سال رواں 2018ء کے جون مہینے میں بھاجپا نے جموں و کشمیر میں مخلوط سرکار سے اپنی حمایت واپس لینے کے بعد ایک ایسی صورت حال کو جنم دیایا جہاں ایک بار پھر گورنر راج لاگو کرنے کی نوبت آئی۔ حالیہ برسوں میں موجودہ گورنر این این وؤہرہ نے کئی بار ریاست میں زمام اقتدار سنبھالا ہے۔2016ء میں مفتی سعید کی وفات کے بعدجب محبوبہ مفتی نے راج سنگھاسن پہ بیٹھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کی تو گورنر وؤہرہ کو کچھ مہینوں کے لئے گورنر راج لاگو کرنا پڑا،جب تک محترمہ گدی سنبھالنے پہ آمادہ ہوئیں۔2014ء میں الیکشن ہارنے کے بعد عمر عبداللہ نے نگران وزیر اعلی کی حیثیت میں رہنے سے معذوری ظاہر کی جس کے تدارک کے لئے گورنر وؤہرہ کو ریاست کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا۔پس کہا جا سکتا ہے کہ گورنری کا ایک نیا دور اُن کے لئے نیا نہیں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ موجودہ حالات میں گورنر راج ہونے کے سیاسی مضمرات کیا ہیں ،ہماری توجہ گورنر راج کے قانونی پس منظر پہ مرکوز رہے گی۔
ریاست کے قانون اساسی میں گورنر راج کا نفاذ ایک ایسے کھلواڑ کی عکاسی کرتا ہے جو ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی سیاسی حثیت کے ساتھ 1965ء میں ایک منصوبہ بند طریقے سے کھیلا گیا جس سے ریاست کے قانون اساسی کی خصوصی نوعیت اِس حد تک مسخ ہو گئی جہاں اُس کی خصوصیت کے تجزیے میں عقل سلیم کے معیار پہ اُسے خصوصی نہیں مانا جا سکتا ۔ جموں و کشمیر کے قانون اساسی کی بیخ کنی میں تجاوز کی سب ہی حدیں اِس حد تک پار کی گئیںجہاں عہد و وفا کے سب ہی پیماں تجاوز کی نظر ہو گئے ۔ اِس دلدوز تاریخی داستاں کا ہر ورق پلٹنے سے بقول میرزا نوشہ اسداللہ خان غالب ایک درد سا دل میں سوا ہوتا ہے ایک ہوک جگر سے اٹھتی ہے۔کشمیر کی رہبری کی صف اول کے دل ناداں نے کسی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوکے قومی عزت کی متاع بے بہا کو رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ سر عام لٹنے دیا اور ایک عام کشمیری دیکھتا ہی رہ گیا۔مادی معیار کی افزائش کو جہاں روح کی غذا مانا جائے وہاں قوموں کے ساتھ وہی کھلواڑ ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اور اگر ہماری رہبری کی صفیں آراستہ نہ ہوئیں تو وہی کچھ ہوتا رہے گا جو آج تک ہو کے بہ گذشت زباں ہماری تقدیر کا عنواں لئے منظر عام پہ عیاں ہو کے قومی فہم و دانش پہ ایک سوالیہ بنا ہوا ہے۔
1965ء سے پہلے ریاست جموں و کشمیر پہ بھارت کی گرفت گر چہ کم و بیش تکمیل کی حدوں کو پار کر چکی تھیں پھر بھی قانون اساسی کے دائرہ کار میں ریاست کی خود مختاری کہیں نہ کہیں عیاں تھی ،خاص کر ایسے حالات میں جو آج در پیش ہیں یعنی قانون اساسی کے دائرہ کار میں حکومت سازی کا عمل ایک مشکل دور سے گذر رہا ہے چونکہ کسی بھی حزب کے پاس اسمبلی کی اکثریت نہیں اور احزاب میں ایسا توفق دور دور تک نظر نہیں آتا جہاں ایک مخلوط سرکار کا قیام ممکن ہو سکے لہذا گورنر کو زمام حکومت اپنے ہاتھوں میں لینی پڑی اور یہ اقدام گورنر نے صدر جمہوریہ ہندکو حالات کی جانکاری دینے کے بعد کیا بہ الفاظ دیگر یہاں سے اُس سرکار کی دسترس ریاست پہ قائم ہوئی جسے عرف عام میں مرکزی سرکار کہا جاتا ہے لیکن کہا جا سکتا ہے کہ جن حا لات میں اور جن تقاضوں کو مد نظر رکھ کر ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق ہوا اُس کی عارضی نوعیت کے سبب ریاست کی مرکزیت کم و بیش اُنہی حدود میں تھیں جو ریاست کی جغرافیائی حدیں تھیں اور نئی دہلی کی دسترس کچھ ہی امور تک محدود تھی البتہ 1965ء کے اپریل مہینے کی دس تاریخ کو قانون اساسی کی ایک اور قلابازی سے ایسے حالات میں جہاں جمہوری طریقے سے حکومت سازی کا عمل مشکلات سے دو چار ہوجائے ریاست میں مرکزی حکومت کی دسترس شروع کرنے کے عمل کو ممکن بنایا گیا گر چہ ایک محدود حد تک ریاست جموں وکشمیر کو بھارتی ریاستوں سے تقابل نسبت میں امتیاز حاصل ہے از اینکہ ریاست پہ گر چہ گورنر راج قائم ہو چکا ہے اِسے بھارتی ریاستوں کی مانند صدارتی راج نہیں کہا جاسکتا بلکہ گورنر راج کہا جاتا ہے اور یہ امتیاز چھ مہینے تک ہی قائم رہ سکتا ہے جس کے بعد اگر جمہوری عمل سے حکومت نہ بن سکی تو گورنر راج صدر راج میں بدل جائے گا البتہ گورنر راج کہا جائے یا صدر راج دونوں صورتوں میں زمام اقتدار گورنر کے ہاتھوں میں ہی رہتی ہے۔
1965ء میں جو آئینی رد بدل ہوا اُس پہ نظر ڈالنے سے پہلے 1947ٗء سے ریاست کے آئینی سفر پہ نظر ڈالنی ہو گی۔ 1947ٗء میں بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کے بعد کچھ ریاستی امور جن میں امور خارجہ ،دفاع و رسل و رسائل شامل رہے بھارت کی تحویل میں دئے گئے اور ریاست جموں و کشمیر کا عارضی رشتہ بھارت کے ساتھ تا تصفیہ قطعی دفعہ 370 کے تابع قرار دیا گیا بہ معنی دیگر 370 بھارت و ریاست کے درمیان قانون اساسی کے دائرے میں ایک پل کا کام دیتا رہا۔ 1949ء میں حسرت موہانی کے ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزیر گوپالا سوامی آئنگر نے علنناََ یہ بات کہی کہ بھارت بین الاقوامی سطح کشمیر کے ضمن میں وعدہ بند ہے اور تا تصفیہ حتمی 370 آئینی حد و بند کی کسوٹی بنا رہے گا لیکن عملاََ ہوا یہ کہ 370 کا استعمال آئینی رابطہ کاری تک محدود رکھنے کے بجائے اُسے بطور سرنگ کے استعمال کیا گیا جس سے آئین ہند کی دفعات یکے بعد دیگرے گذارنے کے عمل کے ساتھ ہی اُنکا اطلاق ریاست میں ہونے لگاجو سریحا اُس عہد وفا کے برعکس تھا جو ریاست جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کا سبب بنا اور جس کی تائید بقول بھارتی رہبراں ریاستی رہنماؤں نے مہاراجہ ہری سنگھ کے دستخط الحاق پہ ہونے کے بعدکی اور رہبری کی اِس صف کے پیشرو شیخ محمد عبداللہ تھے اور اگلی صفوں میں اُن کے علاوہ بخشی غلام محمد،غلام محمد صادق،میرزا محمد افضل بیگ اور مولانا مسعودی شامل تھے۔
