کچھ عرصہ سےزیادہ تر کرائم کی وجہ سوشل میڈیا کا غلط اور بے جا استعمال بن گئی ہے لیکن اگر ملک کا سارا انحصارسوشل میڈیا پر ہوجاۓ ، قانون خود کو اس کے سامنے چھوٹا بنا رہے، قانون ساز خود ظالموں کی حمایت کرنے لگیں تو سچ میں ملکایک بے حد غلط راستے پر نکل پڑا ہے۔ ابھی حال میں جتنے بھی ہجومی قتل(مآب لینچنگ) کے کیس سامنے آئے ہیں ، ان میں سے زیادہ تر حملوں کے پیچھےسوشل میڈیا کا ہی ہاتھ بتایا جاتا ہے اور زیادہ تر موقعوں پر سوشل میڈیا پر ہی غلط افواہیں پھیلا ئی گئی تھیں۔ اس افواہ بازی نے لگ بھگ ڈیڑھ درجن معصوموں کی جان چند دنوں میں ہی لے لی۔ دیکھا جائے تو مودی کے دور اقتدار میں ہجومی قتل کی شروعات زور وشور سے ہوئیں ۔ یہ قاتلانہ سلسلہ پونے کے محسن شیخ سے شروع ہوا۔ محسن شیخ کی مآب لینچنگ کے پیچھےمسلمانوں سے نفرت کا جذبہ کارفر مارہا ۔ پونے کے بعد سے یہ سلسلہ چل پڑا جو فی الحال جاری ہے، فرق صرف اتنا کہ پہلے مذہب اور گاۓ کے نام پر لوگ مار ے جاتے تھے اور اب یونہی کسی بھی بات پر کسی کو بھی ہجومی قتل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حد یہ کہ تریپورہ میں غلط افواہوں پر دھیان نہ دینے کااعلان کرنےوالے ایک سرکاری ملازم کو ہجوم نے بر سر بازارموت کے حوالے کر دیا۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہجومی قتل کے جرم میں بند قیدی جب ضمانت پر جیل سےباہر آئے ایک مر کزی وزیر جینت سنہا نے ان کا خیرمقدم پھول مالاؤں کے ساتھ کر کے ایک دوسری ہی کہانی کی ابتدا کی۔مآب لینچنگ کی وارداتیںکئی ریاستوں میں ا بھی تک ہوچکی ہیں۔ کشمیر سے لے کر تمل ناڈو تک گجرات سے لےکر تریپورا تک یہ جان لیوا اور بھیانک سلسلہ اپنا بدنما چہرہ دکھا چکاہے۔ بھلے ہی وجوہات الگ الگ رہیں لیکن جانیں سب وارادتوں میں گئیں ۔جون ۲۰۱۷ میں انڈیا اسپینڈ میں چھپے ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۰ سے آگے گئو کشی کے الزام میںمآب لینچنگ میں مارے گۓ لوگوں میں ۸۴ ؍ فیصد مسلم تھے جب کہ ۲۰۱۴ سے۲۰۱۷ تک یہ بڑھ کر ۹۷ ؍ فیصد ہو گئی ہے۔ اس نوعیت کے حالیہ کچھ حملے ایک الگ ہی داستان بیان کرتے ہیں۔ ان حملوں کی رفتار اور تکراردیکھتے ہوئے اب کسی کو پکا یقین نہیں کہ کب کون کہاں بنا کسی جرم کے صرف الزام یا افواہ کی بنیاد پر قاتل بھیڑ کے ہتھےچڑھ جاۓ اور پھرکون سا نیتا ان قاتلوں کا پھول مالاؤں سے سواگت کرنے کھڑا ہو۔پچھلے ۱۸ ؍مہینے میں بچوں کی چوری کی افواہوں میں ہوۓ ۶۹ ؍حملے میں۳۳ ؍لوگ ہجومی قتل میں اپنی جان گنوا بیٹھے اور ان سب کی جان افواہ بازی کے سبب گئی۔ سرکار اس پر بالکل بھی کچھ نہیں کرتی جب کہ جمہوری کا چوتھا کھمبا کہلائی جانے والی صحافت بھی گنگی، اندھی اور بہری بن بیٹھی ہے۔ اس وارداتوں کے بارے میں زیادہ تر میڈیا ہاؤس وہی دکھاتے ہیں جو سرکار چاہتی ہے اور ہر حادثے میں مقتول کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