جموں و کشمیر میں کولیشن سرکار گرائے جانے کے ما بعد ممکنہ حکومت سازی کی خبریں اورسیاسی چہ مہ گوئیاں ہورہی ہیں۔کولیشن سرکار 19؍جون 2018ء کو گر گئی جب کہ وقت کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی سول سیکرٹریٹ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اپنے دفتر میں ایک مٹینگ منعقد کرنے میں مشغول تھیں۔محبوبہ مفتی کو یہ اطلاع گورنر این این ووہرہ نے فراہم کرائی کہ بھاجپا نے اُن کی حمایت سے ہاتھ کھنچ لیا ہے ۔ اُنہیں اُسی طرح اپنی حکومت کے گرنے سے بے خبر رکھا گیا جیسے 1953ء میں شیخ محمد عبداللہ کو جموں و کشمیر کی بظاہر پہلی عوامی حکومت گرنے سے بے خبر رکھا گیا ۔ اسے تواریخِ کشمیر کا اعادہ ہی سمجھائے جائے گا کہ اُسی حساب سے محبوبہ مفتی کی چٹھی کر دی گئی جس حساب سے پہلے کی کئی ریاستی سرکاروں کی چٹھی کر دی گئی کیونکہ وہ دہلی سرکار کی نظروں میں اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکی تھیں۔حکومتوں کو گرانے کا یہ عمل نہ ہی جموں و کشمیر میں پہلی بار کیا گیا نہ ہی یہ آخری بار ہو گا ۔ دیکھا جائے تو بھارتی ریاستوں میں حکومتیں بنتی بھی ہیں اور گرتی بھی ہیں اور ویسے ہی ہر جمہوری معاشرے میں حکومتوں کا بننا اور گرنا ایک نارمل عمل ہے البتہ جموں و کشمیر میں حکومتوں کا بننا اور گرنا اکثر و بیشترایجنسیوں کی کرامات ہو تی ہے ا ور ایک حکومت کے تحلیل و دوسری کی تشکیل کے پس پردہ کئی عناصر کر فرما ہوتے ہیں۔
19جون 2018ء کے روز محبوبہ مفتی کی سرکار گرنے کے بعد گورنر راج نافذ ہوا اور اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بجائے معطل رکھا گیا۔ قانون اساسی کے مطابق یہ ایک ایسی اسمبلی ہے جو قائم تو ہے لیکن عمل سے محروم چونکہ گورنر راج میں قانون سازی گورنر کے فرائض میں داخل ہوتی ہے۔ایک ایسی اسمبلی میں قانوں سازیہ کے ممبراں کی ممبری بحال اور اُنکی تنخوائیں چلتی رہتی ہیں لیکن وہ مجموعاََ قانون سازی کے عمل سے محروم رہتے ہیں۔ایسا تب تک ہوتا ہے جب تک کہ ممبراں کی اکثریت ایک حکومت تشکیل دینے کے قابل نہ ہو جائے۔دور حاضر میں پی ڈی پی کے کچھ ممبراں سے اقتدار چھننے کا غم ہضم نہیں ہوتا اور وہ ایسی کوششوں میں مشغول نظر آتے ہیں جہاں ایک ایسا سیاسی صحنہ منظر عام پہ آ سکے جس میں ممبروں کی اکثریت ایک نئی حکومت تشکیل دے سکے۔ محبوبہ مفتی سرکار کو گرے ہو ئے کچھ ہی دن ہو چکے تھے کہ انصاری خاندان سے وابستہ دو ممبراں اسمبلی عابد انصاری اور عمران نظیر انصاری نے جو رشتے میں چچا بھتیجا لگتے ہیں بغاوت کا پرچم بلند کیا۔ اُنکا الزام یہ رہا کہ محبوبہ مفتی نے خاندانی راج قائم کیا ہے جس کی دلیل اُنکے ماموں سر تاج مدنی اور بھائی تصدق مفتی کی پی ڈی پی میں برتری ہے۔انصاری خاندان کے افراد یہ الزام لگاتے ہوئے شاید یہ بھول گئے کہ وہ بھی نسل بہ نسل سیاسی مقامات پہ فائز ہوتے رہے ہیں۔ اُنکے ساتھ پی ڈی پی کے کچھ اور ایم ایل اے اور ایم ایل سی شامل ہوئے جو خاندانی راج کا راگ الاپتے رہے حالانکہ یہی خاندانی راج کچھ ہی دن پہلے قابل قبول تھے۔حیرت کا مقام یہ ہے کہ بغاوت پی ڈی پی میں جمہوریت کی بحالی کا عنواں لئے ہوئے ہے۔اِس بات کا جائزہ لینے سے پہلے کہ یہ بغاوت آئندہ کوئی رنگ لائے گی یا نہیں ہم ماضی میں جمہوریت کے نام پہ ریاست جموں و کشمیر میں کیا کھلواڑ ہوتا رہا ہے اُسکا ایک بھر پور جائزہ لیں گے تاکہ موجودہ حالات کا پس منظر نظر میں رہے۔
