سرینگر // ماحولیات کیلئے تباہ کن اور انسانی صحت کیلئے مضرپالی تھین لفافے اور تھیلے بنانے کیلئے وادی میں کوئی بھی کارخانہ موجود نہیں ہے تاہم اسکے باوجودوادی پالی تھین کی ایک منڈی بن چکی ہے اور روزانہ شہرو دیہات میںسینکڑوں ٹن پولی تھین لفافے سڑکوں اور گلی کوچوں میں پڑے رہتے ہیں۔حیران کن امر یہ ہے کہ میونسپل حکام اس ناسور پر قابو پانے کے حوالے سے پلو جھاڑ رہے ہیں جبکہ پولیوشن کنٹرول بورڈ اس ضمن میں کام کرنے سے مکمل طور قاصر ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ پالی تھین لفافے بنانے کیلئے جموں میں درجنوں کارخانے کام کررہے ہیں اور پالی تھین کو ضائع کرنے کیلئے بھی یہاں کئی یونٹ قائم کئے گئے ہیں۔
پابندی
وادی میں سال2008میں پالی تھن پر مکمل پابندی عائد کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی کشمیر سے اس کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا ۔4اپریل 2018کو ریاستی ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کے سامنے ایک مفاد عامہ عرضی دائر کی گئی جس میں گھروں، ہوٹلوں،دکانوں اور کارخانوں سے نکلنے والے فضلہ کو ٹھکانے لگانے کیلئے میکانزم نہ ہونے کی طرف عدلیہ کی توجہ مبذول کرائی گئی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پالی تھین اور دیگر کوڑا کرکٹ کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے اور ایک اندازے کے مطابق روزانہ 700ٹن فضلہ نکلتا ہے لیکن سائنسی طریقہ کار کے ذریعہ اسے ضائع کرنے کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے من چاہے ڈھنگ سے سڑکوں، ندی نالوں، دریائوں،تالابوں،چوراہوں اور دیگر جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے جس سے وادی کے قدرتی آبی ذخائر زہر آلود ہو کر تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ریاستی ہائی کورٹ نے4اپریل 2018کو ایک حکمنامے میں پالی تھین کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کردی اور ریاستی سرکار کو ہدایات دیں کہ پابندی لگانے کے فیصلے پر اگر عملدرآمد نہیں کیا جاتا ہے ، تو ایسے افسران کیخلاف کارروائی کی جائے۔ریاستی ہائی کورٹ کے حکم نامے کے باوجود وادی میں پالی تھین پر پابندی لگانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔اسکے بعدمرکزی وزارت ماحولیات نے2دسمبر 2018کو ریاستی محکمہ ماحولیات اور جنگلات کو ایک چھٹی لکھی ہے جس میں مرکزی سرکار کے اس فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے کہ بھارت کو 2022تک پالی تھین سے پاک بنایا جائیگا۔محکمہ پولیو شن کنٹرول بورڈ اور میونسپل حکام نے عدالتی احکامات کی پیروی نہ کرتے ہوئے یہ دلیل تیار کی کہ ریاست میں صرف 50مائکران سے زیادہ پالی تھین استعمال ہوسکتا ہے ۔محکمہ پولیشن کنٹرول بورڈ کے لیگل ایڈوائزر ایم ایم شاہ نے کشمیر عظمیٰ کہ بتایا کہ پوری دنیا میںپالی تھین پر مکمل پابندی عائد نہیں ،البتہ ضوابط ہیں اور یہاں پر بھی قواعدو ضوابط کا استعمال ہو رہا ہے۔انہوںنے کہا کہ ملک بھر کے ساتھ ساتھ کشمیر وادی میں بھی 50مائکران سے زیادہ والے پالی تھین کا استعمال ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ 50مائکران پالی تھین موٹا ہوتا ہے اور یہ زمین پر پڑنے کے بعد ہوا میں نہیں اڑتا ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یورپی ممالک میں کہیں پر بھی پالی تھین کا استعمال نہیں ہوتا اور وہاں اس پر مکمل پابندی ہے۔حتیٰ کہ نئی دہلی سرکار نے 4جولائی 2015کو پالی تھین پر پابندی عائد کرتے ہوئے ایک کابینہ میٹنگ میں فیصلہ کرتے ہوئے یہ ہدایات دیں’’کوئی شخص،دکاندار،چھاپڑی فروش،ہول سیلر یا ڈیلر،تاجر،ہاکریاریڈہ والا پالی تھین بیگوں کو نہ فروخت کرسکتا ہے اور نہ انہیں استعمال کرسکتا ہے،کوئی شخص پالی تھین لفافوں یا بیگوں کو نہ تیار کرسکتا ہے نہ اسے بر آمد کرسکتا ہے،نہ گاڑیوں کے ذریعے اسے کہیں لیجا سکتا ہے، کوئی عام شہری پلاسٹک یا پالی تھین لفافے استعمال نہیں کرسکتا،پلاسٹک یا پالی تھین کی تشہیر کسی بھی میڈیا ادارے، اخبارات، کتابوں ،میگزینوں،یا شادی بیاہ کے کارڈوں پر نہیں کی جاسکتی‘‘۔