وہ دن کتنا المناک ، کتنا حسرتناک اور کتنا غضب ناک تھا جب سرنو پلوامہ کی زمین پر بیس سے تیس سال کے بچوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں یکے بعد دیگرے گرتی جارہی تھیں ۔جن بچوں نے ابھی دنیا دیکھی ہی نہیں تھی، ان کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہورہی تھیں ۔ ایک ایک لاش گررہی تھی اور ایک ایک ماں کا کلیجہ پھٹ رہا تھا ۔ایک ایک والد کی امیدوں کا چراغ بجھ رہا تھا اور ایک ایک بہن کی آرزئوں کا جہاں فنا ہورہا تھا ۔آسماں دیکھ رہا تھا اور زمین گرم خون کو اپنے اندر جذب کررہی تھی ۔نہ سورج کی گردش رُکی، نہ زمین کا سینہ چاک ہوا ۔بس اتنا ہوا کہ زندہ انسانوں کے سینوں پر درد و کرب کے کانٹے اُگ آئے ۔
پندر ہ دسمبر کا سانحہ نہ پلوامہ کے باشندے بھول پائیں گے اور نہ ہی اس بدقسمت وادی کے لوگ۔ قتل عام کا یہ سانحہ اس نسل کے حواس پر ہمیشہ طاری رہے گا جس کی زندگی میں یہ گزرا ۔لیکن جتنا دلخراش یہ سانحہ ہے اس سے کہیں زیادہ دل و جگر کو پارہ پارہ کردینے والی وہ سیاست گری ہے جو ایسے ہر واقعہ کو استعمال کرنے کیلئے تمام صلاحیتیں اور قوتیں صرف کردیتی ہے ۔پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے اس واقعہ کو بدترین قتل عام کا واقعہ قرار دیا ۔عمر عبداللہ نے بھی اسے قتل عام کا شرمناک واقعہ قرار دیا اور مزاحمتی قیادت نے فوری طور پر تین روزہ ہڑتال اور بادامی باغ چلو کی کال دی ۔پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی خود چھ مہینے پہلے تک حکومت کی سربراہ تھیں اور ان کے دور حکومت میں اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوئے تاہم انہوںنے ایک دفعہ ایسے واقعات کیلئے نوجوانوں کو یہ کہہ کر ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ فورسز کیمپوں پر دودھ لینے نہیں گئے تھے ۔ عمر عبداللہ کے دور حکومت میں بھی شہریوں کا قتل عام ہوتا رہا لیکن جب ان کی حکومت میں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا تھا تو وہ عسکریت پسندوں اور مزاحمتی قیادت کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے تھے ۔آج ان دونوں کو کسی کے ہاتھ میں پتھر نظر نہیں آتا ،صرف فورسز کے ہاتھ میں بندوق نظر آتی ہے۔یہ عینک ان کی آنکھوں پر یقینا اسی وقت تک رہے گی جب تک ان کے ہاتھ میں حکومت دوبارہ آئے ۔ ایسا ہوا تو وہ اسی عینک سے دیکھا کریں گے جو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر لگائی جاتی ہے ۔
مزاحمتی قیادت نے تین روز کے ماتمی ہڑتال کی اپیل کردی اور سوموار کے روز بادامی باغ چلو کی کال بھی دی تاکہ وہاں پہنچ کر بھارت کی فوج سے کہا جائے کہ ایک ہی وقت میں کشمیر یوں کو گولیوں سے بھون ڈالو ،ر وزروز کے قتل عام سے یہی ان کے لئے بہتر ہے حالانکہ مزاحمتی قیادت کو یہ کال دینے سے پہلے ہی معلوم تھا کہ بادامی باغ نہ وہ پہنچ سکیں گے اورنہ ہی لوگ پہنچ سکیں گے اور نہ ہی فوج ایک ہی وقت میں کشمیریوں کو گولیوں کا شکار بناسکتی ہے ۔اسے یہ بھی معلوم تھا کہ صرف اتنا ہی ہوگا کہ شاہرائوں پر خار دار تار بچھا کر لوگوں کا چلنا پھرنا بند کردیا جائے گا ۔