مفتی رفیق احمد قادری
آج کل اخباروں کے سرخیوں میں سے ایک اہم سرخی ہے ہم جنس شادی ایکٹ اور اس کی قانون سازی۔ در حقیقت یہ تصور ہی انسانی فطرت کے عین متضاد اور مخالف ہے۔ فطرت ہمیشہ حیاء، حسن اخلاق، عفت، پاکدامنی، پاکیزہ سوچ اور نکھرتے جذبات کا عکس ہے۔ بے حیائی، فحش اور منکرات کو فطرت ہمیشہ نفرت کرتی ہے۔ جس ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کی بات ہو رہی ہے وہ عین فطرت انسانی سے انحراف کے مترادف ہے۔ یہ کوئی سماجی ایشو نہیں ہے جس طرح کہ مرکزی حکومت باور کر رہی ہے۔ اس کا تعلق مذہب سے بھی اسی طرح ہے جس طرح سماج اور سوسائٹی سے ہے۔اسلام جیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ دین فطرت ہے۔جو مکارم اخلاق، اعلی صفات اور عمدہ کردار کی تعلیم دیتا ہے۔ افراد و اشخاص کی جسمانی، روحانی، قلبی اور فکری طہارت و صفائی کے ذریعہ ایک صالح اور باحیاء معاشرہ تشکیل دینے کی ترغیب دیتا ہے۔ عفت و حیاء کو جزو ایمان قرار دیتے ہوئے پیغمبر اسلامؐ فرماتے ہیں کہ حیاء ایمان کے شعبوں میں سے اہم شعبہ ہے (بخاری) کسی صورت میں بے حیائی، بے راہ روی اور فحش و منکرات کو اسلام برداشت نہیں کرتا، بلکہ اس کے مرتکبین کو سخت سے سخت سزا تجویز کرکے نافذ بھی کرتا ہے، تاکہ یہ نسل انسانی بے حیائی سے دور ونفور رہ کر پاکیزہ زندگی گزارے۔ مغربی تہذیب وتمدن کا ہی اثر کہئے کہ ہمارے دیش میں بھی یہ فعل خبیث دن بدن بڑھتے جارہا ہے۔ مغربی ممالک میں جنس پرستی کو عیب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ ان کی تہذیب کے مطابق اسے فیشن کا نام دے کر بر سر عام بغیر کسی شرم و حیا کے انجام دیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک نے اس بے حیائی کو پوری دنیا میں لاگو کرنے کی کوششیں بھی کیں۔ایک حد تک مغربی تہذیب اس میں کامیاب بھی ہے۔مغربی تہذیب نے انسانی حقوق، آزادی اور جدت پسندی کے نام پر اس کے فروغ کیلئے مکروہ کوششیں بھی کیں،ہم جنس پرستی 113 ممالک میں قانونی اور 76 میں غیر قانونی ہے۔کئی برسوں کے بعد آخرکار دنیا کے113 ممالک نے ہم جنس پرستی کی حقیقت کو کلی طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسے قانونی طور پر جائز قرار دے دیا ہے۔ جب کہ76 ممالک نے اس کو نامنظور کرتے ہوئے غیرقانونی قرار دیا ہے۔ ایران، سعودی عرب، ماریطانیہ، یمن اور سوڈان میں تو اس فعل کے مرتکب افراد کو سزائے موت دی جاتی ہے تاہم مالی، اردن، انڈونیشیا، قازغستان، ترکی، تاجکستان، کرغزستان، بوسنیا ہرزے گوینا اور آذربائیجان وہ مسلم ممالک ہیں جہاں ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا ہے۔
عدالتوں میں ہم جنس پرستی کے حق میں عرضی دینے والوں کا دعویٰ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، اسپین، جنوبی افریقہ، ناروے، سویڈن، جرمنیاآسٹریلیا، ہالینڈ، فن لینڈ، میکسیکو، بلجیم، ارجنٹائن، برازیل، فرانس، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، تائیوان، مالٹا اور چلی وغیرہ سمیت دنیا کے 31 ممالک ہم جنس شادیوں کو تسلیم کر چکے ہیں۔ اس لیے ہندوستان میں بھی اسے تسلیم کیاجاناچاہیے۔ لیکن عرضی گزار یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ملک کا نظام ہندوستانی ثقافت، مذہب اور ہندوستانی قانون کے مطابق چلتا ہے، جس میں شادی کو مقدس حیثیت حاصل ہے۔ ہندوستان کے تکثیری معاشرہ میں ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دیئے جانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ میں اس کی عرضی کو منسوخ قرار دیکر فطرت کے تقاضوں کو برقرار رکھنے کی تعلیم دی جائے گی۔ کئی اسلامی تنظیموں نے اس کے خلاف اپنی اپنی عرضداشت بھی داخل کی ہیں۔ جن میں رضا اکیڈمی ممبئی قابل ذکر ہے۔آئیے ہم جنس پرستی کی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ یہ خباثت اور بے حیائی کہاں اور کب سے شروع ہوئی۔