نئی دہلی حکومتی فیصلے میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ 40مائکران ہویا اس سے زیادہ ، ہر قسم کے پالی تھین اور پلاسٹک پر پابندی ہے۔24جنوری 2018کو ممبئی میونسپل کارپوریشن نے بھی پلاسٹک چیزوں اور پالی تھین لفافوں پر مکمل پابندی عائد کردی۔میونسپل کارپوریشن نے فوری طور پر اسکا اطلاق کر کے خلاف ورزی کرنے والوں پر 25ہزار روپے جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کیا۔پالی تھین بنانے اور اسے فروخت کرنے پر کارروائی کرنے کیلئے 280ٹیمیں بنائیں گئیں اور پابندی پر عمل در آمد کرایا گیا۔لیکن پولیوشن بورڈ کے قانونی مشیر کہتے ہیں پوری دنیا میں پالی تھین پر کوئی پابندی نہیں۔
ری سائیکلنگ
پولیوشن کنٹرول بورڈ حکام کا کہنا ہے کہ وادی میں ری سائیکلنگ کا صرف ایک یونٹ لاسی پورہ پلوامہ میں کام کررہا ہے لیکن جموں میں اس کو ضائع کرنے کیلئے کئی ایک یونٹ کام کر رہے ہیں ۔ حکام کا کہنا ہے کہ مرکزی سرکار سے پہلے ہی یہ استدعا کی گئی ہے کہ وہ پالی تھین میٹریل اور پلاسٹک پر پابندی عائد کرے تاکہ اس طرح کا کوئی بھی مال وادی در آمد نہ ہوسکے۔جموں میں اگرچہ ضائع پوپا تھین کی ری سایئکلنگ کیلئے کئی ایک یونٹ کام کر رہے ہیں مگر کشمیر میںاسکا کوئی خاص بندابست نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اُس کو ندی نالوں اور دریائوں کی نذر کر دیتے ہیں ۔اچھن عید گاہ سرینگر میں شہر سرینگر سے نکلنے والے فضلے کو روزانہ کی بنیاد پر ضائع کرنے کا سائنسی طریقہ رکھا گیا ہے لیکن یہاں بھی پالی تھین کو ضائع کرنے کا کوی انتظام نہیں ہے اور شہر سے روزانہ قریب 3ٹن پالی تھین یہاں جمع کیا جاتا ہے۔
پالی تھین کی تیاری
جموں میں ایسے 15یونٹ کام کر رہے ہیں جو 50میکران سے زیادہ پالی تھین بیگ یا لفافے تیار کرتے ہیں ۔پالی تھین یونٹ قائم کرنے والوں کیلئے 10لاکھ کی بنک گارنٹی رکھی گئی ہے اور اس کے ساتھ یونٹ کا نام فون نمبر ، اُس کی قیمت لفافہ پر ہونی لازمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں اس کیلئے کوئی سامنے نہیں آیا ہے ۔
ماہرین کی رائے
ماہرین کا کہنا ہے کہ پالی تھین کوئی بھی ہو، انسانی صحت اور ماحولیات کیلے زہر آلود ہے اور اُس کو استعمال میں لانے کی اجازت کس بھی صورت میں ٹھیک نہیں ہے ۔ماہرین کے مطابق استعمال شدہ پالی تھین کو ضائع کرنے کیلئے سرکار کے پاس کوئی منصوبہ نہ ہونے کے نتیجے میں لفافوں اور تھیلوں کو گلی کوچوں، سڑکوں، نالیوں، دریاؤں، ندی نالوں، باغیچوں، حتٰی کہ گھروں کے باہر بھی بغیر سوچے سمجھے پھینک دیا جاتا ہے اور یہی لاپرواہی ماحول کی آلودگی کا سب سے بڑا سبب بن چکی ہے۔ ندی نالوںجہلم اور ڈل میں اس کو پھینکنے سے پانی زہر آلود بن چکا ہے ۔ ماہر ماحولیات شکیل رامشو کے مطابق شہر سرینگر میں ہزاروں ٹن پالی تھن کا استعمال روزانہ ہوتا ہے جس کو استعمال کے بعد لوگ گھروں سے باہر کھلے میں یا پھر ندی نالوں میں پھینک دیتے ہیں ۔انہوں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پالی تھین کی روک تھام کیلئے اب صرف اعلانات کافی نہیں بلکہ عملی طور پر ٹھوس اقدامات اور عوام کو اس کے نقصانات سے آگاہ کرنا ضروری ہے اور اسکا متبادل ہونا ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ پالی تھین پر بابندی کے حوالے سے کئی آڈر جاری کئے گئے لیکن اُن پر کہیں بھی عمل نہیں ہو سکا ۔
میونسپل حکام
میونسپل کارپوریشن حکام نے بتایا کہ اُن کا کام پالی تھین کو ضبط کرنا ہے اُس پر پابندی لگانا ہمارا کام نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ جہاں سے بھی انہیں یہ شکایات ملتی ہیں تو چھاپہ مار کارروئیاں انجام دے کر اس کو ضبط کر کے اُس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی انجام دی جاتی ہے۔لیکن پولیوشن کنٹرول بورڈ ہو یا میونسپل کارپوریشن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ جموں سے ہر روز سینکڑوں ٹن پالی تھین لفافے کیسے ٹرکوں میں بھر کر سرینگر پہنچ رہے ہیں، دکاندار کیسے پالی تھین لفافے کھلے عام فروخت کررہے ہیں اور وادی کے ضلع و تحاصیل ہیڈکوارٹروں کے علاوہ دیگر قصبوں میں استعمال شدہ پالی تھین کو کیسے جمع کر کے ضائع کیا جاسکتا ہے، اسکے لئے کب مربوط میکانزم روبہ عمل لایا جاسکتا ہے۔