ویں خداوندی کے تین بنیادی اصول مسلّمہ ہیں ۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی پاک زندگیوں میں ان ہی تین اصولوں کی دعوت دی ہے۔ یہ تین اصول ہیں : توحید، رسالت، اور آخرت ۔ قرآن مقدس نے بھی ان ہی تین عقیدوں کو محور بنا کر نوع انسانی کو الٰہی تعلیمات سے سرفراز کیا ۔ سب پہلا بنیادی عقیدۂ ہے توحید۔ جب بھی دنیا میں رہنے والی قوموں میں کسی طرح کا بگاڑ پیدا ہوا تو شروعات توحیدسے انحراف سے ہوئی جس سے آگے عقیدہ رسالت کی چولیں ہل گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور جس چیزپر دیا ہے ،وہ عقیدۂ توحید ہے اور اس کے لئے اپنے آخری پیغمبر محمد عربی ؐ کو رول ماڈل کے طور پیش کیا۔ دنیا کی دو قدیم قومیں توحید باری کے راستے سے دور ہوئیںجیسے یہودی اور عیسائی تو اللہ کے غضب اور گمرہی کے تختۂ مشق بن گئے ۔ یہ قومیں خدا کی قائل تھیں ، ملحد ومنکر نہ تھیں لیکن اللہ کے ساتھ ساتھ انہوں نے اور وں کو بھی خالقیت ومالکیت اور اختیارات کے درجے پر لاکھڑا کر دیا تو اللہ کی رحمت سے محروم ہوئیں ۔یہ لوگ اللہ کے ساتھ اپنے بتوں، راہبوں اور رسوم ورواجات کو بھی خدائیت میں شریک ٹھہراتے تھے۔قرآن نے سب سے بڑا اہم کارنامہ یہ انجام دیا کہ بت پرستی کو پاش پاش کردیا۔ قرآن کی روشنی نے شرک و بت پرستی کی تمام اقسام کی تاریکیاں مٹادیں۔ تاریخ اسلام گوہ ہے کہ توحیدی احکامات نے نزول قرآن کے وقت مکہ معظمہ کے اہل شرک کو زیادہ مشتعل کر دیا جب کہ اہل ایمان اصنام پرستی اور گمراہ کن کاموں سے باغی ہوکر ایک اللہ کے بندے ہوئے ۔ ان کے دلوں میں بویا گیا توحید کا بیچ بہت جلدتناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ قرآن نے شرک وبت پرستی کو نہیں بلکہ شرک نما ا عمال کو بھی مکمل طور رد کیا ۔ آپﷺ اور صحابہ کرامؓ نے توحید کے خلاف باریک سے باریک تر حرکت وجنبش کو بھی برداشت نہ کی۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیںہے کہ آپ ﷺ جس پیڑ کے ساتھ ٹیک لگا یا کرتے تھے اُسے جڑ سے اُکھاڑاگیا کیونکہ بعض لوگ اس کی تعظیم کر نے لگے تھے ، اندیشہ یہ تھا کہیں بعد کے لوگ اس کی پرستش شروع نہ کریں ۔ یہ تھا توحید باری کا ثمرہ ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ تمام پوشیدہ و ظاہری باتوں کو جاننے والا ہے۔ رحمن ہے رحیم ہے، وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ بادشاہ پاک ذات ہے ،وہ زبردست غالب اور صاحب عظمت ہے ،وہ خالق ہے،موجد ہے،مصور ہیں ،تمام عمدہ عمدہ نام اسی کے لئے مخصوص ہیں‘‘۔
قرآن پاک کی دعوت اورخدائی احکامات اور عقیدۂ رسالت باہم دگر مربوط ہیں ۔ جہان عقیدہ توحید درست ہوگا وہاں عقیدہ رسالت بھی مستحکم ومنضبط ہوگا۔انسانیت کے لئے ہر دور میںاور ہر مرحلے پر خدا ترسی ، شرافت، روحانیت، صالحیت، عظمت وبزرگی کا سرچشمہ ہیں ۔ بلاشبہ الہامی آیات ہمارے لئے قبلہ نما اور رہبری کا وسیلہ ہیں۔ قرآن کی کیمیا اثر تعلیمات نے تاریخ کو بدل ڈالا، قوموں کی تقدیریں بدل دیں ، فرش پر رہنے والوں کو عرش پر بٹھایا۔ اسی نسخہ کیمیا سے صحابہؓ کے دل اللہ تعالیٰ نے منور کردئے۔ حضرت عمر ؓبن خطاب جیسے شخص کو قبل از ایمان چند ہی آیات نے پوری طرح بدل کر رکھ دیا۔ کلام اللہ نے ہی پتھر دلوں کو نرمی وملائمت کی غیر معمولی قوت عطا کی۔ خالق و مخلوق کے روابط میں بدلاؤ لایا، جہاں کفر اور شرک کاچرچا تھا ،وہیں ہدایت اور ایمانی قوت کا دبدبہ ظاہر ہونے لگا۔ توحیدی تعلیمات کو من و عن عملا کر ہی صحابہ کرامؓ نے قیصر و کسریٰ سمیت تمام اسلام مخالف طاقتوں کو زیر کر دیا اور خدائے واحد کی ذات پر مکمل اعتماد و توکل کرکے بہت کم عرصے میں عالم عرب پر اسلام غالب ٓگیا۔
