انیسویں صدی کے آغاز میں سر زمین یورپؔ بلکہ مشرق وسطیٰ پر بھی ایک بلائے ناگہانی اور اُفتادآن پڑی تھی ،ایک آندھی آئی ہوئی تھی جس کی زد میں آکر عظیم حکومتیں تاخت و تاراج ہوگئیں۔وجہ یہ تھی کہ اُن دنوں نپولین ؔ کا دبدبہ تھا اور ہر طرف ہیبت چھائی ہوئی تھی ۔والئی فرانس نپولینؔ فتوحات کرتے کرتے سیریا ؔ کو فتح کرنے کے بعد جب واپس مصرؔ لوٹا ،جس کو اُس نے پہلے ہی فتح کیا ہوا تھا ،تو اس کی آمد کی اطلاع ملتے ہی مصرؔ کے سربرآوردہ اشخاص اُس کے لئے تحفے تحائف لے کر اُس کے انتظار اور استقبال کے لئے شاہی محل کے باہر کھڑے تھے ۔معززین ِ شہر میں باقریؔ خاندان کے بزرگ اور سجادہ نشین امیر سیدؔ بھی کھڑے تھے ۔نپولین ؔ کے پہنچتے ہی امیر سیدؔ نے آگے بڑھ کر نپولین کا مصری تہذیب و روایت کے مطابق استقبال کیا،خوش آمدید کہا اور سب سے پہلے اپنا تحفہ اُس کی خدمت میںپیش کیا ۔نپولینؔ بہت خوش ہوا اور اُس کے شاندار گھوڑے کو دیکھ کر اُس کے منہ سے بے ساختہ نکلا ’’اتنا خوبصورت تندرست اور توانا گھوڑا تو میں نے آج تک نہیں دیکھا ہے ۔‘‘مگر اس کے ساتھ ساتھ نپولین کی نظر یں بار بار اُس بے انتہا مردانہ وجاہت لئے خوبصورت و تندرست سرمئی آنکھوں والے غلام کی جانب اُٹھ رہی تھیں جس نے گھوڑے کی لگام کو تھامے رکھا تھا ۔ وہی معنی خیز نظریں جب امیر سیدؔ کی طرف اُٹھیں تو وہ نپولینؔ کا مطلب سمجھ گئے اور پھر انکار نہ کرسکے ۔ انہوں نے اپنا سب سے پیارا اور معتمد غلام رستمؔ ابن ِ رضا اُن کو بخش دیا ۔اگرچہ دل ہی دل میں اُن کو کافی رنج ہوا اور رستمؔ کی جدائی سے ان کو ایک بڑا جھٹکا لگا ۔
مصری غلام ابن رضا کچھ ہی عرصہ میں اپنے انکسارانہ سلوک سے اپنے نئے آقا بونا پارٹ نپولینؔ کا منظور نظر بن گیا ،اس نے بہت جلد فرانسیسی زبان بھی سیکھ لی ۔اُس کی مصریؔ خوبصورتی اہل ِفرانسؔ کے لئے باعث ِکشش بن گئی ۔جب وہ نپولین ؔکے ہمراہ نکلتا تو حسینانِ فرانس دل کا نذرانہ لئے قطار اندر قطار منتظر رہتیں اور اُس مصری ؔ صنم پر ہزار جان سے فریفتہ ہوجاتیں،اُس کی ایک نظر یا ایک ہلکی سی مسکراہٹ پر واری واری ہوجاتیں،یہاں تک کہ نپولینؔ کی ملکہ جوزیفائن ؔبھی اُس پر نظر شوق رکھنے لگی ۔ شاہی رعونت و وقار شامل حال نہ ہوتا تو نہ جانے کتنی قبائیں چاک ہوجاتیں۔اُس کا لباس اہل ِفرانس کے فیشن میں داخل ہوگیا اور تو اور خود بادشاہ نے بھی ویسی ہی پوشاک پہننے کے لئے سلوائی۔رستمؔ ہر وقت نپولینؔ کے قریب رہتا تھا اور اُس کی خدمت گزاری پر فخر محسوس کرتا تھا ۔ ایک دن کافی رات گزر جانے کے بعد جوزفائینؔکو پتہ چلا کہ نپولین ؔکی خواب گاہ میں کوئی دوسری لڑکی موجود ہے ،یوں تو وہ ایک دوسرے کے دلدادہ تھے اور اُن کا آپس میں بہت پیار تھا لیکن ولی ٔ عہد پیدا نہ کرنے کی صورت میں نپولینؔ دوسری شادی کرنے کے لئے مجبور تھا ۔دوسری خواتین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے خطرے سے ملکہ بخوبی واقف تھی، اس لئے خبر ملتے ہی وہ نپولینؔ کی خواب گاہ کے دروازے پر جاپہنچی ۔
