مئی1946میں شیخ محمد عبداللہ نے کشمیر چھوڑدو کا نعرہ بلند کیا۔ اس تحریک نے بہت جلد پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ہر جگہ جلسے اور جلوسوں کا اہتمام ہونے لگا۔ اسلام آباد قصبے میں بھی جلوس نکلنے لگے۔ ایک صبح ڈوگرہ فوج نے قصبہ میں گشت کیا اور جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی لیکن کچھ لوگ مسلح سپاہیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک جگہ جمع ہوئے اور آہستہ آہستہ قصبے کی سڑکوں پر مارچ کرنے لگے۔ وہ ڈوگرہ شاہی کے خلاف اور شیخ محمد عبداللہ کے حق میں دیوانہ وار نعرے بلند کر رہے تھے۔ شیخ محمد عبداللہ کو کشمیر چھوڑ دو تحریک کی پاداش میں ڈوگرہ مہاراجہ نے اپنے دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا تھا۔اس کے ردعمل میں لوگ مہاراجی حکومت کے خلاف کا فی مشتعل ہوئے تھے۔ اسلام آباد کا یہ جلوس شیخ محمد عبداللہ کی رہائی کی مانگ بھی کر رہا تھا اور اس میں پیر وجوان کے ساتھ ساتھ کچھ عور تیں بھی شریک تھیں۔
ایک کسان عورت مسماۃ فاطمہ جواپنی تحریکی سرگرمیوں کے لئے قصبہ میںخاصی مشہور تھیں ،اس جلوس میں شامل ہو گئیں اور جلد ہی وہ جلوس کی قیادت کرنے لگی۔ جلوس میں ہر لمحے لوگ جوق درجوق شامل ہو رہے تھے اور ڈوگرہ سپاہی خون خوار نظروں سے لوگوں کی بڑھتی تعداد دیکھتے جا رہے تھے لیکن یہ جیالے سپاہیوں کی ترچھی نظروں کی پرواہ کئے بغیر آگے بڑھ رہے تھے۔ ان کے جوش وجنون میں ہر لمحے اضافہ ہو رہا تھا ۔ اچانک ڈوگرہ سپاہیوں نے اپنی بندوقوں کے دہانے جلوس پر کھول دئے اورنہتے لوگ یکے بعد دیگرے گرنے لگے۔ سپاہی شاید فاطمہ کو تلاش رہے تھے اور جلد ہی وہ نعرے لگاتی ہوئے دیکھی گئی۔ کئی گولیوں نے اس کا سینہ یک بہ یک چھلنی کر دیا۔ فاطمہ نیچے گریں لیکن اپنے پاک خون سے اپنی عظمت کی داستان رقم کر گئیں۔ فاطمہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ہیں۔ فاطمہ کی شہادت کا ذکر مشہور مورخ اور کشمیر یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ ہسٹری محمد یٰسین اور مادھوی یٰسین نے اپنی Mysteries and Glimpses of Kashmir میں کیا ہے۔ بہر حال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عام لوگ فاطمہ اور اس کی شہادت کو یکسر بھول گئے۔حکام نے بھی فاطمہ کو فرموش کردیا۔ یہ ا س فراموشی کا شاخسانہ ہے کہ مجھ پر کوئی یہ راز کھول نہ سکا کہ یہ شہیدہ کہاں دفن ہیں۔
نوٹ : کالم نگار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے سینئر ایڈ یٹر ہیں
فون نمبر9419009648