی جماعتوں کی طرح اپنے اپنے ذائقے کے حساب سے الگ الگ شعبدہ بار ہے جو سیاسی جوڑ توڑ اورحکومتی پیشگوئیوں کا دھندا کرتا پھرتا ہے۔ستائیس سال کے انتہائی کرب ناک اورشدید انسانی بحران میںہماری ایک پوری نسل نے اپنا خزانہ ٔ شعو اور سرمایہ ٔ عقل ایک عظیم مقصد اور معتبر کاز کیلئے جس قیادت کو سونپا تھا، وہ ابھی تک طویل ماہ وسال گُذر جانے کے باوجود ما سوائے قوم کی بیش بہا قربانیاںاپنے اپنے کر یڈٹ؍ ڈیبٹ کھاتے میں ڈالنے کے علاوہ کوئی بامقصد اورنتیجہ خیز رٹرن دینے ناکام ر ہی۔ان حقائق کو ہمیں اب عقل وفہم اور استدلال کے ترازومیں تولنا ماپنا ہوگا۔
حرف آخر۔۔۔۔۔ہم من حیث ا لقوم تجاہل،تغافل،تساہل،کم نگہی،کج فکری،آشفتہ سری،ژولیدگی،حقیر و بے وقعت بیان بازی،واہمہ ا ور وساوس اور تنگی ٔ قلب وذہن کے شکار ہو چکے ہیں۔ہم فرقہ واریت کی علمی بدمعاشی اور دھاندلی،ذہنی نا رسائی اورمذہبی شعور کی پسماندگی کے جدید استعارہ بن چکے ہیں۔ ہمارا دینی شعور تعطل اور خلا کی نذر ہو گیا ہے۔ ہم قولی طورنہ سہی عملی طور وحیٔ الہیٰہ کے منطقی اور عقلی تلازمات کی نفی کر رہے ہیں،اور ظن و تخمین کے زندہ وجاوید پتلے بن چکے ہیں ۔ ہم علیل اور لایعنی تصورات ومزعومات کی خیالی دُنیا میں جی رہے ہیں۔ یہ دنیاہمارے نا درستگئی عقیدہ اور پستی ٔ کردار کی تخلیق شدہ ہے جس کی نہ کوئی منطقی تعبیر ہے نہ کوئی حقیقت۔ ہماری مثال ایسی ہے جیسے ہم کمپیوٹر میں فیڈ کیا گیا کچی عقل اور کم فہمی پر مبنی ڈیٹا ہوں۔ ہمارا حال غلط فکر و عمل کی ایک ایسی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے جس کا نور ختم ہوچکاہے اور جو ظلمت کے زندانوں میںاپنا بسیرا بنا چکا ہے۔ ہمارے اذہان اور قلوب ایک تصوراتی عکس کے ماورائی وجود میں ڈھل چکے ہیں، ہم فہم و ادراک سے عاری نقشے پر وہ تعمیر شددہ بناوٹی نقش ونگار ہیں جس میں نہ کوئی رعنائی ہے نہ کوئی معنویت ، ہم اتنے مدہوش ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں کہاں جارہے ہیں ، کہاں جانا ہے اور کیوں جانا ہے۔ ہمارے خلاف ہی قلوب و اذہان بے دریغ استعمال ہو رہے ہیں اور ہم ہیں کہ اس احساس اور ادراک سے کلی طور ہاتھ دھو چکے ہیں کہ ہم کو نادیدہ ہاتھوں کیی کٹھ پتلیاں ہیں اوران کی دنیا بنانے میں خام مواد کے طور استعمال ہورہے ہیں۔ ہم اپنے وجود اور اپنے وجود سے متعلق ہر شئے سے دستبردار ہوچکے ہیں اور ایک خارجی قوت ہمارے قلوب اور اذہان پر مسلط ہو چکی ہے کیو نکہ ہم ذہنی غلام ہیں ؎
تھا جو نا خوب بہ تدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموںکا مزاج