ماتمی ہڑتال کرنی ہی تھی تو ایک روز کیلئے ہی کی جاتی تو تین روزسے زیادہ پُر اثر ہوتی ۔تین روز ہ ہڑتال نے کتنے مزدوروں کی روزی پر قدغن لگائی اور سب سے بڑھ کر طالب علموں کی تعلیم کے حصول پر تین روز کی روک لگا کر ان کا کتنا بڑا نقصان کیاگیا ۔سرنو میں فورسز نے ہمارے سات بچوں قتل کیا لیکن مزاحمتی قیادت نے تین روز کیلئے تعلیمی اداروں کو بند کرکے ہمارے لاکھوں بچوں کو تعلیم سے محروم کردیا اور یہ کہنا کسی طرح بھی غلط نہیں کہ تعلیم کے حصول سے کسی بچے کو ایک دن کیلئے روکنا بھی اس کے قتل کے برابر ہے ۔اس قوم کو چونکہ اس بات کی سمجھ نہیں ہے، اس لئے اسے یہ قتل عام نظر نہیں آتا ۔اس قوم کو سمجھایا گیا ہے کہ حصول مقصد کے لئے مرنا ضروری ہے جبکہ حصول مقصد کیلئے جدوجہد کرنا ضروری ہے اور جدوجہد کرنے کیلئے جینا ضروری ہے اور تاریخ کا تجربہ کہتا ہے کہ ثمر آور جدوجہد تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ۔ تعلیم یافتہ انسان ہی اپنے حقوق کو پہچان سکتا ہے اور ان کے حصول کیلئے بہتر حکمت عملی کے ساتھ لڑسکتا ہے ۔موت ایک آخری آپشن ہے لیکن ہماری قیادت کا سارا زور موت پر ہے ۔ موت کا ہیرو ازم ہمارے بچوں کے خون میں اتارا گیا ہے اوراس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ سڑکوں پر جدوجہد کے معیارخود مقرر کرتے ہیں ۔مزاحمتی قیادت صرف ہڑتالوں ، چلو کی اپیلوں اور تعزیت داریوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ وہ فیصلے نہیں کرتی ۔ فیصلوں کااختیار اس کے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے ۔اس لئے زیادہ سے زیاد ہ ہڑتالیں وہ اپنی قیادت کا بھر م قائم رکھنے کے لئے ضروری سمجھتی ہے ۔
پندرہ دسمبرکے ہلاکت خیز واقعہ پرجس طرح بھارت میں زندہ ضمیر شخصیات اور پاکستان حکومت سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور کئی عالمی اداروں نے برہمی کا اظہارکیا ،وہ امید افزا ء ہے لیکن یہ پہلی بار نہیں جب عالمی سطح پر کچھ عالمی اداروں اور چند ملکوں کا ردعمل سامنے آیا ۔اس سے پہلے سرنو سے بھی زیادہ بڑے قتل عام ہوئے۔ حول ، سوپور اور گائوکدل قتل عام کی یادیں ابھی ذہنوں میں تازہ ہیں ۔ ایسے بہت سارے واقعات کی او آئی سی نے بھی مذمت کی ، اقوام متحدہ نے بھی اور کئی عالمی طاقتوں نے بھی ۔ہم نے ہفتوں اور مہینوں ہڑتالیں کیں ۔ جلوس بھی نکالے اورعظیم الشان جلسے بھی کئے لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی صورت نہیں نکل سکی بلکہ اس کے برعکس یہ ہوا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ہورہی بات چیت بھی تعطل کا شکار ہوگئی۔ہماری بے پناہ قربانیاں اگر رائیگاں جارہی ہیں تو ظاہر ہے کہ ہماری جدوجہد میں کوئی خامی یا کوئی کمزوری ہے ۔ کیا ہماری قیادت کو اس پر سوچ بچار نہیں کرنا چاہئے ۔اندھا دھند سرگرمی کو جدوجہد نہیں کہتے ۔جدوجہد کے پیچھے دور اندیش اور دور بین ذہن ہونے چاہیں جو ایسی معتبر اور منظم حکمت عملی تیار کریں جس میں قوم کا نقصان کم ہو اور حصول مقصد کے زینے زیادہ طے ہوں ۔
بشکر یہ ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر