عظمیٰ ویب ڈیسک
فرید آباد/لال قلعہ کے قریب ہوئے دہلی دھماکے میں کم از کم 12 افراد کی ہلاکت کے بعد سیکورٹی ایجنسیاں ممکنہ روابط کی تحقیقات میں تیزی لا رہی ہیں۔ اسی سلسلے میں فرید آباد پولیس نے شہر میں کرائے پر رہنے والے متعدد کشمیری طلبااور کرایہ داروں سے مسلسل پوچھ گچھ جاری رکھی ہے تاکہ مبینہ ’’وائٹ کالر ٹیرر ماڈیول‘‘سے متعلق کسی بھی ممکنہ سراغ تک پہنچا جا سکے۔فرید آباد پولیس کے مطابقاب تک 2,000 سے زیادہ کرایہ داروں سے پوچھ گچھ کی جا چکی ہےاور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
دھماکے کے بعد تحقیقاتی ایجنسیوں نے بین الریاستی تحقیقات شروع کی ہیں، جو دہلی، فرید آباد اور جموں و کشمیر میں جاری ہیں۔ فرید آباد کرائم برانچ نے یونیورسٹی کیمپس کا بھی دورہ کیا اور متعلقہ ریکارڈ کی جانچ کی۔انٹیلی جنس ایجنسیوں نے 20 لاکھ روپےکی مشتبہ فنڈنگ کا سراغ لگایا ہے، جس کا تعلق تین ڈاکٹروں عمر، مزمل اور شاہین سے جوڑا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ رقم مبینہ طور پر جیشِ محمد کے ایک ہینڈلرنے حوالہ نیٹ ورک کے ذریعے بھجوائی۔ اسی میں سے تقریباً 3 لاکھ روپے 26 کوئنٹل این پی کے کھادخریدنے پر خرچ کیے گئے، جو زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ دھماکہ خیز مواد کی تیاری میں بھی قابلِ استعمال ہوتی ہے۔
10نومبر کو لال قلعہ کے قریب کار دھماکےمیں 12 افراد جان سے گئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ اس کیس میں دہلی پولیس نے نئی ایف آئی آربھی درج کی ہے، جسے این آئی اے تفتیش کر رہی ہے۔گزشتہ جمعہ کو نیشنل میڈیکل کمیشن (NMC)نے جموں و کشمیر کے چار ڈاکٹروں ڈاکٹر مظفر احمد، ڈاکٹر عدیل احمدراتھر، ڈاکٹر مزمل شکیل، اور ڈاکٹر شاہین سعید کی میڈیکل رجسٹریشن منسوخ کر دی۔ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ملزمان جوڑوں کی شکل میں متعدد آئی ای ڈیز لے کر بیک وقت حملوںکی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ دہلی پولیس نے تصدیق کی کہ دھماکہ کرنے والا شخص ڈاکٹر عمر اُن نبیتھا، جس کی شناخت ڈی این اے نمونوں کے میچ ہونے کے بعد ہوئی۔دریں اثناء، الفلاح یونیورسٹی نے ڈاکٹر عمر اور ڈاکٹر مزمل سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹی کا ملزمان سے اُن کی سرکاری ذمہ داریوں کے علاوہ کوئی تعلق نہیںاور نہ ہی کیمپس میں کسی قسم کا مشکوک مواد یا کیمیکل رکھا گیا ہے۔