ڈاکٹر غلام قادر وانی 11مارچ1953میں ارن بانڈی پورہ کے غلام محمد وانی کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے چچا جبار صاحب عرف مولوی صاحب سے پائی۔ اس کے بعد این ایم ہائر سکنڈری اسکول با نڈی پورہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ سوپور ڈگری کالج سے گریجویشن کی اور پھر جواہر لال نہرو یو نیو رسٹی نئی د ہلی سے اردو میںپوسٹ گریجویشن اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں کیں۔ جے این یو میں انہیں اسرارورموزسیاست سمجھنے کا موقع ملا اور جب واپس کشمیر آئے تو ایک منجھے ہوئے سیاست دان بن چکے تھے۔وانی صاحب نے بیگ پارتھاسارتھی ایکارڈ کے خلاف زبر دست مہم چلائی جس کی پاداش میں چھ مہینے بدنام زمانہ باغ مہتاب انٹروگیشن سنٹر میںمقید رہے۔ پہلے جمعیت طلبہ سے بعدازاں جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ۔جماعت کے ترجمان’’ اذان‘‘ اور’’ عقاب ‘‘کے مدیر بھی رہے۔ 1986 میں انہوں نے مسلم متحدہ محاذ کے قیام میں کلیدی رول نبھایا اور اس کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 1987 ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد مسلم متحدہ محاذ کے دیگر لیڈران کے ساتھ وانی صاحب بھی زندان کی زنیت بنائے گئے، رہا ئی کے بعد مرحوم کچھ دیر خاموش رہے۔ کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہوتے ہی شکیل احمد بخشی ارن جاکر وانی صاحب کو سرینگر لے آئے۔ یہاں سے وانی صاحب کی زندگی کا طویل و صبر آزما تحریکی سفر شروع ہوا۔ کچھ مدت کے لئے اسلامک اسٹوڈنٹس لیگ کے جھنڈے تلے سرگرم رہے ، پھر جے کے ایل ایف کے ترجمان بنے۔ 1992 ء میں ایک بار پھر آئی ایس ایل میں شامل ہوئے اور قائم مقام سرپرست اعلیٰ مقرر ہوئے۔ اسی سال پاکستان چلے گئے جہاں سے انہوں نے کئی ممالک کا دورہ کر کے مسلٔہ کشمیر کا اقوام عالم کے سامنے پیش کیا۔ آئی ایس ایل کے جو کارکنان پاکستان میں مقیم تھے، انہوں نے وانی صاحب کے خلاف مخالفت کا محاذکھڑا کر دیا جس سے وہ بہت پریشان ہوئے اور تنگ آکر پاکستان سے 1995 ء واپس وطن لوٹ آئے ، اپنے آبائی گائوں کی راہ لی اور اپنے آپ کو حدمت خلق اللہ کے لئے وقف کر دیا۔8ستمبر 1997 شام پانچ بجے بوپورہ کیمپ میں مقیم بی ایس ایف اہلکاروں نے گائوں پر زبردست شیلنگ کی جس سے 11افرا جان بحق ہوئے،ان میں 6 بچے بھی شامل تھے۔ وانی صاحب نے اس بارے میں اپنے قریبی رشتہ دار محمد عبداللہ کی درخواست پر حصول انصاف کے لئے جدوجہد شروع کی۔اس پر بی ایس ایف اہل کار سخت برہم ہوئے۔ انہوں نے وانی صاحب کو باز آنے کو کہا،وہ نہ ماننے تو انہیں کثیر رقم کی پیش کش کی گئی ۔ انہوں نے اسے بھی حقارت سے ٹھکرادیا۔ اس کے بعد اخوان کے خونخوار کمانڈر جاوید شاہ ،جو اب ایم ایل سی بنایا جا چکا تھا، نے وانی صاحب کو دھمکی دینا شروع کر دیںمگرمرحوم اپنی جدوجہد سے دستبردار نہ ہوئے۔4نومبر1998 ء کو جب وانی صاحب 8.30بجے کے قریب نماز عشاء کی نماز ادا کر کے گھر جا رہے تھے تو ان پر جان لیوا حملہ ہوا،کئی گولیاں ان کے جسم میں پیوست ہوگئیں۔ وانی صاحب نے جام شہادت نوش کیا۔ انہیں بانڈی پورہ میں ہی دفن کیا گیا۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں ۔
فون نمبر9419009648