1953ء تک یہ احساس شیخ عبداللہ پر حاوی گیا تھا کی اُن کی کرسی کے پایے ریاستی لکڑی کے نہیں بلکہ بھارتی آہنی مواد کے بنتے جا رہے ہیں اور اس آہن میں اُن کو زنجیریں بھی نظر آنے لگی تھیں لیکن بغاوت کی بھنک پاتے ہی کرسی سے بندھی زنجیروں کو کسنے کا عمل شروع ہوا اور یہ ثابت ہوا کہ ریاست کے حکومتی سربراہ کی آزادی زنجیروں کی لمبائی تک محدود ہے۔پنچھی پھڑپھڑاتا رہا لیکن صیاد اپنی کمند ڈال چکا تھا۔1963ء کے آخری مہینوں میں اور 1964ء کے اوائل میں وفات سے پہلے بھارتی رہبراں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ گلزاری لال نندہ نے بھارتی پارلیمان میں یہ عندیہ دیا کہ دفعہ 370 ایک خالی گولہ رہ گیا ہے جس کی بارود نکالی جا چکی ہے اور اِسے ریاست جموں و کشمیر سے آئینی رابطہ بنائے رکھنے کے بجائے ایک آئینی سرنگ کا کام لیا جا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بھارتی قوانین کا اطلاق ریاست پہ ہوتا رہے اور سچ تو یہ ہے کہ شیخ محمد عبداللہ کے ہوتے ہوئے بھی 1952ء کے دہلی سمجھوتے میں اقتصادی امور کی دسترس بھارت نے اپنے ہاتھوں میں لی تھی البتہ اُس دور میں بھارتی عدالت عالیہ سپریم کورٹ کا اطلاق نہیں ہوا جو بعد کے ایام میں رو بعمل لایا گیا ۔1963ء کے آخری مہینوں میں اور 1964ء کے اوائل میں حضرت بل سے موئے رسول پاکؐ کے مقام مقدس سے اٹھانے کے بعد جو صورت حال پیش آئی اُس میں بھارتی حاکموں کو ہنگامی حالات میں زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے کی ضرورت کا احساس ہونے لگا چناچہ سیاسی سطح پہ بخشی غلام محمد کا دور اقتدار ختم کیا گیا اور نظریاتی سطح پہ دہلی سے بیشتر قربت رکھنے کے سبب قرعہ فال غلام محمد صادق کے نام نکل آیا اور1965ء میں صادق نے اپنی وفاداری کا علنی ثبوت آئین جموں و کشمیر کی چٹھی ترمیم کے ساتھ دیا۔
1965ء تک ریاست کا آئینی سر براہ صدر ریاست اور ریاستی حکومت کا سربراہ وزیر اعظم کہلاتا تھا لیکن سنگھ پریوار کی ایک اکائی پرجا پریشد کی ہنگامہ آرائی سے جس کا نعرہ ایک پردھان (پردھان منتری) ایک ودھان(ایک ہی قانون اساسی) ایک نشان (ایک ہی جھنڈا) تھا۔ بگذشت زماں یہ بھی عیاں سے عیاں تر ہوتا جا رہا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں سنگھ پریوار کی نشو و نما میں بھارتی حکومت کے ایک دھڑے کا ہاتھ تھا جس کی سربراہی بھارت کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل کر رہے تھے۔سردار پٹیل گر چہ مہاتما گاندھی کے فیصلے کے آگے کہ رہبری میں اُن کے جانشیں پنڈت نہرو بنیں گے جھک تو گئے لیکن دل سے اُنہوں نے کبھی قبول نہیں کیا کہ وہ پنڈت نہرو کے نائب بنیں رہیں ۔پنڈت نہرو کو خاطر میں لائے بغیر پٹیل داخلی امور جن میں ریاستی امور شامل رہتے ہیں اپنے انداز میں کام کرتے رہے۔کچھ مبصرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ کشمیر کا معاملہ چونکہ بھارتی سرحدی تحفظات سے جڑا تھا اسلئے کشمیر کے معاملات میں دونوں مل جل کے کام کرتے تھے اور اِس کے تاریخی شواہد بھی موجود ہیں۔
