طارق حمید شاہ ندوی
انسانی زندگی میں گھر وہ پہلا مدرسہ ہے جہاں سے کردار کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور وہی مقام ہے جہاں محبت، عدل اور سکون کا چراغ روشن ہونا چاہیے۔ مگر افسوس کہ اکثر گھروں میں یہ چراغ بجھنے لگتا ہے کیونکہ گھریلو نظام میں اعتدال اور توازن کے بجائے ضد، انا اور بے جا اثر و رسوخ حاوی ہو جاتا ہے۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض گھروں میں عورت کا مکمل کنٹرول قائم رہتا ہے۔ ابتدا میں یہ شاید ایک انتظامی خوبی معلوم ہو، مگر جب یہ اختیار حد سے بڑھ جائے تو یہی طاقت مشکلات کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گھر، جو سکون کا گہوارہ ہونا چاہیے تھا، ایک ایسا قید خانہ بن گیا ہے جہاں ہر فرد اپنی آزادی اور خوشی کے لیے ترسنے لگتا ہے۔
جب عورت اپنی بیٹی کے مشوروں اور خواہشوں پر حد سے زیادہ انحصار کرنے لگتی ہے اور شوہر بھی اپنی ذمہ داریوں میں کمزور پڑ جائے تو نظام ایک غیر فطری ڈگر پر چلنے لگتا ہے۔ یوں گویا گھر کے اصل وارث — بیٹے — کنارے لگا دیے جاتے ہیں اور ان کی محبت و قربانی کے باوجود والدین ان سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ منظر بالکل ایسے ہے جیسے درخت کی جڑوں کو کاٹ کر شاخوں کو سینچنے کی کوشش کی جائے، انجام یہی ہوتا ہے کہ درخت سوکھنے لگتا ہے۔
اس نظام کا سب سے بڑا شکار بیٹے بنتے ہیں۔ وہ بیٹے جو والدین کے لیے محنت کرتے ہیں، ان کی عزت اور خوشی کے لیے قربانی دیتے ہیں، لیکن گھر میں ان کی بات کو وزن نہیں دیا جاتا۔ کئی بیٹے اس ناانصافی سے ٹوٹ جاتے ہیں، کچھ خاموش ہو جاتے ہیں اور کچھ اپنے ہی والدین سے دل برداشتہ ہو کر فاصلے اختیار کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ ایک بھائی کا کہنا ہہے ،’’ہم نے بھی یہ سب جھیلا ہے، بہتر یہی ہے کہ صبر کرو، وقت گزر جائے گا، اللہ سے دعا مانگو، اپنا کام کرتے رہو اور پریشان نہ ہو۔‘‘ یہ جملے بے بسی اور دل کی تھکن کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایک اور بڑی غلطی یہ ہے کہ شادی کے بعد بھی بیٹی کو والدین اور بھائیوں پر بوجھ بنا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلام نے واضح طور پر بیٹی کی کفالت کی ذمہ داری شادی تک والد پر اور شادی کے بعد شوہر پر رکھی ہے۔ مگر بدقسمتی سے اکثر دیکھا گیا ہے کہ مفلس اور نادار والدین اور بھائیوں سے بھی بیٹی اور داماد کی خواہشات پوری کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ اس عمل سے نہ صرف عدل و انصاف پامال ہوتا ہے بلکہ بیٹوں کے دلوں میں کدورت اور بے اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک چھت پر بوجھ سے زیادہ وزن ڈال دیا جائے — آخرکار وہ چھت ٹوٹ کر گر جاتی ہے۔
اسلام نے ہمیں عدل اور توازن کا درس دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے،’’بیشک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔‘‘ اگر گھروں میں والدین عدل کو اپنا اصول بنا لیں، بیٹے اور بیٹی کے درمیان انصاف سے کام لیں، داماد کو بیٹے پر ترجیح دینے کے بجائے دونوں کو برابر دیکھیں تو محبتیں پھر سے پروان چڑھ سکتی ہیں۔
ہمیں سوچنا چاہیے کہ گھر ایک شجر ہے، جس کی جڑیں بیٹے ہیں اور شاخیں بیٹیاں۔ اگر جڑوں کو پانی نہ دیا جائے اور ساری توجہ شاخوں پر رکھی جائے تو نہ شاخیں سلامت رہتی ہیں نہ جڑیں۔ گھریلو نظام بھی اسی طرح ہے۔ عدل و توازن کے بغیر نہ محبت قائم رہ سکتی ہے نہ سکون۔آج ہماری سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ گھریلو نظام کو انا اور ذاتی خواہشات سے نکال کر عدل اور انصاف کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ اگر ہر فرد اپنی جگہ انصاف کرے تو یقیناً ہمارے گھر امن کے گہوارے بن جائیں گے۔