ایک تاریخی جائزے میں یہ عیاں ہوتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں جمہوریت کے نام پہ جو عناصرعمل پیرا رہے ہیں اُن کے اعمال در حقیقت جمہوریت کی روح کے منافی رہے ۔ کشمیر میں ویسے بھی جمہوری عمل مخدوش ہے چونکہ اِس میں عوامی شمولیت پہ ایک سوال لگا رہتا ہے اور مزاحمتی احزاب نے انتخابی عمل سے کنارہ لیا ہوا ہے۔حکومتوں کے بننے بگڑنے کی کہانی 1953ء سے شروع ہو گئی ۔یہ کہانی جہاں تاریخ و سیاست کے طالب علم ،ایک جہاندیدہ مبصر کیلئے ایک تاریخی سبق کی حثیت رکھتی ہے وہی یہ کہانی سیاسی پہلو سے عبرت ناک بھی ہے۔1953ء میں شیخ محمد عبداللہ کی حکومت گرانے سے پہلے اِس بات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ نیشنل کانفرنس کی صف اول کی رہبری میں اِس حد تک دراڑ ڈال دی گئی ہے کہ اُن کے بعد حکومت وہی کچھ انجام دے گی جو دہلی سرکار کی منشا ہو۔یہ حکومت کیوں گرائی گئی اور کیسے گرائی گئی اِس بارے میں آئی بی یعنی بھارتی سراغ رسانی کے سابقہ انچارج بی این ملک نے تفصیل سے پس پردہ کاروائی کے بارے میں اپنی تصنیف(My years with Nehru-Kashmir) میں ذکر کیا ہے۔ میجر جنرل ہیرا لال اتل نے اپنی تصنیف (Nehru's Emissary to Kashmir) میں اِسے ایک فوجی کاروائی سے تشبیہ دی ہے۔یہ تصانیف گواہ ہیں اِس حقیقت کی کہ کشمیر میں ابتدا سے ہی جمہوری عمل مخدوش رہا ہے۔بی این ملک اور ہیرا لال اتل کی تصانیف کے علاوہ کئی مبصروںنے اپنی تحریروں میں کشمیر میں جمہوری عمل پہ سوالات اٹھائے ہیں اور آج تک اِن سوالات کا کہیں بھی کوئی بھی تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔شیخ محمد عبداللہ کے بعد کشمیر کی سیاست میں جو خلا پیدا ہو گیا وہ پورا کر کے بخشی غلام محمد نے وہ کام کیا جو اُنکے سپرد کیا گیا تھا ۔بگذشت زماں وہ ایک عضو نا کارہ بنتے جا رہے تھے لہذا ایک ایسا گام بھی آیا جہاں اُنکے بجائے غلام محمد صادق وہ اقدامات کرنے کیلئے آمادہ نظر آئے جن کی ضرورت اقتدار کے اعلی ایوانوں میں محسوس کی گئی ۔
1965ء میں جموں و کشمیر کے آئین کی چٹھی ترمیم سے وزیر اعظم بہ یک جنبش قلم وزیر اعلی بن گئے اور صدر ریاست گورنر اور ایسے میں ریاست کے اعلی عہدہ داروں کے عنواں کو بھارت کی دوسری ریاستوں کی سطح پہ لایا گیا اور اِس کے ساتھ ساتھ بھارتی آئین کی دفعات 356/357کو ریاست میں نافذ کیا گیا۔اِن دفعات کی رو سے ایسے حالات میں جہاں ریاست کو آئینی دائرے میں ایک منتخب شدہ حکومت سے چرخانا نا ممکن بن جائے وہاں صدر جمہوریہ ہند کے اختیارات کو وسعت بخشی گئی بہ معنی دیگر دہلی سرکار کے ہاتھ کشمیر میں آئینی مداخلت کے لئے کھول دئے گئے جبکہ1965ء تک ہنگامی حالات میں صدر ریاست کے پاس ایسے حالات سے نمٹنے کے لئے تمام اختیارات ہوتے تھے ۔ 1953ء میں شیخ عبداللہ کی سرکار کو صدر ریاست کرن سنگھ نے ہی برخواست کیا تھا گر چہ ایسا دہلی سرکار کے ایما پر ہی ہوا تھا۔اِس سے پہلے کہ غلام محمد صادق کے راج سنگھاسن کے پایے ڈھیلے پڑ جائیں وہ جہاں فانی سے رخصت ہوئے لیکن اُن کی حیات کے دوراں ہی میر قاسم دہلی کی نظر میں آ چکے تھے ۔
