سرینگر//قومی محاذِ آزادی کے سینئر رکن اعظم انقلابی نے کہا ہے کہ کشمیر میں ہر شام فی الحقیقت شامِ غریباں ہی ہوتی ہے۔27جنوری 2018ء کو پوری قوم 27جنوری1994ء کے ہندوارہ کے اُن 27مہلوکین کی یاد میں باطنی انجذاب اور قلق واضطراب کی کیفیت سے پہلے ہی نڈھال ہوچکی تھی کہ شوپیان میں بھارتی فورسز نے 2معصوم نوجوانوں کو گولیوں سے بھون کر ابدی نیند سلادیا۔ اعظم انقلابی نے کہا کہ یوں 27جنوری نے 27 اکتوبر 1947ء کے سانحہ کی یاد تازہ کی جب بھارتی فوج اِس ریاست میں وارد ہوئی اور صوبہ جموں میں ڈوگرہ فوج کے ساتھ مل کر نسلی تطہیر کا عمل شروع کیا اور لاکھوں معصوم مسلمانوں کو قتل کیا اور 5لاکھ مسلمانوں کو ننگے پاؤں پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہاکہ ہر سال جنوری کا مہینہ ہمیں گاؤکدل، ہندوارہ، سوپوراور کپوارہ کے قتل عام (genocide)کے واقعات کی یاد دلاتا ہے۔ اِسی طرح ہر سال فروری کا مہینہ ہمیں تہاڑ جیل مقتل کے واقعات کی یاد دلاتا ہے جب محمد مقبول بٹ کو 11فروری1984ء کو تختۂ دار پر جرمِ بے گناہی میں پھانسی دی گئی۔ انقلابی نے کہاکہ بھارتی حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ چنانچہ اُنہوں نے9فروری 2013ء کو محمد افضل گورو کو مقدمہ کے قانونی مراحل سے گزرنے کا موقع ہی نہیں دیا اوراسے بھی پھانسی پر چڑھایا۔ انقلابی نے کہاکہاپنے 6لاکھ شہیدوںکی یاد کو ہی باعثِ افتخار قومی اثاثہ سمجھتے ہیں۔ بھارتی حکمران یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ دریائے گنگا، جمنا اور جہلم کے پانی کا بہاؤ شاید کبھی رُک سکتا ہے لیکن کشمیر کی مُزاحمتی آندھی رُک نہیں سکتی، بہتر یہی ہے کہ پاکستان اور کشمیری قوم کو بھارت اعتماد میں لیتے ہوئے سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا ایک پُرامن، پائیدار اور باعزت حل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوششوں کا آغاز کریں۔