رستم ؔ کو دروازے پر سوتے دیکھ کر جوزفاینؔکا شک یقین میںبدل گیا ۔اُس نے خواب گاہ میں جانا چاہا مگر رستمؔ نے اُسے روکا تو اُسے تعجب ہوا کیونکہ رستمؔ نہ صرف اُس کا غلام تھا بلکہ اُس کا محبوب بھی رہ چکا تھا۔جوزفاینؔ نے اُس کی منت سماجت کی ، دُہائی دی ،ڈانٹ ڈپٹ کی ،چیخا چِلایا ،غصے میں آکر پھٹکار سنائی ،سخت وسست کہا مگر رستمؔ ٹس سے مَس نہ ہوا ۔اُس نے بڑے مودبانہ انداز میں ملکہ سے کہا :
’’ایک غلام کے سامنے عورت کی محبت آقا کی وفاداری سے زیادہ مرتبہ نہیں پاسکتی ۔ میں اپنی حیثیت بھولا نہیں ہوں اور نہ ہی میں احسان فراموش ہوں ۔اگر آپ میرے فرض کو نالائقی تصور کریں اُس میں میرا کیا قصور ہے،میں اپنے آقا کی حفاظت کررہا ہوں ،آپ اب تشریف لے جایئے ،اُن کی شب خوابی میں خلل پڑے ، وہ میں برداشت نہیں کرسکتا ۔‘‘
ملکہ ایک غلام کی یہ گستاخانہ روش برداشت نہ کرسکی ۔اُس نے خنجر نکال کر رستمؔ کے سینے پر وار کیا ،جو سینہ آقا کی حفاظت کے لئے ڈھال بنا ہو اتھا ،اُس پر خنجر کیا اثر کرتا ، اُس نے خنجر کھینچ کر ایک طرف پھینک دیا اور ایک بھرپور طمانچہ ملکہ کے منہ پر جھڑ دیا ، جس سے اُس کے رخسار پر انگلیوں کے نشانات اُبھر آئے۔نپولینؔ دروازے کے پیچھے سے یہ سب تماشہ دیکھ رہا تھا ۔وہ ایک دم باہر آیا اور ملکہ سے کہا کہ وہ اپنا شک رفع کرنے کے لئے بخوشی خواب گاہ میںآسکتی ہے،ملکہ جھپٹ کر نپولین ؔ سے لپٹ گئی مگر اُس نے ملکہ کو ایک طرف ہٹاکر رستمؔ کو گلے لگایا اور کہا:’’رستم تُو میرا غلام نہیں ،میں تیرا غلام ہوں۔توُ نے وفاداری اور جاں نثاری پر مہر تصدیق ثبت کرلی ہے ۔‘‘
امتداد ِزمانہ کے ساتھ رستم ؔ کا ستارہ بھی نپولینؔ کے ساتھ ہی غروب ہوا ۔ نپولین ؔکے بعد وہ کافی عرصہ زندہ رہا ۔بادشاہ سے ملے عطیات کو بیچ بیچ کر گزر بسر کرتا رہا اور آخر کار اجل کے سامنے سرنِگوں ہوگیا ۔ پیرسؔ میں ایک الگ تھلگ مگر خوبصورت جگہ پر آج بھی اُس کی قبر موجود ہے جس پر یہ عبارت کندہ ہے۔
’’یہاں نپولینؔ کا پیارا غلام رستمؔ ابن رضا محو استراحت ہے ۔‘‘
مسلمان گورا ہو یا کالا ،مشرقی ہو یا مغربی ،ایشائی ہو یا افریقی ،بادشاہ ہو یا رعیت ، حاکم ہو یا محکوم ،آقا ہو یا غلام ،ہر جگہ اور ہر حیثیت میں اُس کی اپنی ایک امتیازی شان ہوتی ہے اور وہ ایک انفرادی کردار کا مالک ہوتا ہے ۔اپنی تنگ نظری ،تعصب اور نفرت کی وجہ سے طلوع ِ اسلام کے کچھ عرصہ بعد سے ہی گرچہ یہودیوںؔ نے اولاً اور پھر نصاریٰؔ کے ساتھ مل کر دیگر غیر مسلم قوموں نے اسلام اور مسلمانوں کی ایک گھناؤنی تصویر نقش کرکے اور انہیں جاہل اور وحشی بناکر پیش کرنے کی مذ موم کوششیں کیں مگر وہ سب سعی ٔ لاحاصل ثابت ہوئیں، کیونکہ اسلام ربِ جلیل کا راستہ اور مقرر کردہ حد ہے ۔وہ دائرہ یا وہ حد کیسے نقش برآب یا ریت کی دیوار ثابت ہوسکتی ہے ؟حملے ہوتے ہیں ، ہوتے رہیں گے ۔ آزمائشوں کے دور ابتلا آتے رہے ہیں،آتے رہیں گے ،مگر ہر رات کے بعد صبح طلوع ہوتی ہے اورہمارے لئے بھی انشا ء اللہ وہ درخشاں صبح ایک دن ضرور طلوع ہوگی کیونکہ مشاہدہ بلکہ قاعدہ ٔ کلیہ یہی رہا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ع اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
بات اس شعر کے ساتھ ختم کرتا ہوں ؎
راہِ وفا میں جب بھی اندھیرا ہوا کبھی
ہم نے چراغ اپنے لہو سے جلائے ہیں
(متین طارقؔ)
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995