اس وقت اہل ایمان روحانی قوت اور ایمان سے لبریز تھے کیونکہ آیات مقدسہ اور سیرت مبارکہ نے مسلمانوں کو ہر خوف اور طمع سے پاک کر کے اللہ کی خوشنودی اور طاعت رسول ؐ پرفریفتہ بنا دیا تھا،ان کے حوصلے بلندکر دئے تھے ۔ خدا کی ذات اور پیغمبر کریم ؐ کی قیادت میں خدائی احکامات پر قائم رہنے کی ادا ئے دلبرانہ سے انہوںنے پلک جھپکتے ہی سلطنتیں فتح کیں، قوموں پر حکمرانی کی، انسانوں کو پجاریوں،کاہنوں ، راہبوں اورپادریوں ، پروہتوں اور خدائی دعوی ٰ کر نے والے آمریت پسندوں کی بدترین غلامی سے چھڑوا دیا،علوم و فنون کو غیر معمولی ترقی بخش دی۔اس انقلاب قلب و ذہن کے پیچھے ایک قرآن اور رسول رحمت ؐکی پاک سیرت ؐتھی ۔اللہ تعالیٰ کواس انقلاب سے یقینا توحید ورسالت کی بنیادوں پرانسانیت کی تکمیل مقصد تھی۔قرآن میں دراصل وہ خدائی احکامات اور اصول بیان کئے گئے ہیں جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ قرآنی دعوت کے ابتدائی ادوار میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت علی کرم ا للہ تعالیٰ وجہہ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان غنیؓ ،حضرت حمزہ ؓ جیسی اولوالعزم ہستیوںاور دیگر اصحاب ؓکا اسلام قبول کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ کلام اللہ نے ان کے دلوں کو بو ساطت رسالت راہِ ہدایت کھول دی تھی ۔ آپ ﷺ کی مساعی ٔجمیلہ سے قرآن کے ایسے احکاماتِ توحید نافذ ہوئے جو عرب معاشرے کے عین مخالف تھے ۔
یہ بات عیاں ہے کہ دنیوی زندگی آدھی ادھوری ہے جت تک اس کی رُوح میں آخرت کے حساب وکتاب کا عقید ہ ا ور مع نقش ِ راہ پیوست نہ ہو۔ آخرت کی حقیقت ہم پر دُنیا میں ہزار بار واضح ہوتی ہے۔ ہم دور کیوں جائیں، اپنی روز مرہ زندگی کے معاملات ہی اس کو سمجھنے کے لئے دیکھیں ۔ ہم اپنی کھیتوں میں بیج بوتے ہیں اور وقت مقررہ پر فصل کاٹتے ہیں، موسموں کو بدلتے دیکھتے ہیں، رات دن اورماہ وسال کی گرد ش اپنی آنکھوںسے دیکھتے ہیں۔ اگر یہ سارے بدلائو ناگزیر ہیں تو دنیا میں کئے گئے اعمال جزاء و سزا کیوں لازم و ملزوم نہ ہوں ؟ قرآن پاک اس گردش لیل ونہار یا بونے اور کاٹنے کے عمل کو آخرت سے موسوم کرتا ہے۔ آخرت کے اسی تصور سے ہر کوئی انسان گناہ سے بچ سکتا ہے اور ایمان کی ڈگر چل سکتا ہے ۔ جس شخص کا یہ عقیدہ جتنا مضبوط ہوگا اُتنا ا س کا رشتہ اللہ سے مستحکم ہوگا۔ قرآن نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ دنیا کی زندگی کتاب کا ایک حصہ ہے جب کہ آخرت زندگی کی کتاب کا اختتام ہے۔ یہ دنیا اور آخرت دونوں آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور یہ ایک دوسرے کے بغیرادھورے ہیں۔ یہاں جو کچھ ہم کریں گے وہی ہم آخرت میں بھریں گے ۔ قرآن کا یہ عقیدہ ایک مسلمان کے لئے زندگی کا محور کاکام دیتا ہے، اس کے قول وفعل پر آخرت کی جوابدہی کی لگام کستا ہے جو باایمان کو منزلِ ہدایت کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ ہم اکثر اپنے گرودپیش میں مسلمانوں کو نمازوں کا پابند اور دوسرے نیک اعمال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن کبھی کبھار مسلمان کلمہ گو ہوتے ہوئے بھی بعض لوگ اوروں کی حق تلفی کرتے ہیں،یتیموں کا مال کھاتے ہیں، اپنے مال کی زکوٰۃ نصاب کے مطابق ادا نہیں کرتے ہیں ، رشوت ، جھوٹ یا وعدہ خلاف کرتے ہیں ۔ ایسے مسلمانوں کے قلب وجگر میں آخرت کا تصور ناقص ہوتا ہے، لیکن جب یہ تصور دل میں گہرے طور رچ بس جائے تو حضرت صہیب رومیؓ کی طرح اسے دنیا کا مال و متاع ہیچ نظر آتا ہے۔ اصحاب کبار ؓ آخرت کی ناکامی کے خوف اور کامیابی کی طمع میں ہمہ وقت لرزاں و ترساں رہتے تھے اور کچھ بھی اچھا کر کے دنیا میں ہی گویا جنت کی خوشبو پاتے تھے۔ ان کا مقصد زیست اطیعو اللہ و اطیعو الرسول ہوتا تھا جس کے آخری سرے پر جنت کی بشارتیں تھیں ۔
غرض کتاب اللہ جن تعلیمات کا مجموعہ ہے، وہ انسانیت کے زیور کے آراستہ ہیں۔جو بھی خوش نصیب بندہ اپنی زندگی میں ان سے مزین ہوا،وہ اپنے اندر ایمان ونیک عملی کی چاشنی ہروقت محسوس کرتا ہے ، وہ خود اس چاشنی کو اخذکر کے دوسروں کو بھی اس کی طرف مائل کردیتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کے تقاضے پورے کر کے اپنی نجی زندگی ، سماجی زندگی ، ازدواجی زندگی، پرہیزگاری، تقویٰ شعاری، تزکیہ نفس، یتیموں کی محافظت ، غریبوں کی امداد، خدمت خلق اللہ، عدل و انصاف اور سمع واطاعت جیسے شعبوں میں مخلصانہ طور سرگرم رہ کر صرف آخرت کی کامیابی کا ہنر پاتا ہے ۔ کتنا بڑا انعام ہے اسلام دنیا کے لئے لیکن افسوس ہم اس لافانی انعام کی قدر نہیں کر تے ۔علامہ سید رشید رضا نے اپنے ایک کتابچہ میں رقم کیا ہے کہ جرمنی کے ایک سفیر نے ایک بار میرے ساتھ قوموں کی ترقیاتِ حاضرہ پر گفتگو کی تو میں نے بتایا کہ میرے نزدیک مسلمانوں کی تباہی اور بُربادی کاسبب یہ ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں کو چھوڑ بیٹھے ہیں ۔ اس پر سفیر موصوف نے میرے خیال کی تصدیق کی اور کہنے لگا۔’’بے شک اسلام کے عقائد پہاڑوں کی طرح مستحکم اور بلند وبالا ہیں لیکن تم لوگوں نے انہیں اس طرح زمین کے اندر دفن کر دیا ہے کہ آج ان کا پتہ نہیں چلتا۔اس کے بر خلاف عیسائیوں کے پاس کوئی بھی شئے موجود نہیں لیکن پھر بھی اس کی اشاعت و تبلیغ میں اس قدر مصروف اور سرگرم رہتے ہیں کہ آج وہ تمام دنیا پر چھاگئے ہیں‘‘۔
اسلام ایک مکمل دین ہی نہیں بلکہ ایک کامل نظام حیات ہے ،قرآن ہر دور میں رہنمائی ہے۔ اس کے حرف حرف میں رحمت اور ہر حکم میں فلاح کار راز پوشیدہ ہیں ۔ یہ گوہروں کا خزینہ ہے ،امن و سکون کا بے کران سمندر ہے لیکن ایمان کے سفینے میںاس سمندرمیں سفر کا ہُنر شرط ہے۔ سیدبدیع الزماں نورسی فرماتے ہیں کہ یہ کائنات رب العالمین نے جنت کی طرح تخلیق کی ہے ،اس میں ہر قسم کے میوے ہیں اور ہر ایک سامان زندگی میسرہیں لیکن پھل توڑنے والا، کھانے والا، پرکھنے والا اگر خوبیوں سے محروم ہے تو اس میں کس کا قصور ہے ؟ خامیاں اور کمزوریاںہم میں بدرجہ ٔ اتم موجود ہوں اور اصلاح کا نشتر منظور نہ ہوتو نتائج کہاں سے موافقا نہ ظاہر ہوں گے۔ ہم مسلمان اگر اسلام کے تحائف وانعامات کی قدر پہچانیںتو یقینا کامیابیاں ہمارے قدم اسی طرح چومیں گی جس طرح کا وعدہ قرآن نے کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ عقیدہ ٔ توحید ،رسالت اور آخرت کے صدقے قرآنی احکامات کو من و عن دلوں میں اُتاریں ا ور اعمال کی زینت بنائیں تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں علم و حکمت اور صبر و فتح سے ہمکنار کرے۔
نوٹ :مضمون نگار جامعہ اسلامیہ مہدالمسلمات کی سربراہ اور دینی و فلاحی تنظیم’’انصار ُالنسا ء‘‘ کی چیرپرسن ہیں۔
) رابطہ [email protected])