اچھے بُرے تمام انسانی قوانین جو فی الحقیقت اہل مغرب کی ہی دین ہیں، گناہ اور جرم میں تفریق کرتے ہیں اورصرف جرم کو قابل سزا گردانتے ہیں۔گناہ سے دو صدی قبل تک تو صرف نظر کیا جاتا رہا لیکن پچھلی ایک صدی سے گناہ کو یہی نہیں کہ’’ شخصی آزادی ‘‘کے نام پر بے لگام چھوڑ دیا گیا، بلکہ حالیہ برسوں میں اسے قانونی تحفظ بھی فراہم کر دیا گیا، اورا سے فراخدلی اور خوش دلی سے ذاتی شناخت اور ذاتی احترام کے نام پر ذیلی کمر سے چھڑا کر بالائے سر چڑھا دیا گیا جب کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے منہ پر تالا لگا دیا گیا۔ لبرلائیزیشن کے شور و غل میں انہیں بد ترین جرم قرار دے دیا گیا۔ اب ذرا ان جدید انسانی قوانین کا گہرائی میں جا کر مطالعہ اور تجزیہ کرنے کے بجائے صرف تعارفی صفحہ ملاحظہ کر لیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ انسانی قوانین و آئین سماج میں برائیاں روکنے کی بات کرتے ہیں اور سزا کو ہی جرم کے خلاف حفظ ما تقدم اوزار سمجھتے ہیں۔ آپسی رضا مندی سے کئے گئے اخلاقی گناہ کو گناہ نہیں سمجھتے اور نہ دو انسانوں کے درمیان غیرفطری جنسی اختلاط کو، البتہ انسانوں اور جانوروں کے درمیان غیر فطری جنسی عمل کو جرم مانا جاتا ہے ، وہ بھی صرف جانوروں کے حقوق کے حفاظت کی خاطر ۔ وہ جو بے چارے حقوق و فرائض سے نا بلد ٹھہرے، اچھا ہے جانوروں کو ان جدید انسانی قوانین کی بھنک نہیں لگی ہے، ورنہ وہ سب کب شہر کا رخ کردیں پتہ نہیں ۔ اہل ادب محاورتا ً کہنے لگ جائیںکہ جب شرم و حیا کو موت آتی ہے تو جانور شہر کا رخ کرتے ہیں۔ یہ تو بھلا ہوا کہ آپسی رضا مندی سے کئے گئے قتل اور لوٹ مار کو ابھی تک جرم ہی مانا جاتا ہے ، پتہ نہیں کب تک انہی قوانین کے چلتے چلاتے چلو جی بدفعلی کو بھی حلال کر دیا گیا، جب کہ جبر کی تعریف غیر مکمل رہ گئی۔ اب جانوروں کو شہری حقوق کا استعمال کر بد کاری کے ساتھ ساتھ جبری بدفعلی سے لطف اندوز ہونے کا آسان نسخہ ہاتھ آئے گا ۔ آزادئ نسواں کے علمبردار بھی یہ کہہ کر خاموش ہو جائیں گے کہ یہ چھری اور خربوزے کی آپسی رضامندی کا معاملہ ہےاور جو چاہے خربوزہ کے اُڑتے چھینٹوں سے اپنا دامن بچائے اور دور رہے۔ ان کے علاوہ کچھ اور نکات پر بھی بحث ہونا باقی ہے شاید یا ان کا تصفیہ منظر عام پر ابھی تک نہیں آیا ہے کہ آیا آپسی رضامندی سے کئے گئے ان اخلاقی جرائم یا گناہوں کو سزا سے مستشنی قرار دیا جائے جن میں حرمت کے رشتے شامل ہیں یا پھر انہیں راز داری کی چادر میں لپیٹ کر اعتراف خانہ تک محدود کر دیا جائے جیسا کہ مغرب میں رائج ہے ۔
پچھلے سو برسوں میں اہل علم و دانش کی کثیر تعداد مغربی تعلیم و تربیت کے جدید و خوشنما ڈربے سے باہر آتے ہی بھول گئی کہ تمام آسمانی صحائف ہر گناہ کو جرم اور ہر جرم کو گناہ مانتے ہیں اور بطور حفظ ما تقدم اخلاقیات کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں اور سخت سزا کو جرم کی روک تھام کے لئے ضروری مانتے ہیں، اور آپسی رضامندی کی ہمت افزائی خیر کے کاموں میں کرتے ہیں۔ دیگر تمام مذاہب بھی تقریباً اسی طرز فکر و عمل پر زور دیتے ہیں۔ انسان کو اخلاقیات اور مذہبی عہد و پیماں اور سزا و جزا کا پابند کرکے سماج میں گناہ اور جرائم کی روک تھام کرتے آئے ہیں لیکن انسانی قوانین اب اس قدر رواج پا چکے ہیں کہ مذہبی قوانین اور احکامات کی بیخ کنی کااذن عام ہے۔ ����