1965ء سے پہلے ریاست کے آئینی سربراہ کو جس کا عنواں صدر ریاست تھا ایسے حالات میں جو آج کل در پیش ہیں نئی دہلی سے کسی بھی آئینی اقدام کیلئے اجازت لینے کی بات تو دور ہے اطلاع دینے کی ضرورت بھی نہیں تھی کیونکہ جمہوری عمل میں رخنہ آنے کی صورت میں صدر ریاست کوئی بھی آئینی اقدام کرنے کا خود مجاز تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا کبھی ایسا امکان پیش آیا؟ 1947ء میں بھارت سے ایک عارضی الحاق کے بعد کے آئینی سفر پہ ایک نظر ڈالی جائے تو 1953ء کی صورت حال پہ نظر پڑتی ہے جب اگست کی 9تاریخ کو شیخ محمد عبداللہ کی سرکار کو صدر ریاست کرن سنگھ نے بر خواست کر کے حکومت اُن کے نائب بخشی غلام محمد کو بخشی۔یہ اقدام کرنے کیلئے جہاں تک سرکاری اندراج کا تعلق ہے یہ اقدام صدر ریاست نے خود کیا گر چہ دنیا جانتی ہے کہ ریاستی آئینی تحفظات کی بیخ کنی میں نئی دہلی کا ہاتھ تھا جس کا ذکر تفصیل سے مشہور و معروف تصانیف میں آ چکاہے اور سیاسی رخنہ اندازی کی یہ داستاں ہماری تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔
آئین جموں و کشمیر کی چٹھی ترمیم کی رو سے ریاست کاآئینی سربراہ صدر ریاست کے بجائے گورنر کا عنواں لئے اور حکومتی سربراہ کا عنواں وزیر اعظم کے بجائے وزیر اعلی کا عنواں لئے منظر عام پہ آیا۔بدون شک یا تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ غلام محمد صادق نے دہلی کی ملازمت با کاہش درجہ قبول کی جب وہ وزیر اعظم سے وزیر اعلی بن گئے اور اِس ترمیم سے ریاستی آئینی سربراہ صدر جمہوریہ ہند کا نامزد ہونا قرار پایا جبکہ ریاستی آئین میں صدر ریاست کو ریاستی قانون سازیہ کا چنا ہوا مانا گیا تھا گر چہ اُس کا رسمی اعلان صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے ہونا قرار پایا تھا ۔ صدر ریاست کا قانون سازیہ کا چنا ہوا ہونا اِس بات کا ضامن تھا کہ اُس کی وفاداری ریاست جموں و کشمیر کے آئینی اداروں سے وابستہ رہے نہ یہ کہ آئین ہند کی پاسداری اُس کے حلف میں شامل رہے۔چٹھی ترمیم نے آئینی رخنہ اندازی کا راستہ بھارت کیلئے صاف کیا۔ بھارتی آئین کی دفعہ 355 کی رو سے کسی بھی ریاست کو اگر داخلی مشکلات کا سامنا ہوجس سے نقص امن کا خطرہ منڈلاتا رہے یا خارجی حملے کی صورت میں بھارت کی مرکزی سرکار کو مداخلت کا حق ہے اور ایسے میں صدر راج قائم ہو گا۔
صدر راج کا نفاز بھارتی آئین کی دفعہ 356کے تحت ہوتا ہے اور صدر راج کی عملیات بھارتی آئین کی دفعہ 357کے تحت ہوتی ہیں ۔ دفعہ 356کے اطلاق کے دوران ریاستی قانون سازیہ معطل رہتی ہے اور قانون سازی کا کام پارلیمان ہند کے ذمہ رہتا ہے۔ریاست جموں و کشمیر کو ایک استثنا یا آئینی خصوصیت حاصل ہے جسے بھاگتے چور کی لنگوٹی کا عنواں دیا جائے تو بیجا نہ ہو گا ۔ جموں و کشمیر آئینی دفعہ 92کے تحت ایسے حالات میں جہاں حکومتی تشکیل مشکلات سے دو چار ہو یعنی آج کی جیسی صورت حال میں داخلی نقص امن یا خارجی حملے کی صورت میں گورنر کو صدر جمہوریہ کو مطلع کرنے کے بعد چھ مہینے تک گورنر راج لاگو کرنے کا حق ہے جیسا کہ آج کی صورت حال میں عیاں ہے اور گورنرحکمنامے کے ذریعے کسی نئے قانون کا اطلاق بھی کر سکتا ہے البتہ حکومت سازی کے بعد قانون سازیہ کو ایک مقرر مدت کے دوران اُس کی یا تو تصدیق کرنی پڑی گی یا رد کرنا پڑے گا البتہ چھ مہینے کے بعد حکومت سازی میں مزید رخنے کی صورت میںیا داخلی نقص امن یا خارجی حملہ بنے رہنے کی صورت میں صدر جمہوریہ ہند چاہے تو وہ مرکزی راج یعنی صدارتی راج قائم رکھ سکتا ہے۔
Feedback on: [email protected]