میر قاسم کی وزارت کے دوراں شیخ محمد عبداللہ اور اُن کے ساتھیوں پہ یہ خیال چھانے لگا کہ مزاحمتی سیاست سیاسی آوارہ گردی کی متراوف ہے بنابریں 1975ء میں شیخ عبداللہ بہ کاہش مقام کام کرنے پہ آمادہ ہوئے،۔1953ء میں وہ وزیر اعظم کے عہدے سے فائز کر لئے گئے تھے جبکہ 1975ء میں وزیر اعلیٰ کے عہدے پہ بحال کر لئے گئے، البتہ وہ کانگریس کی قطعی حمایت سے حکومت کر رہے تھے ۔ 1977ء میں کانگریس نے ویسے ہی شیخ وزارت کی حمایت سے ہاتھ کھنچ لیا جیسے پچھلے مہینے میں بھاجپا نے محبوبہ مفتی کی حکومت سے ہاتھ کھنچ لیا ۔ شیخ عبداللہ کے حق میں یہ بات رہی کہ دہلی میں اندرا گاندھی کی کانگریسی سرکار گر چکی تھی اور جنتا پارٹی کے راج میں مرار جی ڈیسائی وزیر اعظم بن چکے تھے لہٰذا گورنر نے شیخ عبداللہ کی سفارش پر اسمبلی کو تحلیل کیااور ایک نئے انتخابی عمل کا آغاز ہوا جس کے دوراں شیخ محمد عبداللہ اور میرزا افضل بیگ کو ایک بار پھر عزت و آبرو کا وہ مقام یاد آیا جو وہ اقتدار کی مسند پہ بھول چکے تھے ۔سبز رومال ایک بار پھر لہرانے لگا اور سرحد پار کا نمک بھی یاد آنے لگا۔ عبداللہ سرکار ایک بار پھر آب و تاب سے جلوہ گر ہوئی اور 1982ء تک براجماں رہی جب تک کہ شیخ محمد عبداللہ جہاں فانی کو وداع کہہ گئے۔
شیخ محمد عبداللہ کے نامزد جانشیں فاروق عبداللہ نے مسند اقتدار کو سنبھالا ۔اقتدار کا نشہ اِس حد تک سر چڑھ کر بولنے لگا جہاں وہ یہ سمجھنے لگے کہ وہ دہلی سرکار کی حمایت کے بغیر جموں کشمیر کے راج سنگھاسن کو سنبھالنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔وہ الیکشن اپنے بل بوتے پہ جیت بھی گئے لیکن 1984ء میں اُن کے ایم ایل اے صاحبان وہی کچھ کر رہے تھے جو دہلی سرکار چاہتی تھی۔ عبداللہ خاندان کی اندرونی رسہ کشی کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے فاروق عبداللہ کی جگہ اُنکے بہنوئی غلام محمد شاہ وزیر اعلی بن گئے۔اُنکی وزارت کی خاص بات یہ رہی کہ یہ سرکار اکثر و بیشتر کرفیو کی کرامات سے چلی اور تب تک چلی جب تک کہ فاروق عبداللہ نے دہلی سرکار کی خواہش پہ ماتھا ٹیکا اور کانگریس کے ساتھ ایک ملی جلی سرکار بنانے پہ آمادگی ظاہر کرلی۔فاروق عبداللہ نے یہ سبق ازبر یاد کر لیا کہ جموں و کشمیر کی حکومت کو صرف و صرف دہلی سرکار کی حمایت سے ہی چلایا جا سکتا ہے اور یہاں کوئی بھی وزیر اعلی مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنر جی کی مانند دہلی سرکار کی آنکھ میں آنکھ ڈال کرحکومت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا چونکہ ریاست جموں و کشمیر کی حکومت کوہمیشہ بھارت کی سیکورٹی کے آئینے میں جانچا جاتا ہے لہذا سیکورٹی ایجنسیوں کی رائے کو یہاں فوقیت حاصل ہوتی ہے ۔
