صوبہ سرحد کے سومو خان آرمی میں ڈاکٹر تھے ۔ ان کی اہلیہ بچے کو جنم دیتے ہی فوت ہوئی۔نوزائیدہ بچے کی پرورش مسلٔہ بن گئی۔ ایک صبح دل پر پتھر رکھ کر سومو خان نے بچے کو زیارت بتہ مالو صاحب کی سیڑھی پر رکھ دیا۔ بتہ مالو کے ہی شیخ محمد عبدللہ نے بچے کی پرورش اپنے ذمہ لی۔ بچے کا نام شیخ غلام قادر رکھا گیا، ابتدائی تعلیم مشن اسکول سے لی اور کم سنی میں ہی تحریک آزادی سے جڑ گئے۔ 1946ء میں کشمیر چھوڑ دو تحریک میں حصہ لیا لیکن 1947 میں جب یہاںبھارت کی فوج آئی تو دل برداشتہ ہو کر کچھ دیر سیاست سے کنارہ کشی کر لی۔ ریشم خان میں یومیہ اُجرت پر ملازت اختیار کر کے گھر کی طرف توجہ دی۔1953 میں پولٹکل کانفرنس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ چونکہ محی الدین قرہ ان کے پڑوسی اور ساتھی تھے ، ا س لئے غلام قاد زیادہ دیر تک اپنے آپ کو روک نہ پائے۔ پولٹکل کانفرنس کی رُکنیت حاصل کرتے ہی اُنہیں دو سال تک جیل ملی۔ رہا ہوتے ہی اُنہوں نے تحریکی سرگرمیاں زور و شور سے شروع کر دیں۔ وہ اپنے گھر بار، بیوی، بچوں کو تقریباً بھول گئے۔ سارا وقت تحریک آزادی کی نذر کر دیا۔ ایک دن اپنے سسرال والوں کو اپنے گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر سہم گئے۔ سالوں نے اُن کی خوب پٹائی کی اور زبردستی اپنی بہن کو طلاق دلائی۔ یہ غلام قادر کیلئے سخت ترین دور کا آغاز تھا۔ وہ دو لڑکیوں اور ایک بوڑھی ماں کی کفالت اور تحریک سے والہانہ وابستگی کے بیچ پھنس گئے۔ آخر اپنے عیال کو اُن کے حال پر چھوڑ کر پولٹکل کانفرنس کا انڈر گراونڈ اخبار چلانے لگے۔ اس کام میں ان کی بڑی بیٹی حاکم جان ان کی مدد کیا کرتی لیکن گھریلو ذ مہ داریوں نے اُن کو ایک وقت پھر سے ملازت کرنے پر مجبور کردیا۔ کچھ دیرتک پیر غیاث الدین کے اخبار ’’چنار‘‘ کے لئے کام کیا۔ اس کے بعد بروکا زپریس میں بھی ملازم ہوئے لیکن ایک دن وہاں سے بھی نکال دیا گیا۔ پریس کے مالک نے کہا کہ آرمی والے اُن کی وجہ سے کام نہیں دیتے۔ اسی دوران عید آئی، گھر میں تین مرغیوں کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ چناںچہ نو روپے میں تینوں مرغیوں کو فروخت کر کے عید کا سامان لایا ۔ ایک دن وزیر اعظم بخشی غلام محمد نے بتہ مالو کا دور کیا۔غلام قادر کو دیکھ کر چیخ کر بولا کہ اگر میرے دور میں کچھ نہ کیا تو کبھی کچھ نہ کر وگے۔ 1975 میں فریڈم فائٹرس الاؤنس ٹھکراکر پولٹکل کانفرنس کے جھنڈے تلے ڈٹے رہے لیکن جب 1977 میں محی الدین قرہ نے سیاسی آوارہ گردی ختم کی تو غلام قادر نے گوشہ نشینی اختیار کی۔ گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر دن بھر اخبار پڑھتے رہتے۔ ایک دن جب ہاکر نے رقم کا تقاضا کیا تو غلام قادر کی بوڑھی ماں کو چاندی کے کنگن بیچ کر یہ قرضہ چکانا پڑا۔ شیخ غلام قادر 23 دسمبر1983ء کو فوت ہوئے اور بتہ مالو میں ہی سپرد خاک ہوئے۔ ان کی بیٹی مرحومہ حاکم جان کو اپنے والد سے کوئی گلہ نہ تھا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ میرے ابا نے اپنے آپ کو تحریک کے لئے وقف کیا تھا ، ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ آخری دم تک اپنے موقف پر ڑ ٹے رہے۔
فون نمبر9419009648