انٹرنیشنل لزبین (international lesbian) یعنی سحاق(gay)گے یعنی لواطت ایسوسی ایشن کا پتہ 1978ء میں ہوا ،اب تک110 ممالک کی سات سو تنظیمیں اس کی رکنیت حاصل کر چکی ہیں۔ تنظیم کی انتھک کوششوں کے بعد اسے اس وقت کامیابی حاصل ہوئی جب18 دسمبر2008ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے66ممالک کے تعاون سے گے اور لیزبین افراد کے حقوق کو تسلیم کیا۔ 19 ویں صدی کے آخر تک تمام مغرب میں ایسی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی تھیں جن کا مقصد ہم جنس پرستوں کے حقوق کو تسلیم کرنا تھا اور ان کے حقوق مثال کے طور پر شادی، اولاد کی تحویل کا حق، روزگار اور صحت سے متعلق تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ دو سال قبل امریکی حکومت کے دستخطوں کے ساتھ2009ء میں 67 ممالک کے تعاون سے اقوام متحدہ نے ایک اعلامیہ جاری کیا۔ اس دستاویز پر تمام یورپی اور مغربی اقوام نے اپنے اپنے دستخط ثبت کیے ،تاہم دوسری جانب57 مسلمان ممالک نے اقوام متحدہ کے اس اعلامیے کے خلاف اعتراضی بیانات بھی داخل کئے۔ اس سال تقریباً 85 ممالک نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے روبرو ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کو سزائیں دیے جانے کی پرزور مذمت کی ہے۔آج بھی اسلامی ممالک میں اس فعل کے مرتکبین کے لیے سخت سے سخت سزائیں متعین ہیں۔تحقیقات کے مطابق جنوبی صومالیہ اور نائیجریا کی12 ریاستوں میں ہم جنس پرستوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ماضی میں افغانستان میں طالبان کے دورحکومت اور 2001ء میں صدام حسین نے عراق میں ایک حکم کے ذریعے ہم جنس پرستوں کے لئے سزائے موت تجویز کی تھی۔ سوڈان میں اگر کوئی فرد تین مرتبہ اس فعل کا مرتکب پایا جائے تو اسے یا تو سنگسار کیا جاتا ہے یا پھر عمر قید کی سزا دی جاتی ہے۔ بہرکیف سوڈان میں پہلی یا دوسری مرتبہ ہم جنسی کے فعل پر زیادہ سے زیادہ پانچ سال قید اور 100 کوڑوں کی سزا تجویز کی جاتی ہے۔ ایران دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اپنے شہریوں کو ہم جنس پرستی کے ارتکاب پر سب سے زیادہ سزائیں دی ہیں۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی حکومت نے چار ہزار ہم جنس پرستوں کو موت کی سزا سنائی ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے ممالک میں ہم جنس پرستی کی مختلف دردناک سزائیں اور تعزیراتی قوانین متعین ہیں تاکہ اس بد فعلی کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ نہ پیدا ہو جائے۔
سب سے پہلے اس بے حیائی کا ارتکاب قوم لوط نے کیا۔ جس کی قرآن مجید نے کھل کر مذمت کی۔جبکہ اس جنس پرستی کی احادیث مبارکہ میں بھی خوب وعیدیں آئی ہیں۔جن کا لب لباب یہ ہے کہ اسلام میں کسی طرح کی ہم جنسی تعلقات جائز نہیں ہیں، بلکہ سخت حرام اور قابل تعزیر جرم ہے۔ اس بد فعل کی اسلام نے کوئی خاص سزا متعین نہیں کی، اس لئے کہ حاکمِ وقت کو اختیار ہے کہ وہ اس فعل خبیث کے روک تھام کے لیے کوئی بھی سزا متعین کرے، جو جلا وطنی سے لیکر موت تک سزا ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ہم حکومت اور ارباب حکومت سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ ہم جنسی شادی ایکٹ کو منسوخ قرار دیا جائیں اور آئینی و قانونی طور پر اس فعل کو جرم اور قابل تعزیر قرار دیا جائے تاکہ ایک نیک اور صالح معاشرے تشکیل پائے۔
[email protected]>
����������������