80کے دَہے میں عبداللہ خاندان کے اندرونی اختلافات کا بھر پار فائدہ اٹھانے میں جو سیاسی کھیل یہاں کھیلا گیا اُس میں سب سے متحرک مہرہ مفتی محمد سعید تھا جو اُن دنوں میں کانگریس کے لیڈر تھے۔ بیسویں صدی کے اختتامی سالوں میں یہ مفتی سعید ہی تھے جنہوں نے نیشنل پارٹیوں کا ساتھ چھوڑ کے نیشنل کانفرنس کے مد مقابل ایک اور علاقائی تنظیم بنائی جسے پی ڈی پی نامیدہ گیا۔ نتیجہ یہ رہا کہ 21ویں صدی کی شروعات میں سیاسی میدان کی علاقائی سپیس میں دو حریف ایک دوسرے کے مد مقابل نظر آئے جس کا فائدہ نیشنل پارٹیوں کو رہا اور کبھی کانگریس نیشنل کانفرنس کے ساتھ کولیشن میں نظر آئی اور کبھی پی ڈی پی کے ساتھ یہاں تک کہ ایک ایسا مقام بھی آیا جہاں 2014ء کے الیکشن کے بعد مفتی محمد سعید نے بھاجپا کو اقتدار میں شامل کر کے قطب شمالی و قطب جنوبی کو ملانے کا نا قابل عمل عملی بنانے کا ٹھیکہ ہاتھ میں لیا جو انجام کار ایک نا کام تجربہ ثابت ہواجس کا ثبوت محبوبہ مفتی کی قیادت میں تشکیل دی ہوئی حکومت سے بھاجپا کی حمایت سے ہاتھ کھنچنا ہے جو حکومت گرنے کا سبب بنا۔
ریاست کے موجودہ سیاسی منظر میں جوڑ توڑ کی سیاست سے ایک اکثریتی حکومت کا امکاں ممکن ہے یا نہیں اِ س بارے میں قطعی طور پہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ریاستی اسمبلی کی موجودہ ساخت میں ایسا بعیدنظر آتا ہے جہاں پی ڈی پی کے ممبراں کی تعداد 28،بھاجپا کے ممبراں کی 25،نیشنل کانفرنس کے ممبراں کی 15اور کانگریس کے ممبراں کی تعداد 12 اور پیپلز پارٹی کے ممبراں کی تعداد 2 ہے جو بھاجپا کے ساتھ وابستہ رہے ہیں ، کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ یوسف تاریگامی کے علاوہ باقی کچھ آزاد ممبراں ہیں ۔اِس ایوان میں کوئی بھی حزب تک و تنہا حکومت تشکیل دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ بظاہر سب ہی احزاب نے کولیشن ترتیب دینے سے معذوری ظاہر کی ہے لیکن پھر بھی مختلف عناصر ایک اور کولیشن تشکیل دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔بھاجپا کے کچھ حلقوں نے اِس کی تصدیق بھی کی ہے گر چہ جموں و کشمیر کے انچارج رام مادھو کا کہنا ہے کہ بھاجپا کوئی ایسی کوشش نہیں کر رہی ہے۔اِس کے باوجود کچھ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک ایسی کولیشن کے بارے پرَ تولے جا رہے ہیں جس میں پیپلز پارٹی کے سجاد لون کا ایک خاص رول رہے گا گر چہ اِس خاص رول کی تشریح نہیں ہوئی ہے۔اگر اِس خبر میں کچھ حقیقت ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک اور سیاسی خاندان کو عبداللہ خاندان اور مفتی خاندان کے علاوہ منظر عام پہ لایا جا رہا ہے۔ایک اور کولیشن سرکار تب ہی تشکیل دی جا سکتی ہے جب اسمبلی ممبراں کی خاصی تعداد اپنی پارٹی کو چھوڑ کے ایک اور گروپ تشکیل دے لیکن قانون اساسی کے ساتویں شیڈول کے مطابق کوئی بھی اسمبلی ممبر اگر اپنی پارٹی کو چھوڑ دے یا اپنی پارٹی کی طے شدہ پالیسی کے خلاف اسمبلی میں وؤٹ دے تو پارٹی لیڈر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سپیکر سے اُس بر خواستگی کی سفارش کرے۔پہلے ساتویں شیڈول کی شق تین کے مطابق کسی بھی حزب کی مجموعی تعداد میں یک سوم ممبراں سے زائد ممبراں کے علحیدہ گروپ کی صورت میں اِس گروپ کو قبولیت حاصل ہوتی تھی لیکن 2005-06 میں شق سوم حذف کی گئی اور ایسے میں کسی بھی ممبر کو اپنی پارٹی کو چھوڑنا نا ممکن بنایا گیاہے۔اِس کے باوجود حکومت سازی کی خبروں کے پس پردہ کیا اسرار ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا؟:
رابطہ Feedback on: [email protected]